• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قصور سانحہ کے بعد سوشل میڈیا کے ذریعہ ایک وڈیو سامنے آئی جس میں چھوٹی چھوٹی معصوم بچیوں سے بڑے بے ہودہ انداز میں ایک ٹی وی چینل کے شو میں ڈانس کروایا گیا۔ یہ بے ہودگی اور چھوٹی بچیوں کی معصومیت سے کھیلنا اس قدر گری ہوئی حرکت تھی کہ اس پر مغربی میڈیا تک نے بھی اعتراض کیا لیکن نہ تو اس پر پیمرا نے کوئی ایکشن لیا اور نہ ہی اس پر میڈیا کی طرف سے کوئی خاص اعتراض اٹھایا گیا۔ میں نے جب اس وڈیو کو دیکھا تو دکھ ہوا کہ اپنی ریٹنگز کے لیے کوئی اس حد تک بھی گر سکتا ہے۔ ریٹنگ اور پیسے کے لیے پہلے ہی عورت کو استعمال کیا جا رہا ہے اب معاملہ چھوٹی بچیوں تک پہنچا دیا گیا ہے۔ ایسے پروگرامز پر تو متعلقہ ٹی وی چینل کے ساتھ ساتھ اینکر کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہیے اور کم از کم ایسے پروگرامز اور اینکرز پر پابندی تو ضرور عائد کرنی چاہیے لیکن یہاں ایسی کوئی روایت ہم قائم ہی نہیں ہونے دینا چاہتے کیوں کہ میڈیا کی ایسی گھٹیا حرکتوں کو بھی آزادی رائے کی آڑ میں بچا لیا جاتا ہے ۔ اگر میڈیا کے علاوہ ایسی حرکت کسی اسکول میں ہوئی ہوتی تو اس پر بریکنگ نیوز چل چکی ہوتیں، بڑے بڑے اینکرز پروگرامز کر چکے ہوتے۔ مجھے امید نہیں کہ اس حرکت پر پیمرا بھی کوئی ایکشن لے گا۔ ویسے مجھے تو اس بات پر بھی سخت اعتراض ہے کہ ٹی وی چینلز نے کس طرح کراچی میں انتظار نامی نوجوان کے پولیس کے ہاتھوں مارے جانے کے بعد اُس لڑکی کے متعلق خبریں نشر کیں جو وقوعہ کے وقت گاڑی میں موجود تھی۔ یہ بات پہلے ہی تسلیم کی جا چکی تھی کہ انتظار کو پولیس نے بے قصور مارا جس کی تحقیقات کا بھی اعلان ہو چکا تھالیکن اس کے باوجود اُس لڑکی کے بارے میں بار بار خبریں چلائی گئیں اور پھر پہلے اُس کا نام اور پھر اُس کی تصویریں ٹی وی اسکرینز پر چلائی گئیں۔ بعد میں اُس لڑکی کے ٹیلی فون انٹرویوز تک چلائے گئے۔ اگرچہ میں لڑکی لڑکے کی دوستی کا قائل نہیں اور نہ ہی پسند کرتا ہوں کہ کوئی اس طرح نامحرم نوجوان لڑکی لڑکا اکیلے گھومیں پھریں۔ لیکن اگر کوئی لڑکا لڑکی اس طرح گھوم رہے تھے اور اس دوران حادثہ ہو گیا تو کیا یہ مناسب تھا کہ اُس لڑکی کا نام لے لے کر اس مسئلہ کو بلاوجہ اسکینڈیلائز کیا جائے جبکہ یہ سب کو معلوم تھا کہ قتل پولیس نے کیا نہ کہ لڑکی نے۔ کاش ٹی وی چینلز ایسے نازک معاملات میں دوسروں کی عزت کا خیال رکھیں۔ ویسے عمومی طور پر تو ہمارے چینلز کا رواج ہے کہ اگر کوئی لڑکی لڑکا گھر سے بھاگ نکلیں تو اُنہیں ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے جبکہ والدین کو ولن کے روپ میں دکھایا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے ڈراموں میں، اشتہاروں کے ذریعے اور دوسرے طریقوں سے لڑکوں لڑکیوں کو دوستی کرنے کی تعلیم دی جاتی ہے اور اسے ترقی اور روشن خیالی کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔ لیکن انتظار قتل کیس میں چینلز کے لیے سب سے بڑی attraction وہ لڑکی بن گئی جو وقوعہ کے وقت گاڑی میں مقتول کے ساتھ بیٹھی تھی کیوں کہ اس سے ریٹنگ مل رہی تھی۔ اگر وہ لڑکی اس قتل میں شریک جرم ہوتی تو اُس کا نام ضرور لیا جانا چاہیے تھا لیکن اگر وہ میڈیا کے اس کلچر کے مطابق جسے وہ خوب پروموٹ کر رہا ہے ایک نامحرم کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گئی تو اس غلطی پر اُس کی اور اُس کے خاندان کی عزت کا چینلز کو خیال رکھنا چاہیے تھا۔ ایسے نجی واخلاقی معاملات میں ہمیں پردہ رکھنے کی اسلام تعلیم دیتا ہے۔ ہمارے میڈیا مالکان، نیوز ڈائیرکٹرز، رپورٹرز، اینکرز اور مجھ سمیت ہر صحافی کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ایسے اخلاقی و نجی معاملات میں اگر ہم دوسروں کی غلطیوں اور گناہوں کی پردہ داری کریں گے تو آخرت میں ہمارے گناہوں پر بھی پردہ پڑا رہے گا۔ میڈیاایسے معاملات کو اچھالنے کی بجائے اپنی روش بدلے اور مغربی ثقافت کی بجائے اسلامی تعلیمات کے مطابق معاشرہ میں ماحول فراہم کرنے میں مدد دے جس کے مجھے کوئی اثار نہیں نظر آتے۔

تازہ ترین