• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئی پی پیز کے کیپسیٹی چارجز، مضبوط پاور سیکٹر کیلئے خطرہ

اسلام آباد ( خالد مصطفیٰ ) جون 2018تک سسٹم میں11ہزار میگا واٹ بجلی کی شمولیت سے بلات کی ادائیگی بدستور حکومت کے لیے درد سر رہے گی، لیکوڈیٹی بحران میں ا ضافہ ہو گا ، اس لیے کہ ہر سال سنٹرل پاورپرچیز ایجنسی( سی پی پی اے) 150 سے 200 ارب روپے پاور ہائو سز کو کیپ سیٹی چارجز کی مد میں ادا کرتی ہے۔تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق سال رفتہ کے دوران آئی پی پیز( انڈی پینڈنٹ پاور پروڈیوسرز) کو کیپ سیٹی چارجز کی مد میں 203ارب روپے ادا کیے گئے، کیپ سیٹی چارجز ان پاورہائوسز کو دیے جاتے ہیں جن سے بجلی کی پیداوار دستیاب ہوتی ہے لیکن حکومت ان سے میرٹ آرڈر کے مطابق بجلی نہیں خریدتی۔میرٹ آرڈر کے مطابق باصلاحیت پلانٹس کی بجلی پیدا کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کی جاتی ہے تا کہ وہ مناسب نرخوں پر بجلی فراہم کر سکیں ،اس وقت فرنس آئل اور مہنگےڈیزل سے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس غیر فعال ہیں ، تا ہم انہیں کیپ سیٹی چارجز ادا کیے جاتے ہیں ۔ جائنٹ سیکرٹری( پاور فنانس ) ضرغام اسحاق خان نےاس کی تصدیق کی ہے کہ گزشتہ سال پاور ہائوسز کو کیپ سیٹی چارجز کی مد میں203ارب ادا کیے گئے ، انہوں نے کہا کہ اس وقت ہر قسم کے آئی پی پیز کے بلات کا حجم 472ارب روپے ہے ، ان میں103ارب روپے کیپ سیٹی چارجز کی مد میں ادا کیے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت2028کے بعد پاور پرچیز ایگری منٹ( پی پی ایز) کے تحت پانچ سال تک ادائیگی کرتی رہے گی، اس لیے کہ زیادہ تر آئی پی پیز سے25سے 30سال کا معاہدہ ہے، یہ2028میں ختم ہو گا اور کیپ سیٹی بل اس کے بعد بھی پانچ سال تک ادا کرنا ہوں گے،تا ہم انہوں نے اعتراف کیا کہ کیپ سیٹی چارجز کی ادائیگی کا سالانہ حجم 150سے200ارب کے درمیان ہے ، سیکرٹری پاور ڈویژن یوسف نسیم کھوکھر نے بھی اعتراف کیا کیپ سیٹی چارجز کی ادائیگی پائیدار پاور سیکٹر کے لئے بڑا خطرہ ہے، ماضی میں آئی پی پیز سےجو پاور پرچیز ایگری منٹ کیا گیا اس پر بھی سوال اٹھے، یہ عوام کے حق میں نہیں تھا، تا ہم اس وقت کے فیصلہ سازوں کا موقف تھا کہ پاکستان خطرناک ملک خیال کیا جاتا ہے جہاں کوئی بھی پاور سیکٹر میں سرمایہ کاری کے لیے تیار نہیں، اس لیے اس طرح کے پی پی ایز پر دستخط کیے گئے تا کہ ملک میں بجلی کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے ۔اگر کوئی ان پی پی ایز کا باریکی سے جائزہ لے تو اس کو احساس ہو گا کہ سرمایہ کاروں نے اسے خودڈرافٹ کیا ہے ، سرکاری حکام نے اس پر محض دستخط کیے ۔ سیکرٹری پاور ڈویژن نے مزید کہا کہ کچھ آئی پی پیز کے بہت سےپی پی ایز آنے والے چار پانچ سال میں ختم ہو جائیں گے، جب کہ 2027-2028تک ان کا مکمل خاتمہ ہو جائے گا۔اب جب کہ بجلی کے منصوبے سی پیک کی چھتری تلے مکمل ہورہے ہیں ،اس لئےدیگر معیشتوں کےبھی کئی ایک منصوبے موجود ہیں ، اب پاکستان کے پاس یہ سہولت موجود ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ دس سے پندرہ سال کے لیے پی پی ایز کے منصوبے قبول کرے، اور کیپ سیٹی چارجز بھی ادا نہ کرے، مستقبل میں پاور منصوبوں کے لیے جو بھی معاہدے ہوں گے ان میں کیپ سیٹی چارجز نہیں ہوں گے، صرف جو بجلی استعمال ہوگی اس کی ادائیگی کی جائے گی،اس طرح سے ہی حکومت کیپ سیٹی چارجز کے بحران سے باہر نکل سکے گی۔ سرکلر ڈیٹ سے پیدا ہونے والے لیکوڈیٹی بحران کے بارے میں ضرغام اسحاق خان نے بتایا کہ پاور سیکٹر کی ادائیگی کا حجم 472ارب روپے ہو گیا ہے،اس میں آئی پی پیز کو 222ارب روپے اداکرنے کی ضرورت ہے۔اس کے علاوہ 162ارب روپے پی ایس او، 13ارب روپے گیس اور18ارب روپے واپڈا کو بھی پاور سیکٹر نے ادا کرنا ہیں ، انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیاں اب تک بلات کی وصولی کو بہتر نہیں کر سکیں ، اگرچہ پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں نے ریکوری 86فیصد سے بہتر بنا کر92فیصد کی ہے تا ہم اس آٹھ فیصد کے نتیجے میں سسٹم کو 58ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے،جو سرکلر ڈیٹ کی شکل میں سامنے آرہا ہے، جب ریکوری 86فیصد تھی تب اس نقصان کا حجم سالانہ 132ارب روپے تھا، پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں سے کہا گیا ہےکہ وہ ریکوری کو بہتر بنائیں ، اپنی کار کردگی بہتر بنانے کے سوا ان کے پاس کوئی رستہ نہیں۔  
تازہ ترین