• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بین الاقوامی امور کے ماہرین پاکستان کو ایک پیچیدہ ریاست قرار دیتے ہیں ایسی جسے چلانا آسان ہے نہ اس میں چلنا اور بسنا۔ اب جبکہ عشروں کے بعد اس کی حتمی تصدیق موجودہ گنجلک قومی سیاسی ماحول سے ہو گئی ہے تو سارا نزلہ ریاستی ادارں پر گرایا جا رہا ہے۔ یقیناً اس عجب صورتحال کے بڑے ذمہ دار وہ حکمراں ہیں جنہیں بار بار اس مظلوم مملکت کو چلانے کا موقع ملا، لیکن وہ خود چلے نہ ریاست چلی، جیسی چلی اس میں ڈیزاسٹر زیادہ ہوئے جس کے متاثرین عوام ہی بنتے رہے یا مملکت ۔ قوم کے کھوٹے سکے حکمراں بنتے رہے اور قومی خزانے خالی اور وسائل سکڑتے گئے۔ آئین بنا، رائج ہوا لیکن ادھورا جتنا من کو بھایا، بھایا اتنا کہ یہ حکمران بن جائیں اور بن کر حکمرانی مرضی سے کریں۔ پھر بھی نہیں چل پاتے تو پھر کوئی نجات دہندہ آکر آئین و قانون سب ہی لپیٹتا رہا ۔پھر جسے وہ آئین سمجھتا اور جتنا سمجھتا بس وہ ہی آئین ہوتا ملک خواہ کیسے ہی چلے یا کتنا ہی چلے۔ جب کبھی عوام کو اپنے حکمراں بنانے کا موقع ملا، اللہ ماشاء اللہ ایسے ایسے حکمران بنائے جنہیں ملک تو بنانا نہیں آتا، ہاں خود کو اتنا کہ انہیں اپنے حاکم نہیں دیوتا ہونے کا گمان ہونے لگتا ہے ، پھر انہیں لانے اور حاکم بنانے والے عوام کو ستے ہیں اور برداشت بھی اتنا اور ایسے کرتے ہیں کہ یہ ہی ’’عوامی صبر جمیل‘‘خالی خولی اور ڈگمگاتے حکمرانوں کو بھی سنبھالا دینے والی قوت بن جاتی ہے۔ ان کے مقابل سیاست داں بھی کچھ کم نہیں وہ حاکموں کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں نہ اپنی سکت بڑھا سکتے ہیں، جس طرح حکمرانوں کو حکومت کرنی نہیں آتی اپوزیشن، اپوزیشن کرنا نہیں جانتی۔ آج جو بگاڑا وہ تو پانامہ نےبگاڑا۔
ایسےمیں قوم کے ارباب اقتدار و سیاست دانوں کا یہ رویہ کہ ’’ہم جو بھی کچھ کریںجتنا بھی کریں ہمارا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا‘‘ نہ حکومت ،اپوزیشن، عوام اور میڈیا نہ عدالتیں نہ تفتیشی انہیں راہ راست پر لانے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ جب اداروں نے کچھ ہمت دکھائی ، پانامہ لیکس کسی ’’داخلی سازش‘‘ کے بغیر ہی نازل ہوا تو بہرحال تبدیلی و تازگی کی دعویدار اپوزیشن نے اس کا اتنا فائدہ ضرور اٹھایا کہ لیکس کو پیچھے باندھ کر اداروں میں کچھ ہل جل پیدا کرنے میں کامیابی حاصل کی تو حکومت بپھر گئی۔ عدالتی عمل کے شروع ہونے پر سپریم کورٹ کے باہر ’’وزارتی عدالت‘‘ ہر پیشی پر لگنے لگی ۔ جتنا تبرہ جتنی دھمکیاں جتنے طنز عدلیہ پر ہو سکتے تھے کئے گئے، باقی مخالف فیصلہ آنے پر کسر نکال دی گئی۔ اب ملک میں نا اہل ہونے والے وزیر اعظم ’’تحریک عدل‘‘ چلا رہے ہیں جبکہ عمران خان پہلے ہی تحریک انصاف کے سربراہ ہیں۔
