• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمیشہ کی طرح کراچی جانے والی قومی ائیرلائن کی پرواز اس روز بھی کافی لیٹ تھی کئی مسافروں کی طرح میں بھی اسلام آباد ایئرپورٹ کے بزنس لائونج میں فلائٹ کے انتظار میں تھا وقت گزاری کے لیے اخبارات اور میگزین بھی دیکھ ڈالے تھے سامنے لگے ٹی وی پر خبریں بھی سن لیں لیکن وقت تھا کہ گزر ہی نہیں رہا تھا اتفاق سے میری نظر سامنے بیٹھی ایک بارعب شخصیت پر پڑی ،وہ بھی اخبار کے مطالعے میں مصروف تھے لیکن اتفاق سے ہم دونوں کی نظریں چار ہوئیں ہلکی سی مسکراہٹ کا تبادلہ ہوا اور پھر سلام دعا کا آغاز ہوا ،موصوف سندھ پولیس میں اے آئی جی کے اعلیٰ عہدے پر فائز تھے اور اسلام آباد کسی کام کے سلسلے میں آئے تھے ،جاپان کے حوالے سے خاصی دلچسپی رکھتے تھے اور اگلے چند منٹوں میں سندھ میں پولیس کی کارکردگی کے حوالے سے گپ شپ رہی جبکہ جاپان کے حوالے سے بھی موصوف کی معلومات قابل دیدتھیں ،ابھی گفتگو جاری ہی تھی کہ کراچی کی فلائٹ کا اعلان ہوا اور بات چیت کا سلسلہ موخر کرنا پڑا اور اتفاق ہی تھا کہ جہاز میں بھی موصوف میری برابر والی نشست پر ہی براجمان ہوئے ،جہاز نے جیسے ہی اڑان بھری ایک دفعہ پھر گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا ، موصوف پاکستان اور جاپان کے تعلقات کے حوالے سے کافی کچھ جانتے بھی تھے اور مزید جاننا بھی چاہ رہے تھے لیکن مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ وہ میرے صحافتی بیک گرائونڈ سے واقفیت کی بنا پر مجھے سوالات کا موقع ہی نہیں دےرہے تھے اس بات کا میں نے برملا اظہار بھی کردیا جس پر وہ مسکرائے اوربولے پوچھیں کیا پوچھنا چاہتے ہیں ،میرا سوال بہت ہی سادہ سا تھا کہ1992 سے اگلے دس سالوں تک کراچی میں جو آپریشن کیا گیا جس کے نتیجے میں ہزاروں شاید دہشت گرد ، عام شہری اور پولیس اہلکار مارےگئے کیا وہ آپریشن صرف گرفتاریوں اور قانون کے مطابق عدالت سے ملنے والی سزائوں کے سہارے کامیاب نہیں ہوسکتا تھا ؟اے آئی جی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت کے حالات کے مطابق آپریشن ناگزیر ہوچکا تھا جبکہ جو بھی انکائونٹر ہوئے وہ پولیس پر حملے کے جواب میں کیے گئے اور ان انکائونٹرز کی وجہ سے دہشت گردوں میں خوف پیدا ہوا اور پھر کراچی میں امن بھی قائم ہوا جس کی گواہی میڈیا سمیت کراچی کے عوام دے رہے ہیں ،میرے اگلے سوال پر کہ کراچی آپریشن کے بعد جن پولیس افسران نے اس آپریشن میں اہم کردار ادا کیا تھا انہیں پولیس کی اعلیٰ قیادت نے بے سہارا چھوڑ دیا جس کے بعد ان افسران کو چن چن کر قتل کیا جاتا رہا اور پولیس کا مورال مکمل طور پر تباہ ہوکر رہ گیا ، تو کیا اب مستقبل میں آپ سمجھتے ہیں کہ پولیس جرائم کے سدباب کے لیے اس طرح کا کوئی آپریشن کرسکے گی جبکہ اس وقت تک آپ کے درجنوں پولیس افسران جو کراچی آپریشن کے اہم کردار تھے وہ قتل ہوگئے ہیں جبکہ رائو انوار یا چوہدری اسلم ہی دو اہم نام ہیں جو اب تک اپنی ہمت سے ڈٹے ہوئے نظر آتے ہیں ،میرے اس تبصرے پر پولیس افسر چونکے اور بولے آپ رائو انوار کو جانتے ہیں میں نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا کہ صرف اخبارات کی حد تک شناسائی ہے وہ مسکرائے اور پیچھے کی جانب دیکھ کر کسی کو آگے آنے کا اشارہ کیا ،چند لمحوں بعد سانولے رنگ ، ہلکے سفید بال ،چہرے پر ہلکی مونچھیں ، سفید رنگ کی شلوار قمیض میں ملبوس جس پر کالے رنگ کا کوٹ بھی پہن رکھا تھا ، پولیس افسر نے مذکورہ شخص سے میرا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ یہ ہیں رائو انوار جن کا ذکر خیر آپ فرمارہے تھے اپنے اے آئی جی کے سامنے رائو