• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے ہفتے کے روز سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں جسٹس اعجا ز الاحسن کے ہمراہ غیر معیاری لاء کالجوں کے خلاف از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔اُنہوں نے ملک بھر کی سرکاری یونیورسٹیوں کو نئے لاء کالجوں کے الحاق سے روک دیا اور قرار دیا کہ جو افراد صبح پان بیچتے اور شام کو دودھ کی دکان چلاتے ہیں وہ بھی لاء کی ڈگریاں لئے پھرتے ہیں، ہمیں پان کی دکان چلانے والے وکیل پیدا نہیں کرنے۔دنیا بھر میں سب سے محنتی طالب علم وکالت کا پیشہ اختیار کرتے ہیں جبکہ ہمارے ملک میں صورتحال بالکل بر عکس ہے۔اُنہوں نے ایل ایل بی میں داخلے کیلئے لئے جانیوالے اِنٹری ٹیسٹ کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے سرزنش کی کہ اگر نقل کر کے ہی وکیل بننا ہے تو ایسے ٹیسٹ سسٹم ہی کو ختم کر دینا چاہئے۔چیف جسٹس نے سرکاری یونیورسٹیوں سے الحاق شدہ لاء کالجوں کی رپورٹ طلب کرتے ہوئے سینئر قانون دان حامد خان کی سربراہی میں کمیٹی قائم کی ہے جو چھ ہفتوں میں اپنی سفارشات پیش کرے گی۔دورانِ سماعت ملک بھر کی سرکاری یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے پنجاب یونیورسٹی میں مستقل وائس چانسلر تعینات نہ کرنے پر برہمی کا اظہار کیا۔اُنہوں نے کہا کہ مجھے افسوس ہے ہم نے اپنے اداروں کو مضبوط نہیں کیا۔ کسی بھی معاشرے میں انصاف کی فراہمی کیلئے بنچ اور بار لازم و ملزوم ہیں۔ بروقت انصاف کی فراہمی کیلئے ایک وکیل کا اچھے تعلیمی ادارے سے فارغ التحصیل ہونا بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ دیگر شعبہ زندگی میں ناکام ہونے کے بعد حادثاتی طور پر یہ پیشہ اختیار کرنے والا وکیل اپنے موکل کے وقت کے ساتھ بھاری فیس کی صورت میں پیسے کے ضیاع کا باعث بھی بنتا ہے۔اس ضمن میں چیف جسٹس کا اقدام لائق تحسین ہے۔لاء کالجوں اور ایل ایل بی میں داخلے کیلئے اِنٹری ٹیسٹ کا معیار بہتر بنانے سے صرف قابل اور محنتی لوگ ہی اِس عظیم پیشہ کو اختیار کریں گے اور معاشرے میں انصاف کا بول بالا کرنے میں اہم کردار ادا کریں گے۔

تازہ ترین