• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی منظرنامہ، پاکستان کی تقدیر آئین و جمہوریت سے جڑی ہوئی ہے

اسلام آباد(طاہر خلیل)شاہد خاقان عباسی وکھری ٹائپ کے وزیراعظم ہیں جنہیں اخبار سے دلچسپی ہے نہ ٹی وی دیکھتے ہیں تین روز پہلے صحافیوں کے گروپ کے ساتھ ملاقات میں وزیراعظم کی اس بات پر شرکا ورطہ حیرت میں ڈوب گئے جب انہوں نے انکشاف کیاکہ مجھے ذاتی نمودونمائش سے کوئی دلچسپی نہیں، میں اخبار پڑھتاہوں نہ ٹی وی دیکھتا ہوں ،لوگوں سے براہ راست رابطے میں رہتا ہوں اس لئے ہر وقت ہاتھ عوام کی نبض پرہوتا ہے۔ وزیراعظم کے اس تجزیے سے بھی اختلاف کی گنجائش نہیں کہ ملکی تاریخ کا یہ خوش کن لمحہ ہے جب چیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی چیف پارلیمنٹ کی بالادستی اور جمہوریت کے ساتھ وابستگی کا اظہار کررہے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ گزشتہ کچھ عرصے سے سپریم کورٹ آف پاکستان حکومت اوراپوزیشن جماعتوں کے درمیا ن جاری محا ذ آرائی کے باعث لگائے گئے کرپشن الزامات اور دیگر سیاسی تنازعات میں الجھی رہی ہے۔ عدلیہ نے پانامہ کیس میں میاں نواز شریف اور عمران خان کے حوالے سے جو بھی فیصلے کئے اس پر فریقین ملے جلے ردعمل کا اظہار کررہے ہیں لیکن میاں نوازشریف نے ہری پور جلسے میں ایک بار پھر اپنی نااہلی کے فیصلے کومسترد کیا اورکہاکہ یہ فیصلہ واپس لیناہوگا۔ یہ کیسے ممکن ہوگا اس کی کوئی وضاحت بیان نہیں کرسکا تاہم چیف جسٹس میاں ثاقب نثار حالیہ دنوں میں دوٹوک کہہ چکے اورپارلیمان کی سپر میسی پر اظہار تیقن کرچکے۔ جمہوریت کے ساتھ وابستگی پر کوئی دو آرا نہیں اور ان کا یہ عزم کہ جمہوریت پامال نہیں ہونے دیں گے آج کے منظر نامے میں اس امر کااظہار ہے کہ پاکستان کی تقدیر آئین اور جمہوریت سے جڑی ہوئی ہے۔جسٹس میاں ثاقب نثار عدلیہ کے اندرموجود بہت سے مسائل اورانصاف کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا تذکرہ بھی کررہے ہیں، ان کی رائے وزن رکھتی ہے کہ عدلیہ کا جس کے خلاف فیصلہ آجائے وہ تنقید شروع کردیتا ہے اور کہنے لگتا ہے کہ عدلیہ کسی پلان کا حصہ بن گئی ہے اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ سیاسی مقدمات جنہیں چیف جسٹس ’’ سیاسی کچراـ‘‘ قرار دیتے رہے ہیں، کی وجہ سے عدلیہ کی ساکھ مجروح ہوئی ہے اور اسی سبب عدلیہ کے پاس دیگرمقدمات کی بڑی تعداد زیر التوا پڑی ہے۔ سیاسی مقدمات کی وجہ سے عدالتی فیصلے بھی ہدف تنقید بنتے ہیں۔چیف جسٹس بے شک دیانتدارانہ فیصلہ سازی کے قائل ہیں مگر گائوں کے مکھیا’’ بابا رحمت‘‘ کے طور پر اس بات کا ادراک ضرور ہونا چاہیے کہ ایک مرتبہ جب کسی کا اعتماد اٹھ جائے تو بحالی مشکل ہوجاتی ہے، آج کے حالات میں جب ریاستی نظام عدم توازن کا شکارنظر آتا ہے تو آئین سے رجوع کرنا ضروری ہوجاتا ہے کیونکہ آئین ہی وہ اصول طے کرتا ہے جو اداروں کو اپنے دائرہ کار میں رکھتے ہیں۔ چیف جسٹس کا یہ کہنا بجا ہے کہ سپریم کورٹ کو سیاسی گند کی لانڈری نہیں بناناچاہیے بلکہ اس بات کا سب کو احساس ہونا چاہیے کہ عام لوگوں کے مقدمات کو بھی عدلیہ نے نمٹانا ہوتا ہے۔ایک ایسے ماحول میں جب ایک سیاسی فریق کھل کر پارلیمنٹ پر لعنت ملامت کررہاہے حالانکہ پارلیمان پر دشنام طرازی اور لعن کرنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ پارلیمان کے بغیر سیاستدانوں کا کوئی وجود نہیں اور جس ایوان کو لائق دشنام سمجھتے ہیں تو پھر اس کی رکنیت کےلئے اتنی جان ماری کیوں ہوتی ہے اوربطور رکن اس پارلیمان سے مالی مراعات کیوں حاصل کی جاتی ہیں؟ بہر حال حوصلہ بخش پہلو ہے کہ بیزارسیاسی ماحول کے باوجود چیف جسٹس آ ف پاکستان، آرمی چیف کے بیانات اور تین روز قبل قومی اسمبلی کی متفقہ قرار داد میں ایک بات قطعی مشترک ہے کہ پاکستان کا استحکام، سربلندی اورترقی جمہوریت سے وابستہ ہے جوکہ باقی پاکستان قائداعظم کے وژن اور آئین کے عین مطابق ہے۔
تازہ ترین