• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اپنے گزشتہ ہفتے کے کالم ’’ترکی امریکہ آمنے سامنے‘‘ میں ترکی اور امریکہ کے درمیان شام کے موضوع پر بڑھتے ہوئے اختلافات کے بارے میں تفصیلات فراہم کی تھیں اور آپ کو یہ بھی بتایا تھا کہ یہ اختلافات کسی بھی وقت ترکی کو شام میں فوجی کارروائی کرنے پر مجبور کرسکتے ہیں اور ایسا ہی ہوا۔ امریکہ نے شام میں دہشت گرد تنظیم ’’داعش‘‘ کے خلاف موثر کارروائی کرنے اور اس مقصد کے لئے ترکی میں برسرپیکار دہشت گرد تنظیم ’’پی کے کے‘‘ کی شام میں موجود ایکسٹینشن ’’پی وائی ڈی اور وائی پی جی‘‘ کو کچھ عرصے سے جدید اسلحے سے لیس کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا۔ ترکی نے اسےناقابلِ قبول قرار دیتے ہوئے توقع ظاہر کی تھی کہ امریکہ جلد ہی اپنی اس غلطی کا ازالہ کرے گا اور اپنے ستر سالہ اتحادی سے منہ نہیں موڑے گا۔ترک وزارت خارجہ کے مطابق ’’وائی پی جی‘‘ کو مہیا کیا جانے والا ہر ایک
ہتھیار ترکی کے لئے خطرہ ہے۔ ترکی کے صبر کا پیمانہ اس وقت لبریز ہوگیا جب شام میں امریکی دستوں کے کمانڈر کی جانب سے ترکی اور شام کی سرحدوں کے قریبی علاقے میں تیس ہزار کرد جنگجوئوں پر مشتمل ایک نئی سرحدی فورسSDF کی تشکیل دینےاورانہیں جلد ہی ٹریننگ دینے کا اعلان کیا جو جلتی پر تیل کا کام دے گئی اور ترک وزیر خارجہ مولو چاوش اولو نے فوری طور پر اپنے امریکی ہم منصب ٹِلرسن کو ٹیلی فون کرتے ہوئے ایسا نہ کرنے اور دہشت گرد تنظیموں کو مسلح کرنے سے باز رہنے سے متنبہ کیا اور واضح طور پر علاقے میں ان دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کے لئے تنہا ہی ہر ممکنہ کارروائی کرنے سے بھی آگاہ کردیا جس پر ٹِلرسن نے چاوش اولو کو اخبارات کی خبروں پر یقین نہ کرنےاور کسی نئی سرحدی فوج کو تشکیل دینے کا کوئی ارادہ موجود نہ ہونے سے آگاہ کیا لیکن ترک وزیر خارجہ نے شام میں امریکی کمانڈر کا بیان ان کے سامنے رکھ دیا۔ اس صورتِ حال پر امریکی وزیر خارجہ نےحالات کا نئے سرے سے جائزہ لینے کی یقین دہانی کروائی۔ لیکن اس کے باوجود امریکہ نے اپنے پرانے اتحادی ترکی کی پرواکیے بغیر شام میں اپنی پالیسی جاری رکھی اور کئے گئے وعدوں کی پاسداری نہ کی۔ ترکی نے اس صورتِ حال پر کہا کہ ترکی شمالی شام میں کرد جنگجوؤں کے حوالے سے امریکی یقین دہانی سے مطمئن نہیں اور اس نے تنگ آکر 19جنوری 2018 کو مقامی وقت کے مطابق رات سات بجے شام کے ساتھ ملنے والے سرحدی شہر عفرین میں فضائی کارروائی کا آغاز کردیا۔ اس فوجی آپریشن سے قبل ترک صدر ایردوان گزشتہ پندرہ دنوں سے اس بات کا برملا اظہار کرتے چلے آرہے تھے کہ ’’ترک دستے اچانک شام میں داخل ہوسکتے ہیں‘‘۔ انہوں نے اس دوران روس اور ایران کے ساتھ قریبی رابطہ قائم کررکھا تھا ۔ روس نے شام کی سرحدوں پر ترک طیاروں کی آمد روکنے کیلئےجدید ایس400 اور ایس500 قسم کے میزائل نصب کررکھے ہیں اس لئےترکی کو شام کے علاقے میں فضائی کارروائی کے لئے روس کی اجازت اور حمایت کی ضرورت تھی۔ اس مقصد کے لئے ترک مسلح افواج کے سربراہ جنرل حلوصی اقار اور خفیہ سروس MITکے سربراہ حقان فدان نے ماسکو کا دورہ کیا اور روس کی مسلح افواج کے سربراہ اور دیگر اعلیٰ سرکاری حکام سے ملاقات کرتے ہوئے ترک طیاروں کو شام کی فضائی حدود میں داخل ہونے اور عفرین پر بمباری کرنے کی اجازت حاصل کی۔ اسی طرح ترکی نے شام میں شامی انتظامیہ کا مکمل ساتھ دینے والے ملک ایران سے بھی قریب رابطہ قائم کیا اور عفرین میں فضائی اور بری کارروائی سے متعلق معلومات فراہم کرتے ہوئے فوجی آپریشن سے متعلق اجازت حاصل کی۔ ایران نے اگرچہ ترکی کو شام میں فوجی آپریشن کرنے کی اجازت تو دے دی ہے لیکن اس کیساتھ ساتھ اپنے خدشات کا بھی اظہار کیا ہے۔ عفرین کے فوجی آپریشن سے قبل ترک وزارت خارجہ میں روس، ایران ، امریکہ، برطانیہ، فرانس اور چین کے علاوہ شام کے ہمسایہ ممالک کے سفیروں کو مدعو کرتے ہوئے عفرین میں شروع کئے جانے والے فوجی آپریشن سے متعلق معلومات فراہم کی گئیں۔
