• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاناما کیس کی رپورٹنگ‘ جنگ گروپ کیخلاف توہین عدالت کی سماعت کل

Todays Print

اسلام آباد ( رپورٹ / رانا مسعود حسین ) عدالت عظمیٰ کل بروز بدھ جنگ گروپ کے خلاف پاناما پیپرز لیکس کیس میں کی گئی رپورٹنگ کے حوالے سے توہین عدالت کے مقدمہ کی سماعت کرے گی ،جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس دوست محمد خان اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل تین رکنی بنچ کیس کی سماعت کرے گا ،اس حوالے سے مسول علیان ،میر شکیل الرحمان ایڈیٹر انچیف روزنامہ جنگ /دی نیوز ،میر جاوید رحمان پرنٹر و پبلشر اوررپورٹر احمد نورانی کو نوٹسز جاری کردیئے گئے ہیں، یاد رہے کہ عدالت نے 10جولائی 2017کو پانامہ پیپرز لیکس کیس کی سماعت کے دوران ایک متفرق درخواست پر یہ نوٹسز جاری کئے تھے، کیس کی پہلی سماعت 25جولائی کو ہوئی تھی ، جس میں مسول علیان کے وکیل ارشد چوہدری نے مسول علیان ،میر شکیل الرحمان ایڈیٹر انچیف روزنامہ جنگ /دی نیوز ،میر جاوید رحمان پرنٹر و پبلشر اور سینئر رپورٹر احمد نورانی کی جانب سے الگ الگ جوابات داخل کروائے تھے ، مسول علیان ،میر شکیل الرحمان اورمیر جاوید رحمان کی جانب سے جمع کروائے گئے 73؍ صفحات پر مشتمل جواب میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ 10؍ جولائی 2017ء کو جے آئی ٹی نے عدالت میں پاناما پیپرز لیکس کیس میں کی گئی تحقیقات سے متعلق رپورٹ پیش کی تو فاضل عدالت نے آبزرویشن دی کہ روزنامہ جنگ اورروزنامہ دی نیوز نے 20؍ جون 2017ء کے حکم کو غلط انداز میں بدنیتی سے شائع کیا ہے ، عدالت نے مزید کہا کہ جنگ کے ایک رپورٹر احمد نورانی نے اس بنچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل خان سے ان کے گھر کے نمبر پر جے آ ئی ٹی کے معاملات کی آئی ایس آئی کی جانب سے چلانے سے متعلق معلومات لینے کے لئے 2؍ دفعہ رابطہ کیا ہے ، مسول علیان نے بیان کیا ہے کہ سینئر رپورٹر احمد نورانی نے اس سے قبل سپریم کورٹ کے رجسٹرار سے بھی رجوع کیا تھا لیکن جواب نہ ملنے پر انہوں نے فاضل جج کے گھر کے سرکاری لینڈ لائن نمبر پر فون ، درحقیقت ان کے عملہ سے مدد اور رہنمائی لینے کے لئے کیا تھا ،لیکن وہ فون فاضل جج نے خود اٹھا لیا تھا ،ان کی جانب سے فاضل جج کو فون کرنے کا مقصد خبر کی تصدیق یا تردید لینا تھا، یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اس سے پہلے بھی انتہائی اہم قومی ایشوز پر صحافی جج صاحبان سے رابطہ کرتے رہے اور اہم معاملات کے حوالے سے ان کے بیان کو چھاپتے رہے، موجودہ چیف جسٹس ثاقب نثار کی صحافیوں سے بات کرنے اور بعد میں انکے بیان چھپنے کے شواہد بھی جواب میں شامل ہیں، اور سپریم کورٹ کے ججز ان بیانات کے چھپنے پر سپریم کورٹ کی طرف سے کوئی اعتراض نہیں کیا گیا تھا، یہی پس منظر تھا جس میں رپورٹر نے ایسا کیا تاہم اس حوالے سے احمد نورانی خود ہی اپنی وضاحت پیش کریں گے ،مسول علیان نے بیان کیا ہے کہ روزنامہ جنگ اور دی نیوز میں چھپنے والی خبروں کے حوالے سے بیان کیا