• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسپین سے پاکستان تک کا ہوائی سفر بہت ہی تھکا دینے والا ہے ،بارسلونا سے دوحہ، دبئی، استنبول اور وہاں سے لاہور ایئر پورٹ تک پہنچتے پہنچتے جسم درد سے چُور ہو جاتا ہے ۔پاکستان کی انٹرنیشنل ایئر لائن بارسلونا سے براہ راست لاہور اور اسلام آباد جاتی ہے، ہماری بزدلی سمجھ لیں یا موت کے منہ میں جانے کا ڈر کہ اپنی ملکی ایئر لائن میں احباب کی تسلی کے باوجود بیٹھنے کا حوصلہ نہیں پڑتا، پُرانے جہاز، عملے کی مسافروں سے بد سلوکی، جہازوں کے اندر پھیلی ہوئی گندگی ،غیر معیاری کھانا اور پروازوں میں عموماً تاخیر جیسے عوامل میری بزدلی کو مزید تقویت بخشتے ہیں ۔اِس بات پر ایمان ہوتے ہوئے بھی ’’کہ ہر ذی روح کو موت کا مزہ چکھنا ہے‘‘ پھر بھی میں غیر ملکی ایئر لائنز میں سفر کو ترجیح دیتا ہوں ،اِس وجہ سے اگر مجھے’’ کوسنا‘‘ چاہیں توآپ کو مکمل اجازت ہے،لیکن یہ سمجھ لیں کہ جب تک ہمارا قومی ادارہ اپنے جہازوں اور عملے کو ٹھیک یا نیانہ بنا لے میں اپنی ایئر لائن میں بیٹھنے والا نہیں، دوسرے مر حلے میںپاکستانی ایئر پورٹس پر اُترنے کے بعد ایف آئی اے اور کسٹم حکام کاایسا رویہ دیکھنے کو ملتا ہے جو وہ تارکین وطن پاکستانیوں کے ساتھ روا رکھتے ہیں،یہ رویہ سفر کی تھکاوٹ میں مزید اضافے کا باعث بنتا ہے۔بہر حال سب کچھ اپنی جگہ لیکن جب میں لاہور ایئر پورٹ سے باہر نکل کر وطن ِعزیز کی خوشبو میں رچی بسی ہوائیں اپنی سانسوں کا حصہ بناتا ہوں تو میری تھکاوٹ کو کم ہونے میںزیادہ دیر نہیں لگتی ۔سونے پہ سہاگہ کے مصداق بہن بھائی اورعزیز و اقارب جس چاہت سے مجھے خوش آمدید کہنے ایئر پورٹ پر پہنچے ہوتے ہیں وہ لمحات رُوح اور جسم کی تھکاوٹ پر ’’ ٹکور ‘‘ کا کام کرتے ہیں جس سے سرکاری محکموں کی جانب سے ہونے والی تمام زیادتیاں بھول جاتی ہیں ۔کچھ عرصے سے میری عادت بن گئی تھی کہ میںا سپین سے جب پاکستان پہنچتا تو اپنے آبائی شہرفیصل آباد جانے سے پہلے لاہور میں ایک ایسی شخصیت سے ضرورملاقات کرتا جن کی باتوں اور تحریروں نے مجھے اپنا گرویدہ بنا یا ہوا تھا ۔1950کی دہائی میںپچاس روپے ماہانہ تنخواہ پر اخبار تعمیر سے ’’اُوٹ پٹانگ ‘‘ کے عنوان سے کالم نگاری کا آغاز کرنے والی یہ شخصیت آج ہم میں نہیں رہی ،جی ہاں میری مراد وزیر آباد سے تعلق رکھنے والے امام مسجد غلام حیدر قریشی کے پوتے ریلوے افسر محمد عظیم قریشی کے فرزند اور معروف شاعر شریف کنجاہی کے بھانجے کالم نویس، شاعر،مصنف اور ڈرامہ نگار منیر احمد قریشی عرف’’ مُنو بھائی ‘‘سے ہے جو 19جنوری 2018کو ہمیں ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔امروز اخبار کے مدیر احمد ندیم قاسمی نے مرحوم کو قلمی نام منو بھائی عطا کیا،امروز سے منو بھائی نے ’’ گریبان ‘‘ کے نام سے کالم لکھنے کا جو سلسلہ شروع کیا تھا وہ آخری سانس تک جاری رہا ،پاکستان کے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو منو بھائی کو مساوات اخبار میں لے آئے جہاں1970میں اُن کا پہلا کالم شائع ہوا ،ڈرامہ نگاری میں مرحوم کا نام ایک معتبر حوالہ سمجھا جاتا ہے، انہوں نے سونا چاندی، جھوک سیال، دشت جیسے ڈرامے تحریر کئے جو آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں نقش ہیں ۔یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ منو بھائی کی لکھی گئی نظم’’ احتساب دے چیف بہادر کمشنر صاحب بہادر‘‘ پاکستان کے موجودہ سیاسی اور معاشرتی سسٹم کی بری طرح ناکامی کا اظہار کرتی ہے، 2007میں انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔ مرحوم انتہائی شفیق انسان تھے، جب بھی ملاقات ہوتی تو وہ گرم جوشی سے ملتے، دعوت کرتے، کبھی چائے پارٹی اور کبھی پھلوں سے تواضع کرنا اُن کا شیوہ تھا، جب میں نے اپنی پہلی کتاب ’’ قلمی سرگوشیاں ‘‘ شائع کی تو اُس کا فلیپ منو بھائی مرحوم سے لکھوایا، انہوں نے میری کالم نگاری کے بارے میں جو الفاظ کہے وہ میرا اب تک کاسب سے بڑا انعام ہیں، میں نے اُن کے کہے گئے الفاظ کی ویڈیو بنائی اور انہوں نے اپنے ہاتھ سے میرے لئے جس کاغذ پر اپنے تاثرات لکھے وہ زندگی بھر میرا اثاثہ رہیں گے، کتاب کا ’’ فلیپ ‘‘ لکھوانے’’ سندس فاؤنڈیشن ‘‘کے دفتر میں میرے ساتھ لقمان شیخ اور جاوید شاہ بھی موجود تھے، جہاں ہم نے سندس فاؤنڈیشن کے پلیٹ فارم سے ہونے والے رفاحی اور فلاحی کاموں کے متعلق بھائی یاسین خان اور منو بھائی سے تفصیل جانی تھی، مرحوم نے میرے لئے جو الفاظ ایک ورق پر لکھے وہ کچھ یوں تھے۔ یہ تو اسپین کے خوبصورت شہر بارسلونا کا با کمال کالم نگاربہترجانتا ہوگا کہ اُس نے اپنے واضح، دلچسپ اور قابل فخر کالموں کے مجموعے کے لئے ’’ سرگوشی ‘‘ کا عنوان کیوں پسند کیا ؟یہ صحت مند صحافت کے ساتھ تعلق رکھنے والی کالم نویسی کے تمام اہم اور لازمی تقاضوں کا علم اور عملی شعور رکھتاہے ،ابلاغ کے تقاضوں اور فرائض کی ذمہ داریوں کو بھی اچھی طرح جانتا ہے، میرا اُردو صحافت کا ساٹھ سالہ تجربہ بتاتا ہے کہ شفقت جیسے کالم نگار صحافتی کالم نگاروں کے شعبے کی آبرو اور عزت کمانے کے علاوہ پڑھنے والوں کے اعتماد کے حصول میں بھی کامیاب ہو سکتے ہیں اور مقبولیت حاصل کرنے میں بھی انہیں کوئی مشکل پیش نہیں آ سکتی ،کالم نگاری کا شوق رکھنے والوں سے میں کہتا ہوں کہ کالم نگاروں کے لئے لازم ہے کہ وہ مسلسل اور متواتر لکھنے اور ہر موضوع پر لکھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں مگر وہ یہ دونوں کام نہ کریں ،مسلسل اور متواتر لکھتے چلے جانے سے اور ہر موضوع پر لکھنے سے پر ہیز کریں شفقت رضا بھی یہی کرتا دکھائی دیتا ہے۔مرحوم مجھے کہتے تھے کہ میں تمہارے کالم پڑھتا ہوں، تم کالم لکھتے ہو، ورنہ کالم کا کہہ کر مضمون لکھ دیا جاتا ہے، تم کالم میں گھس جاتے ہو، میرے کالم پڑھ کر داد دینے اور میرا حوصلہ بڑھانے والی شخصیت آج دُنیا میں نہیں رہی، لیکن منو بھائی کے لکھے گئے کالموں کو پڑھ کر کالم نگاری کے رموز سیکھنے والے لاکھوں افراد رہتی دُنیا تک موجود رہیں گے۔
جو تُوں چاہنا ایں او نئیں ہوناں
ہو نئیں جاندا کرنا پیندا
عشق سمندر ترنا پیندا
سُکھ لئی دُکھ وی جرنا پیندا
حق دی خاطر لڑنا پیندا
تے جیون دے لئی مرنا پیندا.

تازہ ترین