• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ ہفتے ’’تحریک قصاص ‘‘کے نام پر علامہ طاہر القادری نے تقریباً تمام اپوزیشن جماعتوں کو لاہور میں اکٹھے کر کے چیئرنگ کراس مال روڈ پر ایک جلسہ کر دکھایا ۔ اپوزیشن کی یہ تمام جماعتیں ایک نکتہ پر متفق تھیں کہ ماڈل ٹائون سانحہ وزیراعلیٰ اور وزیر قانون کے حکم پر پیش آیا ۔ اس سانحہ میں شہید ہونے والے چودہ عام شہریوں کے ورثا کو انصاف نہیں مل سکا اور جب تک قاتلوں کو گرفتار کر کے سزائیں نہیں دی جاتیں یہ تحریک جاری رہے گی ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ماڈل ٹائون میں جس طرح نہتے اور عام شہریوں پر گولیاں برسائی گئیں وہ پوری دنیا نے دیکھا پھر جسٹس باقرنقوی کی جو انکوائری رپورٹ سامنے آئی اس میں بھی ذمہ داروں کا تعین کیا گیا لیکن افسوس کہ قانون کی کوئی عمل داری نظر آتی ہے اور نہ ہی حکمرانوں کی نیت ہے کہ وہ مظلوموں کو انصاف فراہم کریں۔ سوال یہ ہے کہ اپوزیشن جو سانحہ ماڈل ٹائون اور قصور کے سانحہ کے خلاف اکٹھی ہوئیں کیا وہ انصاف کیلئے اکٹھی ہوئی تھیں؟ تو اس کا قطعی طور پر ہاں میں کوئی بھی جواب نہیں دے سکتا۔ ممکن ہے کچھ لوگ اور جماعتیں اخلاص کے ساتھ اس احتجاجی جلسے میں شامل ہوئی ہوں لیکن ماضی میں بننے والے اتحادوں اور تحریکوں نے تو یہ ثابت کیا ہے کہ یہ تحریکیں بظاہر جو مقاصد لے کر چلتی ہیں وہ اصل میں ہوتے نہیں لیکن چونکہ تحریک چلانے کیلئے کسی نہ کسی ایشو کا سہارا تو لینا پڑتا ہے ،جیسے تحریک نظام مصطفی جو 1977ء میں چلائی گئی ،وقت نے ثابت کیا کہ ایسا کوئی مقصد حاصل نہیں کیا جا سکا۔ کیونکہ اصل مقاصد اور تھے جو حاصل کر لئےگئے اور ملک پر ایک دہائی سے زیادہ اس نعرے پر آمر من مانی کرتا رہا۔ اب اگر اس یک نکاتی ایجنڈے پر اکٹھی ہونے والی جماعتوں کو دیکھا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ اتحاد سب کا، مفادات اپنے اپنے اور ان مفادات کی نشاندہی کوئی مشکل کام بھی نہیں ، ہر ذی شعور گھر بیٹھے جمع تفریق کر کے نتائج نکال سکتا ہے،چلئے ہم بھی ایک جمع تفریق کرتے ہیں کہ اس احتجاجی جلسے سے کس کس نے کیا مفاد حاصل کیا اور آخر میں نتائج آپ پر چھوڑتے ہیں کہ آپ خود دیکھیں کہ ملک کو کیا فائدہ ہوگا۔
ذراسنئے اس احتجاجی جلسے سے کچھ روز پہلے اور بعد میں میڈیا نے جو راگنی الاپنی شروع کی تھی وہ بھی حقیقت نہیں اور نہ ہی جلسے کے بعد تبصرے اور پروگرام ذمہ دارانہ تھے ۔ میڈیا کا ایک گروپ اپنے مفادات کی دکانداری کر رہا تھا تو دوسرا گروپ اپنی چیزیں بیچ رہا تھا ۔ اس دوران نہ تو اخلاقیات کا لحاظ رکھا گیا اور نہ ہی معروضیت نام کی چیز نظر آئی ۔ بحث یہ ہو رہی ہے کہ کرسیاں خالی تھیں ، لاہور سے دوسو لوگ بھی شریک نہ ہوئے ۔ پنڈال کم اور لیڈر زیادہ تھے ۔ استعفیٰ لینے والوں کو خود استعفیٰ دینے پڑیں گے ۔ تحریک قصاص کے نام پر حکومت گرانے کی اس تحریک کوآغاز سے ہی شدید دھچکا لگا ہے اور فوری طور پر کوئی اعلان کرنے کی بجائے آئندہ دو روز میں لائحہ عمل طے کر کے اعلان کیا جانا مزید شوک و شبہات پیدا کرتا ہے کہ شاید ا سکرپٹ میں صرف اس حد تک بولنے اور شیخ رشید کے استعفیٰ کااعلان کا درج تھا۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا یا ڈائریکٹر کہ اب کو ن کونسے سین فلمائے جانے ہیں ۔لوگوں کی تعداد اتنی اہم نہیں ، اہم یہ ہے کہ آنے والے لوگ اور لیڈر انصاف کے حصول کیلئے کتنے مخلص تھے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس جلسے سے پہلےپیپلز پارٹی کا وجود ایک طرح سے پنجاب خصوصاً سینٹرل پنجاب میں ختم ہوگیا تھا ۔ پھر چار سالوں سے فرینڈلی اپوزیشن کے طعنے سن رہی تھی کبھی ایسا ممکن تھا کہ آصف زرداری لاہور کے ا سٹیج پر کھڑے ہوکر پنجاب کے لیڈر کو شیخ مجیب کا ساتھی قرار دیں جو انہوں نے کر دکھایا اور لاہور کے اندر انہیں ایک بڑے مجمع سے خطاب کا موقع مل گیا ۔ اس احتجاجی جلسے میں شامل چھوٹی چھوٹی جماعتیں ایک طرف اپنے ڈائریکٹر ز کو خوش کرنے میں کامیاب ہوئیں اور دوسری طرف لوگوں کو یاد دلایا کہ ان کا بھی وجود ہے ، چاہے وہ ایک سیٹ بھی نہیں جیتیں ۔ پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال اس طرح لاہور میں جلسہ کرنے کا خواب ہی دیکھ سکتے تھے ، انہیں سجا سجایا اا سٹیج مل گیا اور وہ پنجاب کے لوگوں سے مخاطب ہو سکے۔ علامہ طاہر القادری جو اس وقت اس اپوزیشن اکھٹ میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں اور جلسہ کر کے یہ حیثیت منوانے میں تو کامیاب ہوئے لیکن جب تک وہ واضح با مقصد ایجنڈے کے حوالے سے کلیئر نہیں ہوتے انہیں end of the dayشاید کچھ نہ مل سکے ۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ آصف علی زرداری اور عمران خان کو ایک نکتے پر اکٹھا کر لیا لیکن اُن کا سارا فوکس شریف خاندان کو گھر بھیجنے پر ہے اور فرماتے ہیں کہ ’’ اب تم جائوگے دنیا کی کوئی طاقت تمہیں نہیں بچا سکتی ‘‘ لیکن اگر یہ بھی کہا جائے کہ نواز حکومت کے مخالفین کامیاب ہو چکے ہیں اس کی بنیاد بلوچستان میں پانچ سو ووٹ لے کر جیتنے والے ایم پی اے کو وزیراعلیٰ منتخب کر الیا گیا تو پھر آئندہ آنے والے دنوں میں کچھ بھی ممکن ہے ۔ بلوچستان ،کے پی اور سندھ اسمبلی سمیت تینوں تحلیل کروا کے سینیٹ کے الیکشن رکوائے جا سکتے ہیں ۔قومی اسمبلی شاہد خاقان عباسی توڑ سکتے ہیں ۔ جس طرح انہوں نے کہا کہ وہ پارٹی کے کہنے پر اسمبلی توڑ دیں گے ۔ ایسا نہیںہوگا لیکن قومی اسمبلی توڑ سکتے ہیں ۔ آنے والے چند دنوں میں ن لیگ کی اکثریت چوہدری نثار کے ساتھ مل سکتی ہے اور پھر سینیٹ کے جو الیکشن ہوںگے وہ لوگ نواز کے نہیں نثار کے منتخب ہوںگے اور نواز لیگ نہ شہید ہوگی اور نہ ہی غازی بن سکے گی۔
یہ سب تو ہوتا نظر آتا ہے مگر ملک کے اندر نہ تو صحیح معنوں میں جمہوریت پنپتی نظر آرہی ہے اور نہ ہی اقتدار عام لوگوں کے پاس جانے کی امید ہے۔ کیونکہ ہمارا الیکشن سسٹم اور ووٹروں کو ہانکنے کے وہی پرانے طریقے اور ہانکنے والے بھی وہی ہیں۔ یہی وجہ ہے آج پارلیمنٹ سر بازار اتنی بے تو قیر ہوگئی کہ اس کیلئے ایسے االفاظ ادا کئے جارہے ہیں دیکھا جائے تو اس کے ذمہ داراعوام ہیں کیونکہ عوام ہی ایسے پارلیمنٹرین منتخب کر تے ہیں اور ان پارلیمنٹرین نے کبھی بھی عوام کے مفادات کا نہ تو تحفظ کیا ہے اور نہ ہی ان کے حقوق کی جنگ لڑی ۔ جب پارلیمنٹ کسی نااہل شخص کو پارٹی سربراہ بننے کا قانون پاس کرے گی ، جب وہ بغیر دیکھے اور پڑھے ناموس رسالتؐ کے قانون میں ایک سازش کے تحت ہونے والی ترمیم کو پاس کردے گی تو پھر اسمبلی فلور پر پارلیمنٹرین کا یہ واویلا کرنا ٹھیک نہیں کہ پوری پارلیمنٹ کی توہین کی گئی ہے ۔ لیکن حقیقت میں اس ساری صورتحال میں عوام کو اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہے کہ وہ مفاد پرست ، نااہل اور بے ضمیر ، ملک کو بیچنے والی سوچ رکھنے والوں کو منتخب کر کے پارلیمنٹ کی بے توقیری کا ثبوت تو نہیں دے رہے؟ کب عوام کو عقل آئے گی اور وہ گلی، نالی ، تھانے کی سیاست سے باہر نکل کر اپنے ملک کے مفادات کیلئے سوچیں گے اور اگر اس کیلئے کوئی عملی قدم نہیں اٹھائیں گے تو پھر اللہ کے عذاب کیلئے بھی تیار رہیں۔ سورۃ النمل میں ہے کہ ’’ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ آخرت کو نہیں مانتے ، ان کیلئے ہم نے انکے کرتوتوں کو خوشنما بنا دیا ہے ، اس لئے وہ بھٹکتے پھرتے ہیں۔‘‘

تازہ ترین