• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطن عزیز کو ایک طرف اپنی معیشت بہتر بنانے کے لئے مختلف شعبوں کو فعال کرنے کے چیلنج کا سامنا ہے اور اس کے لئے کئی نسلیں قرض کے بھاری بوجھ تلے دبی نظر آتی ہیں، دوسری جانب سرکاری حکام کی عشروں سے جاری سہل کوشی ملک کے لئے ایسے سنگین مسائل کا موجب بنی کہ جن سے نمٹنے کے لئے غیر معمولی محنت درکار ہے۔ بجلی کے شعبے میں پیداواریت کے اضافے، لوڈشیڈنگ میں قابل قدر حد تک کمی اور معاشی کارکردگی میں بہتری کے اشاریوں سے یہ امید بندھی ہے کہ معیشت بحران سے نکل کر جلد استحکام کی منزلیں تیزی سے طے کرنے کے قابل ہو جائے گی مگر بعض پہلو ایسے ہیں جن پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت اب بھی محسوس ہوتی ہے۔ جون 2018ء تک سسٹم میں 11 ہزار میگاواٹ بجلی کی شمولیت کے بعد ہمارے صنعتی یونٹوں کے بلاتعطل چلتے رہنے اور نئی ملازمتیں نکلنے کے امکانات حوصلہ افزا ہیں مگر انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (ائی پی پیز) کی ایک قابل لحاظ تعداد کے غیر فعال ہونے کے باوجود ان کے بھاری بلوں کی ادائیگی بدستور حکومت کے لئے درد سر رہے گی اور لیکوڈیٹی کے بحران میں اضافہ ہوگا۔ ماضی میں داخلی امن و امان کی صورتحال کو غیر ملکی بجلی کمپنیوں کی پلانٹ لگانے میں غیر دلچسپی کی وجہ قرار دے کر ایسے معاہدے کرلئے گئے جنہیں دیکھنے والوں کو محسوس ہوتا ہے کہ انکے ڈرافٹ خود سرمایہ کاروں کے تیار کردہ تھے اور سرکاری حکام نے صرف ان پر دستخط کئے۔ باخبر ذرائع کے مطابق اس وقت صورتحال یہ ہے کہ فرنس آئل اور مہنگے ڈیزل سے بجلی پیدا کرنے والے انڈیپنڈنٹ پاور پلانٹس غیر فعال ہیں مگر حکومت انہیں ہرسال 150سے 200ارب روپے ادا کرتی ہے۔ پچھلے سال کے دوران کیپسٹی چارجز کی مد میں 203ارب روپے ادا کئے گئے۔ 2028ء تک بلکہ اس سے پانچ سال بعد تک کی ادائیگیوں کے تخمینے خاصے تشویش ناک ہیں جن سے نمٹنے کے لئے معاہدوں پر نظرثانی اور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی بلوں کی ریکوری بہتر بنانے سمیت تمام سمتوں میں کام ہونا چاہئے۔ اس باب میں تیز رفتار لائحہ عمل بروئے کار لاکر ہی گردشی قرضوں کے جن پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

تازہ ترین