• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی بھی معاشرے کی روحانی دریافت کا بہترین طریقہ یہ معلوم کرنا ہے کہ وہاں بچوں سے کس قسم کا سلوک ہوتا ہے۔نیلسن منڈیلا
انسانوں نے اپنی شناخت کے لئے نام کے علاوہ کئی قسم کی دستاویزات متعارف کروائیں مثال کے طور پر شناختی کارڈ ،ڈرائیونگ لائسنس ،پاسپورٹ وغیرہ ۔ان سب میں جعلسازی کا امکان موجود ہے یہاں تک کہ کسی انسان کے فنگر پرنٹس بھی جعلی تیار کرکے اسٹمپ کی طرح کاغذات پر ثبت کئے جا سکتے ہیں لیکن قدرت نے خودکار نظام کے تحت جانداروں کو ایک ایسی شناخت دی ہے جس میں تحریف ناممکن ہے اور وہ ہے ڈی آکسی رائبو نیو کلیک ایسڈ جسے ہم ڈی این اے کے نام سے جانتے ہیں۔انسانی جسم کی بنیادی اکائی یعنی خلئے کے نیو کلیئس میں پائے جانے والے اس جینوم کی ساخت 99.3فیصد تمام انسانوں میں ایک جیسی ہوتی ہے ،بہن بھائیوں میں تو یکسانیت کی شرح مزید بڑھ جاتی ہے مگر ماسوائے جڑواں بچوں کے دنیا کے کسی انسان کا ڈی این اے ایک جیسا نہیں ہو سکتا ۔جب کسی شخص کا ڈی این اے کیا جاتا ہے تو 15مختلف پہلوئوں سے جائزہ لینے کے بعد اتنے ہی نمبر ز کا ایک بار کوڈ مرتب کیا جاتا ہے۔جس طرح ہمارے موبائل فون نمبرمیں سات اعداد ہوتے ہیں ممکن ہے ان میں سے کوئی چھ ایک دوسرے سے ملتے ہوں مگر ساتوں نمبر ایک جیسے نہیں ہو سکتے اسی طرح ہرشخص کا ڈی این اے مختلف ہوتا ہے۔ڈی این اے کے ذریعے کسی بھی شخص کے بالوں کی رنگت ،آنکھوں کی ساخت ،یہاں تک کہ اس کو لاحق تمام امراض کا ریکارڈ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ڈی این اے سیمپل خون ،تھوک ،سیمن،بال اور یہاں تک کہ اس ٹوتھ برش سے لیا جا سکتا ہے جسے آپ استعمال کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ کسی بھی ناگہانی آفت ،حادثے یا دہشتگردی کی صورت میں لاشوں کو ڈی این اے کی مدد سے شناخت کیا جاتا ہے جیسا کہ ہمارے ہاں ایک مرتبہ میو اسپتال کی نرسری میںآگ لگ گئی تو سوختہ لاشوں کو ڈی این اے سے شناخت کیا گیا ،جنید جمشید سمیت کئی مسافر طیارہ تباہ ہونے سے لقمہ اجل بنے تو ایک مرتبہ پھر اسی ٹیکنالوجی کو مستعار لیا گیا۔چند برس ہوتے ہیں ایک حاضر سروس فوجی افسر کے تمام اہلخانہ کو قتل کر دیا گیا ،جائے حادثہ سے ایک ٹیبل لیمپ ملا جو مقتولین میں سے کسی نے مرنے سے پہلے قاتل کے سر پر دے مارا تھا،اس لیمپ پر خون کے دھبوں سے ڈی این اے کرکے اسے مشکوک افراد سے میچ کیا گیا تو یہ گتھی سلجھ گئی اورقاتل پکڑے گئے۔دنیا بھر میں قتل اور جنسی زیادتی کے پیچیدہ ترین مقدمات ڈی این اے کی مدد سے حل کئے جاتے ہیں۔مائیک ٹائی سن کے خلاف ریپ کا مقدمہ اسی ٹیکنالوجی کے ذریعے انجام تک پہنچا۔چونکہ ڈی این اے ایک تقابلی شناختی نظام ہے اس لئے دنیا بھر میںڈی این اے سیمپل کا ڈیٹا محفوظ رکھا جاتا ہے تاکہ کسی بھی واردات کی صورت میں مشکوک افراد کو گرفتار کئے بغیر ہی یہ سراغ لگا لیا جائے کہ اس میں کون ملوث ہے برطانیہ میں پانچ ملین افراد کے ڈی این اے پروفائلز لیبارٹریو ں میں محفوظ کئے گئے ہیں۔ڈی این اے نے کریمنالوجی اور فرانزک سائنس کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا ہے اور ڈی این اے کو عدالتوں میں بطور شہادت تسلیم کئے جانے کے بعد نہ صرف داخل دفتر مقدمات حل ہو رہے ہیں بلکہ کئی ایسے بے گناہ لوگ بھی جیلوں سے رہا ہو رہے ہیں جنہیں غلط تفتیش اور جھوٹے گواہوں کی مدد سے سزا دیدی گئی مگر اب ڈی این اے کی مدد سے اصل مجرم پکڑے گئے۔سانحہ قصور برپا کرنے والا جنسی درندہ عمران علی نقشبندی جس نے زینب اور سات دیگر معصوم بچیوں کو اپنی ہوس کی بھینٹ چڑھا دیا ،اسے بھی ڈی این اے کی مدد سے ہی گرفتار کیا گیا ہے
