• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جرائم پیشہ ہم بھی تھے لیکن ایسے ہرگز نہیںہاسٹل نمبر ون زیادہ تر انڈر گریجویٹس یعنی آنرز سٹوڈنٹس کیلئے مختص تھا اس لئے پابندیاں بھی کچھ زیادہ تھیں جن میں سرفہرست یہ کہ 9،10بجے کے لگ بھگ آمدورفت پر پابندی، اندر والے باہر نہیں، باہر والے اندر نہیں آسکتے۔ڈاکٹر خیرات اور ڈاکٹر شیر خان لودھی صاحبان جیسے وارڈن اور سپرنٹنڈنٹ لیکن چند ماہ میں ’’رننگ ان ‘‘ پوری ہوتے ہی جب ’’جھاکے‘‘ کھل گئے، دوستیاں استوار ہو گئیں اور گروپ تشکیل پا گئے تو ’’قانون شکنی ‘‘ کا پہلا مرحلہ یہ تھا کہ ہاسٹل کے دروازوں کی بجائے دیواریں استعمال کرنے لگے ۔ دیواریں پھلانگ کے آخری شو دیکھنے جاتے اور رات گئے دیواریں پھلانگ کر واپس آ کر دبے پائوں اپنے اپنے کمروں کی راہ لیتے ۔’’لبرٹی سینما ‘‘ کے علاوہ ’’ارم‘‘ اور ایک آدھ سینما فیروز پور روڈ کا ہماری آخری حد تھی ۔جب بات کھلی تو اتھارٹیز نے رولز ریلیکس کر دیئے کہ بچے ’’بالغ ‘‘ ہوگئے ہیں۔دوسر ی قانون شکنی ذرا خطرناک تھی ۔اساتذہ میں سے کسی کی گاڑی پارکی اور و ہ ایسے کہ دھکا لگا کر دور لے گئے تاکہ انجن کی آواز نہ سنی جاسکے، آوارہ گردی کی اور گاڑی وہیں کھڑی کر دی لیکن مالک پریشان کہ کھڑی کھڑی گاڑی کا پٹرول کیسے کم ہو جاتا ہے ....بس اسی قسم کے ’’جرائم پیشہ‘‘ تھے ہم ۔نہ کبھی کمروں سے اسلحہ برآمد ہوا نہ کبھی کسی نے وہاں اشتہاریوں کو پناہ دی، نہ گینگ وارز نہ سڑکیں بلاک کرنا لیکن لکھتے لکھتے اپنے چند اور ’’جرائم‘‘ ضرور یاد آ گئے۔ جن میں سرفہرست تھا ایک دوسرے کا سامان خورونوش اڑا کر دوستوں کی دعوت کرنا اور جس کے مال پر ہاتھ صاف کیا جاتا ، اسے خاص طور پر مدعو کیا جاتا۔ ان دنوں گھروں سے کھانے پینے کے سامان کی کمک جاری رہتی۔والدین اپنے ہونہار کے ساتھ ساتھ اس کے قریبی دوستوں کا حصہ علیحدہ بھیجتے جیسے اللہ بخشے صلو (صلاح الدین درانی حال مقیم کینیڈا) کی امی اک خاص قسم کے بسکٹ میرے لئے علیحدہ بھیجتیں۔ گرمیوں میں شربت کی بوتلیں علیحدہ، ایک بار شکاری (شیرقادر) بذریعہ روشندان کسی ’’شکار‘‘ کی ساری بوتلیں نکال لایا۔لان میں ’’پارٹی ‘‘ ہوئی۔ جس کا’’سامان ‘‘ تھا اس نے بھی گلاس پہ گلاس چڑھا کر ارمان نکالے اور گرمی کو ٹھنڈا کیا اور پھر جب اپنے کمرے میں پہنچا تو خود ٹھنڈا ہو گیا۔مسعود داڑھو مجھ سے بہت لمبا تھا سو اس کیلئے میرے کپڑے تو کسی کام کے نہ تھے سو میرا امپورٹڈ سکارف لے اڑا اور ظاہر ہے ’’پکڑا ‘‘ بھی گیا لیکن یہ اور بات کہ میں اور مسعود داڑھو پرسوں رات بھی دیر تک اکٹھے تھے۔نیو کیمپس کی نہر پہ پل تو تب بھی تھا لیکن تب ’’دھرنا‘‘ ایجاد نہ ہوا تھا اگرہوا تھا تو کم از کم اس خوابوں جیسی بستی تک نہ پہنچا تھا۔عجیب بات ہے کہ ان دنوں دائیں بائیں، سبزے سرخے کی رسہ کشی عروج پر تھی لیکن اس طرح کی ’’گینگ وارز‘‘ کسی کے وہم وگمان تک میں نہ تھیں۔اساتذہ کے ساتھ بدتمیزی و برابری کا کوئی تصور نہ تھا۔ڈریس کوڈ کا خیال رکھا جاتا ۔اب سنتے ہیں ،یہاں پولیس کے گھیرے ہیں، 80طلباء گرفتار ہوچکے،37کو خارج کر دیا گیا۔خس کم جہاں پاک ۔ہمارے اجتماعی مزاج میں اک خاص قسم کی معذوری ہے دہشت گردی سے لیکر کرپشن اور کرپشن سے لیکر کمسن بچوں کے ساتھ زیادتی تک ہم بروقت ری ایکٹ نہیں کرتے، تب تک ہوش نہیں آتا جب تک پانی سر سے نہیں گزر جاتا، ہم وقت پر ایک ٹانکا نہیں لگاتے چاہے بعد میں نوہزار ٹانکے لگانے پڑیں۔ہم ’’موری‘‘ کی طرف تب تک متوجہ نہیں ہوتے جب تک وہ ’’مگورا‘‘ بن کر تباہی نہ مچا دے۔ یہی کچھ پنجاب یونیورسٹی جیسے عظیم الشان ادارے کے ساتھ ہوا جو بتدریج علم کے مرکز سے بدبودار مچھلی منڈی میں تبدیل ہوتا چلا گیا اور یہاں ان لوگوں نے میرٹ کو پامال کیا جو نشاۃ ثانیہ کے علمبردار اور نظریہ پاکستان کے خود ساختہ چیمپئن تھے۔گزشتہ سے پیوستہ رات ہاسٹل نمبر ون میں پولیس، بھگدڑ اور توڑ پھوڑ کے مناظر ٹی وی پر دیکھے تو دل بہت دکھی ہوا لیکن یہاں تو پورا ملک ہی نیو کیمپس میں تبدیل ہو چکا۔مدتوں پہلے یونانی دیومالاکے ایک اصطبل بارے پڑھا تھا جس میں ہزاروں جانور بندھے اپنی ہی غلاظت میں غرق ہو رہے تھے کیونکہ عشروں سے اصطبل کو صفائی نصیب نہ ہوئی تھی۔ پھر ہر کولیس دو دریائوں کا رخ اصطبل کی طرف موڑ کر اسے پاک صاف کر دیتا ہے۔کیا کبھی اس اصطبل کو بھی کوئی ہر کولیس مل سکے گا؟کیا یہ مچھلی منڈی دوبارہ کبھی پنجاب یونیورسٹی بن سکے گی؟کیا کبھی یہ ملک وہ ملک بن سکے گا جو محمد علی جناح ؒ کے خوابوں اور خیالوں میں آباد تھا؟اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیںجس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیںیا.......مرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کردےمیں جس مکان میں رہتاہوں اسکو گھر کر دے۔

تازہ ترین