انوار بڑے اخلاق سے ملے اور ہماری درمیان والی نشست جو خالی تھی وہاں براجمان ہوگئے ،اب رائو انوار مجھ سے محو گفتگو تھے وہ بھی جاپان کے حوالے سے جاننا چاہ رہے تھے ،جاپان کے ویزے کے حصول کے حوالے سے بھی طریقہ کار جاننے میں دلچسپی تھی ، وہ اپنے صاحبزادے کو بھی بیرون ملک تعلیم دلوانا چاہتے تھے جس میں آسٹریلیا یا برطانیہ ان کی پہلی چوائس تھی تاہم جاپان کی بھی کافی تعریفیں انھوں نے سن رکھی تھیں،وہ بتارہے تھے کہ کراچی میں ان کی زندگی کو ہروقت خطرہ رہتا ہے لہٰذا وہ بکتربند گاڑی استعمال کرتے ہیں اور مکمل احتیاط برتتے ہیں جبکہ وہ اپنے ہی ادارے میں اپنے مخالفین سے بھی نالاں تھے ، لیکن اس روز وہ بہت ہی خوش اخلاق شخصیت دکھائی دے رہے تھے ایسی خوش اخلاقی اکثر سی ایس ایس کرکے پولیس میں آنے والے افسران میں ہوتی ہے ،رائو انوار کے حوالے سے جتنی خطرناک داستانیں سن رکھی تھیں وہ اتنے خطرناک بالکل محسوس نہیں ہوئےیہی وجہ تھی کہ میں نے ان سے سوال کر ہی لیا کہ جتنے انکا ئونٹر آپ کے حوالے سے مشہور ہیں وہ سب آپ ہی نے کیے ہیں وہ مسکرائے اور کہا کہ کبھی بے گناہ کو سزا نہیں دی ہمیشہ پولیس مقابلے پولیس پر حملے کے نتیجے میں ہی ہوتے ہیں ، بہرحال اس کے بارے میں تو سب ہی جانتے ہیں کہ پاکستان میں کتنے پولیس مقابلے حقیقی ہوتے ہیں اور کتنے غیر حقیقی ہوتے ہیں ، کچھ ہی دیر میں فلائٹ لینڈ کرنے والی تھی ایک فعہ پھر خاموشی چھا گئی اور کچھ دیر بعد جہاز لینڈ کرگیا ، رائو انوار کو لینے جہاز کے گیٹ پر ہی ان کی پولیس ٹیم پہنچ چکی تھی جبکہ اے آئی جی لیول کے افسر بغیر پروٹوکول کے دروازے کی جانب روانہ ہوئے ، رائو انوار کو فوری طور پر ایک جیکٹ بھی پہنا دی گئی تھی میں بھی ان کے ساتھ ہی چل رہا تھا تاکہ ان کی شان و شوکت دیکھ سکوں انھوں نے مجھے بھی اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دی کہ وہ مجھے گھر تک ڈراپ کردیںگے ۔ ائیرپورٹ کے باہر ان کی بکتر بند گاڑی کھڑی تھی جبکہ کئی پولیس موبائلیں اور پولیس اہلکار ان کے استقبال کے لیے موجود تھے ۔ میں اتنے بڑے پولیس قافلے میں اپنے گھر نہیں جانا چاہتا تھا لہٰذا شکریے کے ساتھ معذرت کرتے ہوئے اپنے ڈرائیور کے ساتھ گھر کی راہ لی ۔ اس دن مجھے اندازہ ہواتھا کہ رائو انوار اپنی زندگی کو کس قدر خطرے میں محسوس کرتے ہیں جبکہ وہ اپنے اہل خانہ کے بہتر مستقبل کے لیے بھی کتنے پریشان ہیں ، کئی برس قبل پیش آئے اس واقعہ کے بعد رائو انوار کئی دفعہ میڈیا میں نمودار ہوئے جس میں خواجہ اظہار الحسن کی گرفتاری اہم واقعہ تھی تاہم گزشتہ دنوں نقیب اللہ محسود کی مبینہ طور پر جعلی پولیس مقابلے میں ہلاکت نے مجھ سمیت لاکھوں پاکستانیوں کے دلوں کو توڑ کر رکھ دیا ، اتنا خوبصورت ،زندہ دل ، زندگی سے پیار کرنے والا ، بچوں سے محبت کرنے والا نوجوان بے گناہ اس دنیا سے چلا گیا بلاشبہ اس معصوم نوجوان کو مارنے والوں کے لیے دل سے بد دعانکلتی ہے لیکن حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اس کیس میں پورا انصاف کرے ،اگر پولیس مقابلے میں رائو انوار ملوث ہے تو اسے سخت سزا دی جائے لیکن اگر رائو انوار یہ کہتے ہیں کہ وہ انکا ئونٹر کے بعد جائے وقوع پر پہنچے تو پھر ان کو ان کے قصور سے زیادہ سزا نہ دی جائے ۔اس وقت ملک میں زینب قتل کیس، انتظار قتل کیس اور نقیب قتل کیس جیسے واقعات نے دنیا بھر میں پاکستان کو بدنام کیا ہے اب حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان تمام کیسوں کی صحیح بنیادوں پر تفتیش کرے اور انصاف ایسا کرے کہ دنیا کو انصاف ہوتا ہوا دکھائی دے قاتلوں کے ساتھ بھی اور مقتولین کے ساتھ بھی ۔

تازہ ترین