• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت، افغان، امریکہ گٹھ جوڑ:حقائق کو مت جھٹلائیں

سولہ سال کی جنگ کے باجود افغانستان میں ناکامی نے موجودہ امریکی قیادت کو جس بوکھلاہٹ میں مبتلا کررکھا ہے، اس کے مظاہر مسلسل سامنے آرہے ہیں۔ اس حوالے سے تازہ ترین واقعہ گزشتہ روز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکی نائب وزیر خارجہ جان سلیوان کی طرف سے افغانستان میں امریکی ناکامی کاالزام دہشت گردوں کی سرپرستی اور ان کے محفوظ ٹھکانوں کے حوالے سے پاکستان پر عائد کیے جانے کا ہے جس کی تائید اجلاس میں موجود بھارتی اور افغان مندوب نے بھی کی ۔ تاہم پاکستانی مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے بڑی فراست اور چابکدستی کے ساتھ امریکہ کو آئینہ دکھاتے ہوئے اس کی ناکامی کے اصل اسباب کو واضح کیا ۔ جان سلیوان نے افغانستان میں قیام امن کے لیے امریکہ کی موجودہ حکمت عملی کی وضاحت ان الفاظ میں کی کہ ’’افغان افواج کے لیے مستحکم بین الاقوامی حمایت کے ساتھ حکومت افغانستان کی قیادت میں قیام امن کے لیے کی جانے والی کوشش طالبان پر واضح کرے گی کہ میدان جنگ میں فتح حاصل نہیں کی جاسکتی لہٰذا مسئلے کا سیاسی حل ضروری ہے۔‘‘ امریکی نائب وزیر خارجہ نے طالبان کو تنہا کرنے اور ان کی آمدنی اور ہتھیاروں کے ذرائع کو منقطع کرنے کے لیے بین الاقوامی تعاون کی ضرورت کا اظہار کیا۔ بھارتی مندوب نے اجلاس میں دعویٰ کیا کہ بھارت افغانستان میں امن،استحکام اور ترقی کے لیے دوسرے ملکوں کے ساتھ مل کر کام کررہا ہے جبکہ افغانستان کے نمائندے نے اس امر پر اظہار اطمینان کیا کہ عالمی برادری اب اس حقیقت کا بہتر ادراک کررہی ہے کہ افغانستان کے مسئلے کے حل میں پاکستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کی موجودگی ہے۔ تاہم پاکستانی مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے پاکستان کے خلاف اس سہ طرفہ گولہ باری کا مسکت جواب دیا اور الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے یہ حقیقت پسندانہ موقف اختیار کیا کہ افغانستان اور اس کے اتحادیوں خصوصاً امریکہ کو تنازع کے خاتمے کے لیے دوسروں پر الزام تراشی کے بجائے افغانستان کے اندر موجود چیلنجوں سے نمٹنے پر توجہ دینی چاہیے۔ انہوں نے اس حقیقت کی نشان دہی کی کہ افغانستان کے وسیع علاقے پر آج بھی طالبان کا مکمل کنٹرول ہے اور منشیات کے کاروبار کی شکل میں انہیں بڑے پیمانے پر مالی وسائل بھی حاصل ہیں۔ اس لیے انہیں کسی بیرونی مدد کی ضرورت نہیں ۔ جبکہ پاکستان خود دہشت گردی کا شکار ہونے کی بناء پر اس مسئلے سے نمٹنے کی جدوجہد میں مصروف ہے اور اس کے مثبت نتائج دنیا کے سامنے ہیں۔ پاکستان نے کئی عشروں سے تیس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کا بوجھ بھی اٹھا رکھا ہے جن کے کیمپوں میں دہشت گردوں کے پناہ لینے کے امکانات موجود ہیں، اس لیے افغان مہاجرین کی وطن واپسی میں افغانستان اور امریکہ سمیت پوری عالمی برادری کو پاکستان سے تعاون کرنا چاہیے۔بلاشبہ ان حقائق کی موجودگی میں افغانستان میں طالبان کی مزاحمت کے ختم نہ ہونے کا الزام پاکستان پر عائد کرنا ہٹ دھرمی کے سوا کچھ نہیں۔ لیکن صدر ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی کا بنیادی نکتہ ہی یہ ہے کہ افغانستان میں امریکی ناکامی کی ساری ذمہ داری پاکستان پر عائد کرکے امریکیوں کو مطمئن کیا جائے لیکن حقائق کو جھٹلانے سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ امریکہ آج طالبان کو بزور قوت مذاکرات کی میز پر لانے کی ضرورت کا اظہار کررہا ہے تاہم ماضی میں کئی بار جب پاکستان ، چین اوراور دوسرے ملکوں کی کوششوں سے طالبان مذاکرات پر آمادہ ہوئے تو ایسے ہر موقع پر امریکہ نے ڈرون حملوں اور دیگر طریقوں سے مذاکرات کو سبوتاژ کردیا۔ اب امریکہ ایک بار پھر طاقت کے بل پر طالبان کو مذاکرات پر مجبور کرنا چاہتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے سولہ سال کی ناکام جنگ سے کوئی سبق نہیں سیکھا ۔ افغانستان میں قیام امن کے لیے پاکستان ، چین ، روس اور ایران جیسے ملکوں کی کوششیں اسی وقت باور ہوسکتی ہیں جب امریکہ الزام تراشی کے بجائے حقائق کی بنیاد پر مسئلے کو حل کرنے پر آمادہ ہو اور تمام فریقوں کے ساتھ مخلصانہ بات چیت کے ذریعے مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرے۔

تازہ ترین