• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان روز اول سے اپنے ہمسایہ ممالک چین، بھارت، ایران اور افغانستان کے ساتھ امن، دوستی اور تعاون کی پالیسی پر کاربند ہے۔ چین نے اس کا مثبت جواب دیا اور آج پاکستان کے ساتھ اس کے مثالی تعلقات ہیں۔ ایران کے ساتھ بھی برا درانہ تعلقات ہیںلیکن بدقسمتی سے بھارت اور افغانستان کا رویہ پاکستان کے ساتھ ہمیشہ معاندانہ اورمنافقانہ رہا۔ بھارت نے تو مسلم دشمنی میں پاکستان کا وجود ہی تسلیم نہیں کیا اور شروع ہی سے اس کو نقصان پہنچانے کے درپے رہا جس کے نتیجے میں دونوں ملکوں میں چار خوفناک جنگیں ہو چکی ہیں لیکن افغانستان جو پاکستان کے ساتھ مذہبی، تاریخی، ثقافتی اور تہذیبی رشتوں میں منسلک ہے کا منفی رویہ ناقابل فہم ہے۔ اس وقت یہ دونوںپاکستان کی مخالفت میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر سرگرم ہیں۔ بظاہر تو وہ پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات کی خواہش کا اظہار بھی کرتے ہیں لیکن عملاً ’’بغل میں چھری منہ میں رام رام‘‘ کے مصداق اسے نقصان پہنچانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ بھارتی وزیراعظم نریند مودی نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا ہے کہ ہم پاکستان سے بہت لڑ لئے، اب ہمیں غربت اور بیماری کے خلاف جنگ لڑنا ہوگی۔ دونوں ملک باہم مل کر یہ جنگ لڑیں تو ان کی جیت یقینی ہو گی مودی اگر واقعی اپنے دعوے میں سنجیدہ ہیں تو پاکستان یقیناً اس کا خیر مقدم کرے گا لیکن اس کیلئے انہیں سب سے پہلے مسئلہ کشمیر حل کرنا ہوگا۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں آزادی کیلئے جدوجہد کرنے والے نہتے کشمیری عوام پرظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے ہفتے کے روز بھی اس کی فوج نے مقبوضہ وادی میں کئی نوجوانوں کے علاوہ ورکنگ بائونڈری پر مختلف سیکٹرز میں 6پاکستانی شہریوں کو شہید کر دیا لیکن الزام پاکستان پر لگا رہا ہے کہ وہ دہشت گردوں کو کنٹرول لائن کی دوسری طرف بھیج رہا ہے۔ وہ اس حقیقت کو نظر انداز کر رہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میںروزانہ پاکستان کے حق میں جلسے جلوس ہوتے ہیں اور پاکستان کا قومی پرچم لہرایا جاتا ہے، کہیں باہر سے آئے ہوئے دہشت گرد بھی ایسا کرتے ہیں؟ بھارتی فوج نے کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری پر جنگ جیسی صورت حال پیدا کر رکھی ہے۔ ورکنگ بائونڈری پر پاکستان کے ساتھ ملنے والے تمام رہائشی علاقوں میں بھارتی فوج نے ریڈالرٹ جاری کردیا ہے اور لوگوں کو فوری طورپر علاقے چھوڑنے یا بنکر بنا کر ان میں رہنے اور راشن پانی کا ذخیرہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ مستقبل قریب میں پاکستان کے خلاف کس طرح کی جارحانہ کارروائیوں کا ارادہ رکھتی ہے تاہم دعویٰ یہ کیا گیا ہے کہ عنقریب پاکستانی فائرنگ سے وہاں حالات خراب ہو سکتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے جنگ بندی کی پہلے خلاف ورزی کی ہے نہ آئندہ کرے گا البتہ پاک فوج بھارتی خلاف ورزیوں کا منہ توڑ جواب پہلے بھی دیتی رہی ہے اور آئندہ بھی دے گی۔ ادھر کابل حکومت بھی پاکستان دشمنی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔ اتوار کو کابل کے ایک ہوٹل پر طالبان نے حملہ کیا جس میں غیر ملکیوں سمیت 40افراد مارے گئے۔ کابل حکومت نے فوراً اس کا الزام پاکستان پر لگا دیا اور کہا کہ یہ حقانی نیٹ ورک کے دہشت گرد تھے جو پاکستان سے آئے۔ پاکستان نے اس الزام کی تردید کی ہے اور افغان حکومت سے کہا ہے کہ وہ بے بنیاد الزامات لگانے کی بجائے حملے کی تحقیقات کرائے اسی دوران افغان حکام نے پاکستان سے رابطہ کیا ہے کہ وہ افغان مہاجرین کی واپسی کی ڈیڈ لائن میں جو 30جنوری ہے، توسیع کرے۔ پاکستان پچاس لاکھ کے قریب افغان مہاجرین کی سالہا سال سے اپنی معیشت کی قیمت پر میزبانی کرتا رہا ہے۔ ان میں سے کچھ واپس چلے گئے 19لاکھ اب بھی یہاں موجود ہیں پاکستان بار بار امریکہ اور کابل حکومت سے کہہ رہا ہے کہ مہاجرین میں دہشت گرد بھی ہو سکتے ہیں اسلئے انہیں واپس لے جایا جائے۔ مگر کابل حکومت ان کے قیام میں مزید توسیع چاہتی ہے۔ امریکہ اور کابل اگر افغان امن میں سنجیدہ ہیں تو پاکستان کے ساتھ مل کر مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنا پڑے گا۔ الزام تراشی اس مسئلے کا حل نہیں۔

 

تازہ ترین