• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

منوبھائی کو یاد کرتا ہوا میں ان کے گھر کی طرف بڑھ رہا تھا فیروز پور روڈ پر ٹریفک کا رش میرے دل کی دھڑکنیں تیز کر رہا تھا۔ایسا لگ رہا تھا کہ اگر میں ان کی رسم قل پر دعا میں شریک نہ ہو پایا تو وہ اپنے روایتی مشفقانہ انداز میں ڈانٹتے ہوئے کہیں گے ’’اوئے کھوتیا کتھے رہ گیا سی ‘‘ منوبھائی سے میری آخری ملاقات ان کے ریواز گارڈن والے گھر میں نہیں بلکہ ایک پرائیویٹ اسپتال میں ہوئی تھی اور مجھے دیکھ کر وہ اٹھ کر بیٹھ گئے تھے۔زندگی کے آخری دن بھی وہ اسپتال میں اٹھ کر بیٹھ چکے تھے اور گھر جانے کی تیاری کر رہے تھے لیکن موت نے آلیا۔میری گاڑی مزنگ چوک سے چوبرجی کی طرف مڑی تو سڑک کے دونوں طرف قبرستان میانی صاحب تھا۔بائیں طرف سڑک کنارے واصف علی واصف صاحب کے مزار کے قریب سے گزرا تو مجھے منوبھائی کا وہ کالم یاد آ گیا جو انہوں نے اشفاق احمد صاحب کے ایک انٹرویو پر لکھا تھا۔یہ انٹرویو روزنامہ جنگ کے ٹی وی اسٹیج ایڈیشن کیلئے قاضی سعید نے کیا تھا۔ایڈیشن انچارج عبدالرئوف نے انٹرویو کی ہیڈلائن یہ بنائی کہ ’’ہم زندگی فرعون کی اور عاقبت موسیٰ علیہ السلام کی چاہتے ہیں ‘‘ یہ جملہ دراصل واصف علی واصف کی کتاب ’’کرن کرن سورج‘‘ میں سے لیا گیا تھا لیکن شائد اشفا ق احمد اس کتاب کا حوالہ دینا بھول گئے۔انٹرویو شائع ہوا تو واصف علی واصف مرحوم نے قاضی سعید سے شکوہ کیا ۔قاضی صاحب دو صوفیوں کی لڑائی میں پھنس گئے ۔وہ مدد کیلئے منوبھائی کے پاس پہنچے منوبھائی خود بھی واصف علی واصف کے مریدوں میں شامل تھے اور ان کی محفلوں میں اشفاق احمد صاحب کو دیکھ چکے تھے جو داڑھی والے صوفی تھے اور واصف صاحب بغیر داڑھی کے صوفی تھے ۔منوبھائی نے اپنے کالم میں بڑی خوبصورتی کے ساتھ لکھا کہ اشفاق صاحب نے درآمد شدہ خیالات کے غیر مقبول ہونے کی وجہ سے برآمد شدہ خیالات کو مقبول بنانے کی کوشش کی ہے ۔منوبھائی نے یہ بھی لکھ دیا کہ کچھ لوگوں کے خیال میں اشفاق احمد صاحب کے ڈراموں میں بہت سے خیالات و نظریات واصف صاحب کے ہوتے ہیں۔منوبھائی کے اس کالم پر کئی دن نہیں کئی ہفتوں اور مہینوں تک بحث ہوتی رہی ۔واصف علی واصف صاحب کی شکل منوبھائی سے بہت ملتی تھی اور جب وہ بیمار پڑے تو اشفاق احمد انکی عیادت کیلئے اسپتال جا پہنچے اور یوں دونوں صوفیوں کا دوبارہ ملاپ ہوگیا۔میں منوبھائی کو یاد کرتا ہوا ان کے گھر پہنچا تو وہاں رسم قل کیلئے دعا شروع ہو چکی تھی۔مولوی صاحب نے منوبھائی کے درجات کی بلندی کیساتھ ساتھ قصور میں قتل ہونے والی سات سالہ زینب کیلئے بھی دعا کی تو مجھے بہت اطمینان ہوا کیونکہ منوبھائی کی تمام زندگی زینب جیسے مظلوموں کیلئے آواز اٹھاتے گزر گئی۔