• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قصور کے شرمناک واقعات پر وزیر قانون نے فرمایا، ایسے واقعات دنیا بھر میں ہوتے ہیں یہ کوئی انوکھی بات نہیں مگر پاکستان خصوصاً قصور میں ہونے والے واقعات یقیناً انوکھی بات ہیں۔ کیا دنیا بھر میں جب کہیں اس طرح کا سانحہ رونما ہو تو وہاں کی پولیس، شہری انتظامیہ، عوامی نمائندے، صوبائی حکومتیں اور عدالتیں ایسی ہی سنگدلی اور بے حسی کا مظاہرہ کرتی ہیں جو یہاں پر کی گئی؟ گزشتہ شب ذرائع ابلاغ کے بہت سے نمائندے جمع تھے بات قصور کے عوامی نمائندوں کے گھروں اور ڈیرے پر ہجوم کے حملوں کی ہو رہی تھی کہ یہ ایک خطرناک رجحان ہے کہ سیاستدانوں کے گھر اور خاندانوں کو نشانہ بنایا جائے۔ یقیناً یہ خطرناک رجحان ہے جس سے ملک میں انارکی پھیلنے اور خانہ جنگی ہونے کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے مگر اس حد تک خود عوامی نمائندے عوام کو دھکیل لائے ہیں۔ گوجرانوالہ کے ایک ایم پی اے نے راقم سے کہا تھا کہ شریف لوگ بہت مشکل ہوتے ہیں۔ ان کے ووٹ دوچار سے زیادہ نہیں مگر نخرے اور مطالبات بڑے بڑے، اس کے مقابلے میں غنڈے اور بدمعاش پانچ سو، ہزار ووٹ چپکے سے دلا دیتے اور خاموشی سے چلے جاتے ہیں تو ان حالات میں ہمارے لئے شرفا بہتر ہیں یا غنڈے؟
قصور میں اس کا عملی مظاہرہ دیکھنے میں آیا۔ دو سو سے زائد بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا اور ان کی ویڈیو فلمیں بنا کردوسرے ملکوں کو فروخت کی گئیں۔ سارے پاکستان میں کہرام بپا تھا مگر اس ضلع کے عوامی نمائندوں نے کچھ نہیں کیا۔ پولیس اور ساری انتظامیہ خاموش تماشا دیکھتی، لفنگے اور لچے لوگوں سے اپنا حصہ وصول کرکے مطمئن اور آسودہ رہی تب ذرائع ابلاغ نے اس اندوہناک واقعہ کا نوٹس لیا۔ سارے ملک میں ہاہاکار مچی، کالم لکھے، خبریں چھپیں اور ٹیلی ویژن کے میزبانوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا تو خادم اعلیٰ کی نیند میں خلل ہوا اور بھاگ دوڑ شروع ہوئی۔ تب بھی وہاں کے عوامی نمائندوں نے مظلوم شہریوں کا ساتھ دینے کے بجائے ناموس کے دشمنوں اور مجرموں کو بچانے کی کوشش کی اور اس میں کامیاب رہے۔ آج بھی آپ کسی حکومتی نمائندے اور وزیر مشیر سے علیحدگی میں بات کریں تو وہ ان واقعات کو پرکاہ کی اہمیت نہیں دیتے تاوقتیکہ یہ آگ ان کے آنگن تک آن پہنچے۔ جس طرح برس دو برس پہلے قصور میں ناموس کے لٹیروں کا مقامی سیاستدانوں نے ساتھ دیا، پولیس نے بھی انہی کی مدد کی، شہری انتظامیہ نے تساہل برتا، مقامی عدالتوں نے بھی مظلوم مگر غریب لوگوں کو انصاف دینے میں تامل سے کام لیا۔ تازہ واقعات کے بعد اعلیٰ عدلیہ کو نوٹس لینا پڑا اور سیشن جج کو حکم دیا کہ پرانے مقدمات کو روزانہ کی بنیاد پر سن کر جلد فیصلہ کیا جائے مگر نیک نام اور متحرک چیف جسٹس پنجاب نے اپنی ماتحت عدلیہ کی مجرمانہ غفلت پر ان کا احتساب کیوں نہیں کیا؟ اگر حالیہ واقعات میں ذرائع ابلاغ بروئے کار نہ آتے تو کیا ماتحت عدلیہ فیصلہ کرنے میں اسی طرح مستعدی کا مظاہرہ کرتی جیسا کہ اب کرنے جارہی ہے۔
نوخیز زینب کے خاندان کی ناموس لُٹ گئی۔ معصوم پری جان گنوا بیٹھی مگر یہ زینب کی قربانی نہیں ہے جس نے خادم اعلیٰ کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر بیدار کیا ہو۔ زینب کے خاندان کے ساتھ بھی سب کچھ وہی ہونے جا رہا تھا جو پہلے گیارہ بچیوں اور ان کے خاندان کے ساتھ ہوا مگر ایک دفعہ پھر ذرائع ابلاغ میدان میں آئے انہوں نے لاہور بلکہ جاتی امرا کے پہلو میں ہونے والے ظلم کو بے نقاب کیا۔ شور برپا ہوا تو خادم اعلیٰ کے خفتہ ضمیر کی نیند اچاٹ ہوگئی۔ وہ خود فرماتے ہیں کہ ’’میں گزشتہ تین راتوں سے سو نہیں سکا، قصور کے واقعات خون کے آنسو رلاتے ہیں۔ آئی جی پنجاب میرا ہیلی کاپٹر لیں اور روزانہ قصور جائیں، فرانزک ٹیمیں وہیں قیام کریں اور جس قدر جلد ممکن ہو درجن بھر بچیوں کی عزت کے راہزن اور جان کے دشمنوں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کریں۔