قومی سیاست کے اس عجب رنگ میں ریاستی اداروں کی شامت آ گئی ہے۔ ویسے تو ان کا آغاز بڑے انہماک سے پانامہ لیکس کے منظر عام پر آنے سے پہلے ہی منتخب حکومت نے افواج کے خلاف دشمن کی زبان اختیار کر کے غیر سرکاری تبرے کی صورت میں شروع کیا۔ حتیٰ کہ سوشل میڈیا کا استعمال شروع کر دیا۔شاخسانہ ’’ڈان لیکس‘‘ کی شکل میں سامنے آیا۔ پانامہ لیکس کے فالو اپ میں جب وزیر اعظم ، سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کے متفقہ فیصلے کے نتیجے میں نا اہل ہو گئے تو عدالت عظمیٰ کے باہر لگنے والی’’وزارتی عدالتوں ‘‘ کی تند و تیز تقریریں نا اہل وزیر اعظم کی تقریروں میں تبدیل ہو گئیں جوان کی ’’تحریک عدل‘‘ کا محور ہیں اور جس کی پرزور تائید و حمایت ان کی لاڈلی صاحبزادی بھرے جلسوں میں کر رہی ہیں۔ اس طرح سپریم کورٹ آف پاکستان جو قیومی و ڈوگر عدلیہ کے بعد نئے نئے آئین و جمہوری کردار اور سرگرمی کے بعد دنیا میں شہرت پا رہی ہے ، لیکن ادھر ن لیگی باپ بیٹی کے تبرہ مسلسل کی زد میں ہے۔
پانامہ لیکس کے بعد جب نیب اپنے آئینی کردار کے لئے سرگرم نہ ہوا تو اس پر اپوزیشن کی تندو تیز تنقید اور اس کے سربراہ کی عدلیہ میں اپنا کردار ادا کرنے میں بے بسی کے کھلے اعتراف کے بعد بذریعہ عدلیہ و میڈیا نیب میں جان ڈال گئی لیکن اس کے بعد سے نیب سرکار کا مطعون ہے۔ اور اب اس کی انتہا پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی طرف سے ہو رہی ہے ۔ سوال ہے کہ اس سے قبل نیب نے جن چھوٹے ملزمان کے خلاف کارروائی کی حتیٰ کے سزائیں بھی دلوائیں اس وقت وہ ’’چھوٹوں ‘‘کے لئے درست تھا۔
اس مرتبہ اسٹیبلشمنٹ نے باوجود حکومتی خواہش کے ماوراء آئین کوئی مہم جوئی کی نہ مداخلت تو اس کا اصل کردار واضح بھی ہوا اور بڑھ بھی گیاجسے دنیا اور قوم مان رہی اور ستائش کر رہی ہے۔لیکن حکومت موقع با موقع تبرے کی گنجائش نکال لیتی ہے۔
رہی پارلیمنٹ ، یہ اپنے اراکین کی انتہا کی مایوس کن کارکردگی کے حوالے سے اپنی اہمیت تیزی سے کھوتی رہی۔ لیکن یہ بڑی بے توقیر اس دن ہوئی جب سابق وزیر اعظم کے وکیل نے پانامہ لیکس کی سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران عدلیہ کے سوالا ت پر پانامہ کے حوالے سے وزیر اعظم کے منی ٹریل کے حوالے سے اسمبلی فورم پر کی گئی انتہائی رسمی انداز میں تقریر صفائی کو ’’سیاسی ‘‘ قرار دیتے ہوئے اسے نظر انداز کرنے کی استدعا کی اور قطری خط سے الزامات کا دفاع کرنے کی کوشش کی۔ اگر منتخب وزیر اعظم اسمبلی میں ایک انتہائی متنازعہ مسئلے پر ، جو پوری قومی سیاست پر غالب ہو گیا ہو سے متعلق ایسی تقریر کریں جسے پوری قوم اور ایوان ان کی جانب سے مکمل سنجیدہ بیان صفائی سمجھ رہا ہو، وہ سیاسی تقریر ہو (یاد رہے عدالت میں وکیل کا کہا مو کل کا کہاہوتا ہے) تو ایوان کی توقیرکیسے محفوظ رہے گی؟
رہی سہی کسر اصلی حزب اختلاف ہونے کی دعویدار تحریک انصاف کے سربراہ اور ان کے پر زور ہمنوا اور اتحادی ساتھی شیخ رشید نے بچاری پارلیمان پر زور دار تبرا کر کے نکال دی۔یہ ہمارے حکمراں اور سیاست دان آخر ہاتھ دھو کر ریاستی اداروں کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہیں۔وہ ادارے جن سے یہ خود منسلک ہیں یا جو منسلک ہیں وہ انہیں مانتے بھی ہیں اور ان ہی کے مقرر کردہ ہیں۔اس اعتبار سے یہ انداز سیاسی ابلاغ ان کی اپنی بے توقیری ہے جو یہ خود کر رہے ہیں۔ یہ صورتحال مطلوب سیاسی استحکام اور آئندہ کے آئینی انتخابی عمل میں ایک بڑی رکاوٹ اور ریاستی نظام اور آئین پر عدم اعتماد کا باعث بنتی جارہی ہے۔ اس لئے حکمران موجود یا سزا پا کر سابق ہونے والے اور ان کے سیاسی حلیف ہوش کے ناخن لیں اور خود کو ٹھیک کریں تو ادارے بھی ٹھیک ہو جائیں گے۔

تازہ ترین