شام کے شہر عفرین جس پر کرد دہشت گرد تنظیموں ’’پی وائی ڈی اور وائی پی جی‘‘ نے امریکہ کی مدد سے 2012 سے سے قبضہ کررکھا ہے علاقے میں مزید پیش قدمی کو روکنے کے لئے ترکی کے لئے ضروری ہوگیاتھا کہ وہ آپریشن کرے۔ اس لئے ترک مسلح افواج نے کرد دہشت گردف تنظیموں کے تین گروپوں کو نشانہ بنایا۔ صدر ایردوان نے اس فوجی آپریشن کی اطلاع دیتے ہوئے کہا کہ ’’عفرین میں ’’شاخِ زیتون‘‘ فوجی آپریشن شروع کر دیا گیا ہے۔ اگلی باری منبج کی ہو گی۔‘‘ منبج شام کا ترکی کے ساتھ سرحد کے قریب ایک دوسرا شہر ہے، جو د دہشت گرد تنظیموں کے کنٹرول میں ہے اور عفرین سے مشرق کی جانب واقع ہے۔
ترک صدر ایردوان نے مزید کہا ہےکہ ’’عفرین میں دہشت گردوں کا مکمل صفایا کرتے ہوئے آپریشن کو جلد ہی مکمل کرلیا جائے گا ۔ہم تنہا نہیں ہیں بلکہ ہمیں دنیا بھر کے مسلمانوں کی دعائیں حاصل ہیں اور ہم اس علاقے کو دہشت گردی سے پاک کرتے ہوئے اس کے باسیوں کے حوالے کردیں گے۔ دہشت گرد تنظیمیں اس زعم میں نہ رہیں کہ انہیں امریکہ کی پشت پناہی حاصل ہے اور ترکی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔‘‘
ترک وزیراعظم بن علی یلدرم نے عفرین میں شروع کردہ فوجی آپریشن کے بارے میں کہا کہ کرد دہشت گرد تنظیموں کے خلاف جاری ملکی فوج کی کارروائی کے دوران بروز اتوار ترک دستے شام میں داخل ہو گئے۔ ترک فورسز نے ہفتے کے دن پیپلز پروٹیکشن یونٹ (وائی پی جی) کے خلاف شام کے وقت فضائی کارروائی شروع کی تھی۔ ترک وزیر اعظم بن علی یلدرم نے استنبول میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ترکی افواج عالمی وقت کے مطابق صبح آٹھ بجکر پانچ منٹ پر عفرین ریجن میں داخل ہوئیںاوراس کارروائی کا مقصد دہشت گردوں کو ترک سرحد سے تیس کلو میٹر دور دھکیلنا ہے تاکہ دونوں ممالک کی سرحدوں پر ایک سیکورٹی زون قیام کیا جا سکے۔
ترک فضائیہ نے علاقے میں تا دمِ تحریر 153 ٹھکانوں کو نشانہ بناتے ہوئے انہیں مکمل طور پر تباہ کردیا۔ فضائی آپریشن کے آغاز کے موقع پر ترک مسلح افواج کے سربراہ جنرل حلوصی اقار نے مسلح ہیڈکوارٹر میں بری، بحری اور فضائیہ کے سربراہان کے ہمراہ آپریشن سے متعلق معلومات فراہم کیں اور بری فوج کے آپریشن شروع ہونے کے موقع پر سرحدی علاقوں کا دورہ کیا۔
ترک مسلح افواج کے سربراہ جنرل حلوصی اقار نے امریکہ کی مسلح افواج کے سربراہ جنرل جوزف ڈونفورڈ اور روسی فوج کے سربراہ جنرل ویلری گراسیموف کو فوجی آپریشن سے متعلق معلومات دیں جس پر روسی فوج کے سربراہ نے علاقے سے روسی فوجیوں کے انخلا سے آگاہ کیا۔ اسی دوران ترک وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کو بھی اس کے چارٹرڈ اور بین الاقوامی قوانین کے تحت ترکی کو حاصل حقوق کی روشنی میں فوجی آپریشن کے آغاز کا بتایا۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل اسٹولٹن برگ کاکہنا ہے کہ ہر ملک کو اپنے دفاع کا پورا پورا حق حاصل ہے جبکہ فرانس کے وزیر خارجہ نے شام کے علاقے عفرین میں ترکی کی اس فوجی کارروائی کے خلاف ایک قرارداد پیش کی جس پر ترک وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ اس قرار داد کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کرنے سے یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے کہ فرانس ترکی کےمخالف گروپ میں ہے ۔
ترکی نے عفرین فوجی آپریشن کے دوران مقامی سطح پر تیار فوجی سازو سامان ہی زیادہ تر استعمال کیا ہے تاکہ امریکہ یا پھر مغربی ممالک کا فوجی سازو سامان استعمال کرنے سے کسی قسم کی پابندی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

تازہ ترین