استادِمکرم خورشید رضوی فرماتے ہیں ؎
فرق ہوتا ہے بہت اس فرق کو پہچانیے
جو دیدہ بیدار میں ہے، اور دیدہ بے خواب میں
مقامی سیاستدانوں، پولیس انتظامیہ کا تو ذکر ہی کیا، خادم اعلیٰ بھی ہڑبڑا کے اٹھ بیٹھے لیکن شاید وہ جاگے نہیں ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے شور نے ان کی نیند میں خلل ڈالا اور انہیں بے خوابی نے آن لیا ہے۔ بجا ارشاد کہ ایسے واقعات ساری دنیا میں ہوتے ہیں۔ کیا ایسے اندوہناک واقعات کو پولیس، انتظامیہ، سیاستدان اور عدلیہ اسی طرح نظر انداز کرتی ہیں کہ چھوٹے سے شہر میں بدکاری کے دو سو واقعات کے کچھ ہی دیر بعد بارہ بچیوں کو ہوس کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا جائے۔ پولیس ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھی رہے، مقتول زینب کے چچا سے کہا جائے کہ پولیس افسر کو اس خوشی میں دس ہزار روپے انعام دیں کہ اس نے آپ کی بیٹی کی روندی، کچلی اور کٹی پھٹی لاش برآمد کر لی ہے اور ڈپٹی کمشنر کے محافظ احتجاجی جلوس پر سیدھی فائرنگ کریں اور دو مظاہرین کو آن کی آن میں قتل کر ڈالیں۔ پولیس اور انتظامیہ جو قاتل پر نگاہ گرم نہ ڈال سکیں وہ قاتلوں کے خلاف مظاہرے پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دیں، یہ مظلوم اور مقتول زینب اور اس کی خون میں ڈوبی سہیلیاں نہیں ہیں جنہوں نے حکمرانوں کے ضمیر کو بیدار کیا ۔یہ محض ذرائع ابلاغ کا شور اور مقامی نوجوانوں کا پرتشدد ہنگامہ ہے جس نے حکمرانوں کو بیدار نہیں کیا مگر بے آرام بنادیا ہے۔
حکمرانوں کا ظرف اور جرأت کا عالم یہ ہے کہ ’’زینب کے گھر فاتحہ خوانی کیلئے بھی وقت ِ سحر کا انتخاب کیا کہ قصور کے کسی شہری سے مڈبھیڑ نہ ہوجائے اور باقی بارہ بچیوں کے نصیب میں تو یہ بھی نہ ہو سکا کہ ان کے والدین خادم اعلیٰ جیسے ولی کامل کے ساتھ دعا کیلئے ہاتھ اٹھانے کی سعادت ہی پا لیتے۔ پارلیمنٹ اور اس کے چنے ہوئے حکمرانوں کیلئے اپنی مقبولیت اور اعتبار کو جاننے اور بھروسے کو پرکھنے کا یہ بھی ایک ذریعہ ہے کہ لوگ آفت، مصیبت یا مشکل میں کس کو پکارتے اور کس کے نام کی دہائی دیتے ہیں۔
پارلیمنٹ اور اس کے بخشے نام نہاد حکمرانوں کو دیکھنا چاہئے کہ خلق خدا ان کے بنائے حکمرانوں کا بھولے سے نام بھی نہیں لیتی نہ خادم اعلیٰ کو پکارتی ہے۔ وہ آرمی چیف کی دہائی دیتی اور کبھی چیف جسٹس کو اپنی مدد کیلئے بلاتی ہے۔ بیمار طالب علم، ملائشیا سے آئے مقتول نوجوان، قصور کی زینب اور کراچی میں جعلی پولیس مقابلے کا نقیب اللہ سب کے اہل خانہ نے آرمی چیف کی دہائی دی کہ وہ انہیں انصاف دلائیں۔ یہ دہائی عوام اور مظلوم خاندانوں تک محدود نہیں، خود وزیر اعظم نواز شریف کو عمران اور قادری کے دھرنوں میں جب حکومت جاتی نظر آئی تو انہوں نے بھی فوج کے سپہ سالار کو پکارا تھا اور مقتولوں کے وارث قادری کی ایف آئی آر بھی اسی سپہ سالار کے کہنے پر درج ہوئی۔ زیادہ دور نہ جایئے ابھی چند ہفتے پہلے تحریک لبیک یا رسولؐ اللہ کے کارکنوں کو حکومت دبانے میں ناکام رہی اور عوامی نمائندوں کے گھر غیر محفوظ ہوئے اور وزیر اعظم خاقان عباسی بھی آرمی چیف کی دہائی دے اٹھے اور فوج کے موجودہ سپہ سالار نے مظاہرین سے بات کر کے حکومت کی جان بچائی۔ اس آئینے میں پارلیمنٹ اور اس کے بخشے حکمران اپنا چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔

تازہ ترین