نہ جانے کیوں آج مجھے لودھراں کی وہ مظلوم خاتون یاد آرہی ہے جو اپنے شوہر اور دیگر اہلخانہ کیساتھ کراچی گئی۔اسے مزار قائد کے سیکورٹی منیجر نے موقع پاکر اغواکرلیا اور اپنے دفتر لے جاکر بے حرمت کر دیا۔ معاملہ مزار قائد کا نہ ہوتا تو شاید دب جاتا مگر بابائے قوم کے مزار پر ایسی گھنائونی حرکت پر پولیس بھی متحرک ہو گئی۔ ملزم پکڑے گئے ان کا ڈی این اے میچ کر گیا ۔جس طرح آج ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ اب ملزم کو کیفر کردار تک پہنچا دیا جائے گا اسی طرح دس برس قبل پیش آنے والے واقعہ سے متعلق بھی استغاثہ کا یہی خیال تھا لیکن ایڈیشنل سیشن اینڈ ڈسٹرکٹ جج شرقی جناب ندیم احمد خان نے یہ کہتے ہوئے ملزموں کو باعزت بری کر دیا کہ عدالت ڈی این اے کو بطور شہادت تسلیم نہیں کرتی اگر مدعیہ کے پاس تذکیۃالشہود کے عین مطابق چار گوا ہ موجود ہیں تو پیش کیا جائے ۔جج صاحب نے اپنے اس فیصلے کی تائید میں نہ صرف قرآن کی ایک آیت پڑھی بلکہ مولانا مودودی کی تفہیم القرآن کا حوالہ بھی دیا ۔15مارچ 2008ء کو سرزد ہونے والے اس جرم کا فیصلہ اپریل 2013ء میں سنایا گیا جبکہ تین ماہ بعد جولائی 2013ء میں اسلامی نظریاتی کونسل نے اس فیصلے پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہوئے یہ فتویٰ صادر فرمایا کہ ڈی این اے کو زنابالجبر کے مقدمات میں بطور شہادت تسلیم نہیں کیا جا سکتا ۔اس وقت سے لیکر اب تک اس نوعیت کے سینکڑوں مقدمات میں ڈی این اے کو بطور شہادت مسترد کیا جا چکا ہے اور بیشمار جنسی درندے باعزت بری ہو کر پھر سے شکار کرتے پھرتے ہیں۔اگر زینب کے ساتھ وحشت و درندگی کا یہ کھیل میڈیا میں اجاگر نہ ہوتا اور پورے ملک میں بھونچال نہ آتا تو زینب کے اہل خانہ سے بھی یہی کہا جاتا کہ شریعت کے عین مطابق چارگواہ پیش کرو جنہوں نے عین اس حالت میں یہ فعل وقوع پذیر ہوتے دیکھا ہو۔ عین ممکن ہے اب عوامی دبائو کے پیش نظر عدالت ڈی این اے کو بطور شہادت تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائے لیکن کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ایک ڈکٹیٹر کے بنائے ہوئے حدود آرڈیننس پر اجتہاد کی راہ اپنائی جائےاور ڈی این اے کو بطور شہادت تسلیم کرنے کا قانون بنایا جائے؟
سانحہ قصور کا سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ ہم بطور معاشرہ مغالطے کا شکار ہیں ۔ہمارے ہاں اپنا بدنما چہرہ دیکھ کر سراپا درست کرنے کے بجائے آئینہ دکھانے والو ں کا سیاپا کرنے کا چلن ہے۔حالتِ انکار کی کیفیت ہے ،عمران علی نقشبندی جیسے بہروپیے کی وضع قطع کے بعد ایک مکتبہ فکر کو مطعون کیا جا رہا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہاں ہر طرف یہی حال ہے ۔ہم اس معاشرے میں زندہ ہیں جہاں 4 سال کی معصوم بچیاں اور 60برس کی معمر خواتین بھی محفوظ نہیں۔ جہاں ایک معلم دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے آنے والے بچے کو سفاکانہ انداز میں مار مار کر جان سے مار ڈالتا ہے اور ایک کالج کا طالبعلم جھوٹا الزام لگا کر اپنے استاد کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔یہ ہے اس معاشرے کا اصل چہرہ جس کے خد و خال ہم نے بہت محنت کرکے عدم برداشت ،انتہاپسندی اور لاقانونیت کے غازے سے سنوارے ہیں۔ہیومن جینوم پراجیکٹ پر کام کرنے والے سائنسدان کبھی ہمارے معاشرے کے جینوم پر بھی تحقیق کریں تو معلوم ہو کہ ہمارے ڈی این اے میں کوئی گڑبڑ ہے کیا ؟

تازہ ترین