• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کا ’’جنگ‘‘
آج علی الصبح روزنامہ جنگ پڑھا تو ہر خبر کالم کا تقاضا کرتی نظر آئی، جو اکثر نے چھپایا وہ جنگ نے ظاہر کر دیا، گویا آج کا ’’جنگ‘‘ حق و باطل کی جنگ ہے اور سچ کڑوا ہوتا ہے کی تصویر، کسی خبر کی چربی اتار کر اسے نام نہاد صحافت کے برعکس پیش کیا گیا، تاکہ قوم کے سامنے جس نے جو کہا وہ من و عن پیش کر دیا، جام جنگ میں جام جم دیکھا، صورت احوال واقعی سے کم نہ دیکھا، خانِ انصاف سے بھی انصاف کیا، اور میڈیا کشی کے جرم پر معافی یا ہرجانہ طلب کر لیا، یہ جرأت رندانہ بھی کہ آخر ایک ’’شخص‘‘ کے پیچھے پڑنے میں ملک و قوم کی کونسی خدمت انجام دی جا رہی ہے، ناپ تول کے سارے پیمانوں کی جانچ کر ڈالی، کس ترازو میں کیا سقم ہے، صاف صاف بتا دیا، یہی لگی لپٹی سے پاک صحافت کا شیوہ ہے، عوام کی آواز کیا ہے ان کی رائے کیا ہے یہ بتا کر، آگاہ کر دیا کہ وہ اب بھی اس کیساتھ ہیں جس کا ساتھ دینے کو جرم بنا دیا گیا، یہ ملک 22کروڑ عوام کا ہے، ان کی رائے سب پر بھاری کا احساس دلا رہی ہے، اور یہی سوچ جمہوریت کی جاں ہے، مال روڈ پر ہونے والے جلسے میں کرسیاں خالی رکھنے کی حکمت بیان کر دی کہ مقصود تو فقط توہین پارلیمنٹ تھی، شہیدوں کے لہو کا ذکر تو صرف لہو گرم رکھنے کا بہانہ تھا، ہری پور کے جلسے میں عوام کا ہرا سمندر تھا، دیدہ و دل فرش راہ تھے یہ تھا وہ فیصلہ جو عوام نے دیدہ و دل فرش راہ کر کے دے دیا، وہ چینلز کبھی بڑے نہیں ہو سکتے وہ اخبار کبھی اخبار نہیں بن سکتا جو اپنے بڑے کی عزت نہیں کرتا، جنگ جیو میڈیا گروپ ٹرینڈ سیٹر ہے نئی راہیں نکالتا ہے، صحافت کی شان بڑھاتا ہے، حسد کے بجائے نقیب صحافت سے سیکھنے میں میڈیا کی شان ہے، علم و ہنر کی قدر کی صحافت کے بڑے نام اسی نے پیدا کئے اور آج وہی نام دوسروں کا کام چلا رہے ہیں، کیا یہ کم خدمت ہے، لڑانا نہیں منانا ہے، جو کہا جاتا ہے وہی بیان کرتا ہے حسن انتخاب نہیں کرتا یہی اس کا قصور ہے، قوم کو باخبر رکھتا ہے دوست دشمن سب کے لئے اپنا پلیٹ فارم پیش کرتا ہے جنگ ، سچ کے سنگ ہے۔
٭٭٭٭
دیکھتے کانوں سنتی آنکھوں کو سلام
جو سنی ان سنی کرنے کے ماہر ہوتے ہیں اور دیکھ کر سنتے ہیں، ان کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ میرا دل یہ دیکھ رہا ہے یہ سن رہا ہے یہ سمجھ رہا ہے، جبکہ دل اندھا، بہرا اور پاگل ہوتا ہے، اور نوسرباز بھی کہ ایک قطرہ خون کو گھما پھرا کر قلزم بنا دیتا ہے اور جن کا دل کسی پر آ جاتا ہے تو دل آکاس بیل کی طرح اسے زرد رو اور رسوا کوبہ کو کر دیتا ہے، حسن کانوں کے راستے زیادہ متاثر کرتا ہے، کوئل جیسی آواز اور کوئلے جیسا رنگ بھی براستہ کان عشق کی بیماری لگاتا اور علاج نہیں کرتا ہے، آنکھ دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہونا ہی یقین با نصیب کی دولت عطا کرتا ہے، اگر کبھی غور کیا جائے تو ہمارے فیصلے ہمارا انتخاب اکثر اس لئے غلط ہوتا ہے کہ ہم اپنے اعضاء کا غلط استعمال کرتے ہیں، سارے جرم سارے گناہ ہم اس لئے تو کرتے ہیں، غالب سے لے کر آج کے آخری شاعر تک سب دل، جگر، آنکھ، کان ہی کے سبب تو بڑی بڑی آفات سے دوچار ہوئے، غالب نے حسن کی چھری کو نگاہ سمجھ کر ہی تو کہا ؎
دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی
دونوں کو اک ادا میں رضا مند کر گئی