یہاں بہت سے لوگوں نے گیارہ مئی 2017ء کو ’’جنگ‘‘ میں شائع ہونے والے میرے کالم’’ ڈاکٹر منوبھائی‘‘ کا ذکر کیا جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ روزنامہ امروز کے ادبی ایڈیشن میں منیر احمد قریشی کے نام سے نظمیں لکھنے والے نوجوان شاعر کو منوبھائی کا نام احمد ندیم قاسمی نے دیا تھا ۔ یہ کالم دراصل منوبھائی کو انکی زندگی میں خراج تحسین پیش کرنے کے جذبے کے تحت لکھا گیا تھا۔ اس کالم پر منوبھائی نے مجھے فون کیا او رتھینک یو کہا تو ان کا لہجہ شرمایا شرمایا سا تھا۔میں نے کہا منوبھائی آپ ہمارے لئے رول ماڈل ہیں ہمیں اپنے رول ماڈلز کو انکی زندگی میں عزت دینی چاہئے انکی تعریفوں کیلئے انکی موت کا انتظار نہیں کرنا چاہئے ۔اس رسم قل میں اداکار مصطفیٰ قریشی کو دیکھ کر مجھے حبیب جالب یاد آ گئے ۔ مصطفیٰ قریشی کی حبیب جالب اور منوبھائی دونوں سے بڑی دوستی تھی ۔
جس زمانے میں طاہر اصغر اور احسان بزمی ہمارے بزرگ نثار عثمانی کے گھر حبیب جالب کی یاداشتیں ریکارڈ کر رہے تھے اس زمانے میں منوبھائی ،عباس اطہر، سید ممتاز شاہ اور کچھ د یگر صحافی روزانہ شام کو باغ جناح لاہور میں سیر کیا کرتے تھے اور جالب صاحب کی آپ بیتی کے بارے میں فکرمند رہتے ۔اسی ’’جالب بیتی ‘‘میں حبیب جالب نے منوبھائی کے بارے میں کہا کہ جب میں اسے فون کرتا ہوں تو وہ مجھ سے کہتا ہے کہ میں آپ کو بہت یاد کرتا ہوں۔وہ جھوٹ بولتا ہے لیکن منوبھائی جھوٹ بھی اس طرح بولتا ہے کہ مجھے اچھا لگتا ہے ۔چلو بولتا تو ہے مجھ سے جھوٹ ہی سہی ۔جالب صاحب کے ان الفاظ میں ایک درویش کی دوسرے درویش کیلئے محبت محسوس کی جا سکتی ہے۔ مصطفیٰ قریشی پرنم آنکھوں سے ان دونوں درویشوں کو یاد کررہےتھے اور کہہ رہے تھے کہ پاکستان خالی ہوتا جا رہا ہے بڑے لوگ دنیا چھوڑتے جا رہے ہیں اور انکی جگہ لینے والے نظر نہیں آ رہے ۔منوبھائی کابرخوردار کاشف مجھے اپنی والدہ سے ملوانےگھر کے اندر لے گیا۔کاشف بڑا بہادر انسان ہے اس نے اپنی جسمانی کمزوری اور بیماری کو کبھی مجبوری نہیں بننے دیا۔اور منوبھائی نے اسے بیماری کے باوجود ایک نارمل انسان کی طرح زندگی گزارنے کا حوصلہ دیا ۔اس دوران سابق صدر آصف علی زرداری بھی تعزیت کیلئے پہنچ گئے انہیں پتہ چلا کہ منوبھائی نے اپنی زندگی کے آخری سال تھیلی سیمیا کے مرض میں مبتلا بچوں کیساتھ گزارے تو انہیں بھی ان بچوں کو ملنے کا اشتیاق ہوا اور انہوں نے سندس فائونڈیشن کے دورے کی خواہش ظاہر کی۔منوبھائی کا آخری خواب لاہور کو تھیلی سیمیا فری سٹی بنانا اور آخر کار پاکستان کو تھیلی سیمیا فری کنٹری بنانا تھا۔