جاتا ہے کہ فاضل عدالت حکم جاری کرتے وقت اس معاملہ سے متعلق محدود معلومات ہونے کی بناء پر غلط رپورٹنگ کی ساری ذمہ داری روزنامہ جنگ اور دی نیوز پر عاید کرنے پر مجبور تھی ،لیکن اگر اس روز کے ٹیلی ویژن چینلز پر نشر کی گئی خبروں اور نیوز ایجنسیوں کی جانب سے عدالتی فیصلے سے متعلق اخبارات کو جاری کی گئی خبروں ور اگلے روز کے قومی اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کا جائزہ لیا جائے تو معاملہ ایسا نہیں ہے،درحقیقت، روزنامہ دی نیوز تو پاکستان کا وہ واحد اخبار تھا جس نے یہ خبر مکمل طور پر درست چھاپی، روزنامہ ڈان میں بھی جتنی خبر چھپی وہ درست تھی، باقی تمام اخبارات میں، نیوز چینلز پر چلنے والی غلط خبر کی طرح، خبر چھپنے میں غیر دانستہ غلطی ہوئی، روز نامہ جنگ میں اگرچہ مین اسٹوری میں غیر دانستہ غلطی ہوئی مگر فرنٹ پیج کے اپر ہاف پر اسی کیس کے فیصلے کی رپورٹنگ کرتے ہوئے ایک دوسری اسٹوری میں صحیح صورتحال رپورٹ کی گئی تھی۔ ایسا کسی بھی دوسرے اخبار میں نہیں ہوا، تو بنیادی طور جس خبر کے غلط چھپنے پر جنگ اور دی نیوز کو نوٹس جاری ہوا، وہ خبر مکمل طور پر درست تو شائع ہی جنگ گروپ اور روزنامہ ڈان نے کی، دوسری جانب روزنامہ جنگ اور روزنامہ دی نیوز میں چھپنے والی خبروںکے متن کا تقابل کئے بغیر ہی توہین عدالت کے نوٹسز کا اجراء کیا گیا ہے،اس لئے فاضل ججز کی جانب سے دی گئی آبزرویشنز اور جنگ و دی نیوز کو جاری کئے گئے توہین عدالت کے نوٹسز کے اجراء کے معاملہ کا از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے، مسول علیان نے بیان کیا ہے کہ یہ معاملہ پاناما پیپرز لیکس کیس کے ایک مسول علیہ، حسن نواز کی جانب سے کیس کی سماعت کے دوران دائر کی گئی متفرق درخواست نمبر 3986/2017 سے متعلق تھا جس میں درخواست گزار نے فاضل عدالت سے دو طرح کے ریلیف دینے کی استدعا کی تھی ،اول یہ کہ جے آئی ٹی کو کیس کی تحقیقات کے دوران فریقین کی ویڈیو ریکارڈنگ سے منع کیا جائے ، دوئم تحقیقات کے دوران ان (حسین نواز)کی ایک تصویر میڈیا کو جاری کرنے کے معاملہ کی انکوائری کے لئے کسی حاضر یا ریٹائرڈ جج پر مشتمل انکوائری کمیشن تشکیل دیا جائے ،فاضل عدالت نے اس حوالے سے پچھلی ساعت 20؍ جون 2017ء کی کارروائی سے متعلق محفوظ کیا گیا فیصلہ جاری کرتے ہوئے درخواست گزار کی ویڈیو ریکارڈنگ روکنے سے متعلق درخواست مسترد کردی تھی جبکہ تصویر لیک کے معاملے پر اٹارنی جنرل کی جانب سے جواب آنے تک معاملہ کو موخر کردیا تھا ،یہ کہ جنگ جیو گروپ کے انگلش اخبار دی نیوز نے فاضل عدالت کے دونوں حصوں کی مکمل طور پر درست رپورٹنگ کی تھی،اور اس کی شہ سرخی تھی ʼSC dismissed Hussainʼs plea to halt video recordingبالکل من و عن روزنامہ جنگ نے بھی ویڈیو ریکارڈنگ سے روکنے سے متعلق دائر کی گئی درخواست کی حد تک بالکل درست خبر شائع کی تھی ، تاہم تصویر لیک کے فیصلے کے حوالے سے کی گئی رپورٹنگ فیصلے سے مختلف تھی ، ایک ہی گروپ کے دو اخبارات میں کی گئی رپورٹنگ کے مابین کئے گئے اس تقابل سے ثابت ہوتا ہے کہ اس معاملہ میں کسی قسم کی بھی عدم شفافیت یا بدنیتی کا کوئی عمل دخل نہ تھا ، فیصلہ کے اجراء کے روز کے قومی الیکٹرانک میڈیا پر نشر ہونے والی خبروں اور تبصروں، اور نیوز ایجنسیوں کی جانب سے اخبارات کو بھجوائی گئی خبروں میں بھی اکثر نے یہی رپورٹنگ کی تھی ، کیا اسے بھی غلط رپورٹنگ ، عدم شفافیت اور بدنیتی کے طور پر ہی لیا جانا چاہئے ؟ مسول علیان نے اپنے موقف کے ثبوت کے طور پر اس حوالے سے پاناما پیپرز لیکس کیس میں20 ؍ جولائی 2017ء کو فیصلہ جاری ہونے کے فوری بعد آج نیوز چینل،اب تک نیوز چینل ، اے آر وائی نیوز چینل ، بول نیوز چینل، کیپٹل نیوز چینل،دنیا نیوز چینل ، ایکسپریس نیوز چینل، 92نیوز چینل،پاک نیوز چینل اور جیونیوز چینل پر مقدمہ کے فیصلے سے متعلق نشر ہونے والی خبروں اور ان پر مختلف ماہرین،سیاستدانوں اور سینئر صحافیوں کی جانب سے کئے جانے والے تبصروں کا متن ،اسی روز ہی مختلف نیوز ایجنسیوں این این آئی ،آئی این پی ،آن لائن ،ایس ایس کے اور اے این این کی جانب سے ملک بھر کے اخبارات کو اس حوالے سے بھجوائی جانے والی خبر کے متن اور اگلے روز یعنی 21؍ جولائی 2017ء کو روزنامہ جنگ ،روزنامہ نوائے وقت ، روزنامہ ایکسپریس ٹرائیبون، روزنامہ روزنامہ 92نیوزاور روزنامہ جہان پاکستان میں شائع ہونے والی خبروں کے تراشے فاضل عدالت کے ملاحظہ کے لئے اپنے جواب کے ساتھ لف کئے ہیں، جن میں واضح الفاظ میں لکھا ہوا ہے کہ حسین نواز کی جانب سے تصویر لیک کے معاملے پر کمیشن تشکیل دینے کی استدعا خارج کردی گئی ہے۔ مسول علیان نے مزید کہا ہے کہ اگر اس حوالے سے کسی قسم کی بھی ذمہ داری کا تعین ہی کیا جانا مقصود ہے توکسی ایک میڈیا گروپ کو امتیازی سلوک سے بچانے کے لئے میڈیا کے درج بالا تمام تر اداروں میں ہونے والی رپورٹنگ کی جانچ پڑتال کروائی جائے اور بدنیتی کے واضح ثبوت کے بغیر ہی توہین عدالت کی ذمہ داری کسی ایک میڈیا گروپ پر نہ ڈالی جائے ، مسول علیان نے مزید کہا ہے کہ اگر فاضل عدالت جنگ اور دی نیوز میں چھپنے والی خبروں کا دیگر الیکٹرانک اورپرنٹ میڈیا اور نیوز ایجنسیوں کیا جانب سے بھجوائی جانے والی خبروں کے ساتھ تقابلی جائزہ لے تو ہماری معصومیت اور بے گناہی خود بخود ہی واضح ہو جائے گی ، مسول علیان نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ جنگ گروپ عدلیہ کی آزاد و خود مختاری ، فاضل ججز کی عزت و وقار اور ملک میں قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں حصہ لینے کی میراث کا حامل صحافتی ادارہ ہے جوکہ فاضل عدالت اور اس کے ججز کی توہین یا تضحیک کا سوچ بھی نہیں سکتا ہے ،ادارہ جنگ کی جانب سے کیا گیا کوئی بھی عمل جس کا ذکر توہین عدالت کے نوٹس میں کیا گیا ہے ،فاضل عدالت یا اس کے فاضل ججز کی توہین کے لئے نہیں تھا ،تاہم روزنامہ جنگ میں فیصلے کا جو حصہ غلط طور پر شائع ہونے سے فاضل ججز کو جو تکلیف اور پریشانی ہوئی ہے اس پر ہمیں دلی افسوس ہے ، مسول علیان نے فاضل عدالت سے مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں توہین عدالت کے نوٹسزواپس لینے کی استدعا کی ہے۔ 

تازہ ترین