کسی کور چشم کو آج تک سینے کے پنجرے میں بند دل نظر نہیں آیا، مگر اس کا ذکر ہر زبان پر ہے، کان آواز سنتے ہی آنکھوں کی بینائی چھین لیتا ہے، اور کالی لیلیٰ اچھے بھلے انسان کو تاریخ کا سب سے بڑا پاگل بنا کر رکھ دیتی ہے، انسان میں ایک نہایت تیز طرار صلاحیت ہوس ہے، یہی مجاز کو حقیقت بناتی ہے، حالانکہ انسان مجاز سے آگے جا ہی نہیں سکتا، انسان کے پاتال میں ایک شمع روشن رہتی ہے اور بالخصوص مردوں میں تو وہ بجھتی ہی نہیں اس لئے ان کی پیاس بھی کبھی نہیں بجھتی سارا رولا ہوس کا ہے جو اقتدار میں زور آور اور عمر ڈھلنے کے ساتھ باقی رہتی ہے مگر کر کچھ نہیں سکتی اسی لئے تو مرزا نوشہ نے کہا تھا؎
ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا
نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا
٭٭٭٭
آئو تجھ سے پیار کی باتیں کریں
نظریہ پاکستان سے لے کر سی پیک تک سارا بیڑا بد زبانی نے غرق کیا ہے، جن سے اللہ نے کہا لوگوں سے اچھی طرح بولو وہ یوں بولتے ہیں کہ سننے والے کا بولو رام ہو جائے، سیاست، ریاست، جمہوریت اور دیگر دل دہلا دینے والے موضوعات سے تنگ آ کر آج ہم نے سوچا کیوں نہ اپنے کالم کا یوم خوش اخلاقی منائیں، یہ جو ہمارے بڑے لوگ ہیں کیوں انتڑیوں کی گہرائیوں سے بولتے ہیں اس کی ہمیں تو ایک ہی وجہ سمجھ آئی کہ جب ہم چھوٹوں کو بڑا اور بڑوں کو چھوٹا بنا دیتے ہیں، اسی کا خمیازہ ہم قبیح گفتار کی صورت بھگتتے ہیں، ہر شخص گھٹیا بات اتنی اونچی آواز میں کرتا ہے کہ وہ ’’ودھیا گل‘‘ بن جاتی ہے، اب آہستگی سے کوئی بات ہی نہیں کرتا شاید خوف کم کرنے کے لئے اندھیرے میں چلنے والے بچے کی طرح اونچی اونچی آوازیں نکالتا ہے، ہمارے بڑے لوگ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم نہایت خفیف آواز میں پڑھتے ہیں اور اپنے ’’کلمے‘‘ نہایت اونچی آواز میں اور اچانک 5ویں گیئر میں گاڑی ڈال دیتے ہیں بعض کی تو شدت تقریر میں تھوکیں سامعین و حاضرین کو اپنے رخساروں پر محسوس ہوتی ہیں مگر حسنِ اندھی تقلید میں سہہ جاتے ہیں، ایک صاحب جن کی آواز غیرت ناہید ہے جونہی خطاب شروع کرتے ہیں کہ جیسے گرینیڈ کا پن کھول دیا ہو، اگر جھوٹ، اونچی بھدی آواز میں آن ایئر ہو تو اس کا ’’سواد‘‘ ہی کچھ الگ ہوتا ہے، عرض کیا ہے؎
اس نے اونچی آواز میں جو ہرزہ سرائی کی
پوری قوم تک آ گئی تاثیر بدزبانی کی
اب تو گھروں میں بھی افراد خانہ بہ آواز بلند بولتے ہیں، بالخصوص والدین اچانک اتنے ہائپر ہو جاتے ہیں کہ ایک جملے میں تین چار بے نقط بچوں کو اس طرح سنا دیتے ہیں کہ بچے سہم جاتے ہیں، اور جونہی بڑے ہوں گے وہ بھی اس ورثے کو زیادہ زندہ رکھیں گے۔
٭٭٭٭
کلمہ حق
....Oکیپٹن صفدر:قومی غیرت کا تقاضا ہے عمران کو دوبارہ پارلیمنٹ نہ بھیجیں۔
یہاں غیرت کے نام پر بیٹیاں قتل تو ہو سکتی ہیں غیرت کے نام پر پارلیمنٹ کا تحفظ نہیں کیا جا سکتا،
....Oشہباز شریف:احتجاجی عناصر ڈوبتی کشتی کو بچانے کے لئے ہاتھ پائوں ما رہے ہیں، مگر ان کے تو ہاتھ ہیں پائوں نہیں۔
....Oپیر سیالوی7:دن میں نفاذِ شریعت ورنہ پنجاب بند کر دیں گے، کیا پنجاب بند کرنا اچھا فعل ہے؟
....Oبجلی عام ہو گئی سستی بھی اب اگر گیس کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جائے تو وزیراعظم کی جے۔
....Oزرداری5:فروری کو موچی دروازہ کے جلسہ سے خود خطاب کروں گا، کارکن شرکت کر کے کشمیری عوام سے بھرپور یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔
ہم دیگر سیاسی قائدین سے بھی کہیں گے کہ کچھ وقت مسئلہ کشمیر کے حل اور کشمیریوں سے یکجہتی کیلئے بھی نکالیں۔

تازہ ترین