مستنصر حسین تارڑ صاحب نے منوبھائی کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’میں اقرار کرتا ہوں کہ جب آج سے چالیس سال پہلے میں نے کالم نویسی کا آغاز کیا تو ابن انشاء اور منوبھائی میرے رول ماڈل تھے میں نے ان کی پیروی کی ،تارڑ صاحب کے اس سادہ سے اقرار نے مجھے ان کا مزید گرویدہ بنا دیا ہے کیونکہ انکی اسی عاجزی میں ان کی عظمت کی ہزار داستانیں سمٹ آئی ہیں اور یہی عاجزی منوبھائی میں بھی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ۔1994ء میں منوبھائی روزنامہ پاکستان چھوڑ کر واپس روزنامہ جنگ میں آگئے تو مجھے منوبھائی کی جگہ روزانہ کالم لکھنے کیلئے کہا گیا۔میری عمر صرف 28برس تھی لیکن میں نے حامی بھرلی اور سیدھا منوبھائی کے پاس پہنچا۔انہیں بتایا کہ مجھے آپ کی جگہ کالم لکھنا ہے منوبھائی نے اپنی تمام محبتیں مجھ پر نچھاور کر دیں اور اچھا کالم لکھنے کے گُربتانے لگے۔ انہوں نے کہا کہ عام آدمی کو اپنا استاد بنا لو۔ اس سے بات کرو اس سے سیکھو اور اسی کیلئے لکھو۔کالم میں اپنی ’’میں‘‘ کو مت لیکر آئوزندگی کے آخری دنوں میں انہوں نے ’’میں اور منوبھائی‘‘ کے عنوان سے جو سیریز لکھی وہ دراصل ’’میں‘‘ کی نفی تھی۔آج کے نوجوان اس منوبھائی سے واقف نہیں جو چالیس سال پہلے مستنصر حسین تارڑ کا رول ماڈل تھا۔وہ منوبھائی ایک کالم نگار بھی تھا ، ڈرامہ نگار بھی تھا اور شاعر بھی تھا۔منوبھائی کو پنچابی شاعری کی طرف فیض احمد فیض لائے تھے اسی لئے منوبھائی کی پنجابی شاعری میں فیض کا رنگ نظرآتا ہے ۔
منوبھائی نے جنرل ضیاءالحق کے دور آمریت میں ’’سوناچاندی‘‘ جیسی کامیڈی ڈرامہ سیریل کے ذریعہ مزاحیہ جملوں میں آمریت کا مذاق اڑایا۔وہ ان 55 صحافیوں اور دانشوروں میں شامل تھے جنہوں نے ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران سندھ میں ہونیوالے مظالم کے خلاف آواز بلند کی لہٰذا ڈاکٹر انو رسجاد، شوکت صدیقی ، فخر زمان اور منوبھائی پر پی ٹی وی کے دروازے بند کر دیئے گئے ۔ضمیر نیازی صاحب کی کتاب ’’پریس ان چینزPRESS IN CHAINSاور احفاظ الرحمان کی کتاب ’’آزادی صحافت سب سے بڑی جنگ ‘‘ میں جمہوریت کیلئے انکی جدوجہد کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ منوبھائی ایک صوفی بھی تھے اور سوشلسٹ بھی تھے ان کا سوشلزم لادینیت نہیں تھی ۔منوبھائی سوشلزم کو سوشل سروس سمجھتے تھے اور زندگی کی آخری سانسوں تک وہ اس سوشل سروس میں مصروف رہے ۔منوبھائی اکثر زیتون کی جڑوں کا ذکر کیا کرتے تھے جو سنگ مرمر کے اندر بھی پھیل جاتی ہیں ۔منوبھائی کی شخصیت بھی زیتون کی طرح تھی جو پتھر دلوں کے اندر بھی جگہ بنا لیتی تھی ۔ان کا آخری کالم اپنے آخری خواب کے بارے میں تھا وہ پاکستان کو تھیلی سیمیا سے پاک ملک بنانا چاہتے تھے ۔سندس فائونڈیشن انکی یاد میں منوبھائی اسپتال بنا رہی ہے ہم سب کو منوبھائی اسپتال کے ذریعہ منوبھائی کے آخری خواب کی تعبیر میں اپنا حصہ ڈالنا چاہئے ۔

تازہ ترین