• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ ہمارا قومی رویہ اور مزاج ہے یا گورننس کا پرابلم کہ جب تک میڈیا کسی سنگدلانہ اور ظالمانہ واقعے کو نہ اٹھائے ہماری حکومتیں تساہل سے کام لیتی اور’’مٹی پائو‘‘ حکمت عملی اپنائے رکھتی ہیں۔ جب تک آرمی پبلک اسکول پشاور کا سانحہ پیش نہ آیا ہمارے حکمران یہ فیصلہ ہی نہ کرسکے کہ دہشت گردوں کے خلاف جہادی کارروائی کرنی بھی ہے یا نہیں۔ آرمی پبلک اسکول پشاور میں معصوم بچوں کا خون بہا تو ساری قوم آنسوئوں میںڈوب گئی۔ میڈیا نے اس سانحہ کو قوم تک پہنچایا تو ہمارے حکمران ایک دم بیدار ہوئے حالانکہ اس سے قبل دہشت گردی کے واقعات ملک بھر میں تواتر سے ہوں رہے تھے۔ یہی رویہ قصور میں بھی دیکھا گیا۔ بلاشبہ میاں شہباز شریف متحرک وزیر اعلیٰ ہیں اور خدمت کا جذبہ رکھتے ہیں پھر انہیں اس خدمت کو پبلسٹی کے پہاڑ پر بٹھانا بھی آتا ہے اور اس سے سیاسی فائدہ کشید کرنے کا فن بھی خوب جانتے ہیں بہرحال اپوزیشن لیڈر کا یہ بیان قابل توجہ ہے کہ قصور کے ڈھائی سو بچے اور 12بچیاں پنجاب حکومت کے دامن پر داغ ہیں اور یہ کہ زینب کے قاتل کی گرفتاری کے حوالے سے کی گئی پریس کانفرنس تالیاں بجانے کا موقع ہرگز نہیں تھی۔ اسی طرح دوسری بچی عائشہ جو زینب کی مانند درندگی اور ز یادتی کا نشانہ بنی، اس کے والد کا بیان بھی ہما ری انتظامیہ کے عمومی رویے کی عکاسی کرتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ہمیں ڈی این اے ٹیسٹ کی رپورٹ ایک برس بعد چند روز قبل موصول ہوئی۔ ہمیں مطمئن کیا جائے کہ عمران ہی ہماری بچی کا قاتل ہے۔ یہ سوال اس لئے اٹھایا گیا ہے کہ قصور میں بچیوں سے زیادتی اور قتل کے پا نچ مجرمان کو پولیس مقابلے میں مارا جاچکا ہے۔ اب کہا جارہا ہے کہ عمران سیریل قاتل ہے اور آٹھ بچیوں کے قتل کا اعتراف کرچکا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والوں میں حسب معمول کچھ بے گناہ اور معصوم بھی تھے کیونکہ ایک اخبار کی تحقیقی خبر کے مطابق زینب کیس میں گرفتار کئے گئے تیرہ ملزمان عمران کی گرفتاری سے قبل ہی اعتراف جرم کرچکے تھے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہماری پولیس ا عتراف کروانے کی ماہر ہے اور پولیس مقابلوں میں معصوم لوگوں کو بھی مارنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی، اگرچہ ڈی این اے ٹیسٹ سائنسی طریقہ ہے اور اس میں شبے کی گنجائش بہت کم ہوتی ہے لیکن کئی وجوہ کی بنا پر اس ٹیسٹ کے حوالے سے بھی اعتراضات کئے جارہے ہیں۔ ان باتوں کے علاوہ معصوم زینب کے والد حاجی امین انصاری صاحب کا بیان بھی قابل توجہ ہے کہ پریس کانفرنس میں انہیں بات مکمل نہ کرنے دی گئی اور مائیک بند کردیا گیا۔ کیا خادم اعلیٰ اس ’’خدمت ‘‘ کی وضاحت کریں گے؟
شواہد کی روشنی میں عمران کا پکڑا جانا بہرحال ایک کارنامہ ہے جس کے لئے وہ تمام ادارے اور اہلکار شاباش کے مستحق ہیں جو اس سانحے کی تفتیش میں شریک تھے۔ میاں شہباز شریف کا بیان کہ زینب کے قتل کی خبر سن کر وہ تین راتیں سو نہ سکے ان کی انسانی ہمدردی اور قوم کے دکھ کی ترجمانی کرتا ہے لیکن ایک عام پاکستانی کی حیثیت سے مجھے اس سوال کا جواب نہیں ملتا کہ قصور گزشتہ دو سالوں سے اسی طرح کی خبروں کا گڑھ بنا ہوا تھا، کوئی دو سو بچوں سے زیادتی اور ان کی ویڈیوز بننے کی خبریں اخبارات میں چھپی رہیں، بچیوں سے زیادتی اور قتل و غارت کی خبریں لوگوں کو خون کے آنسو رلاتی رہیں، ایک بچی کائنات کو زیادتی اور درندگی کے بعد یوں کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا گیا کہ وہ اب تک زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا ہے اور اگر رضائے الٰہی سے زندہ بچ بھی گئی تو ذہنی حادثہ عمر بھر کا رونا ہوگا اس طرح کے بے شمار رلانے والے اور قلب و جگر کو لہو کرنے والے واقعات ہوئے لیکن نہ خادم اعلیٰ کی نیند ڈسٹرب ہوئی اور نہ ہی انتظامیہ میں کوئی غیر معمولی حرکت دیکھی گئی، حتیٰ کہ میڈیا نے بھی ظلم کی ان داستانوں پر فوکس نہ کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ سینکڑوں بچے بچیاں ظلم کا نشانہ بنے مگر کوئی مؤثر کارروائی نہ ہوئی۔ عائشہ کے والد کے بقول ایک تو ان کی معصوم بچی درندگی کا نشانہ بن کر دنیا سے رخصت ہوگئی اور دوسری طرف پولیس ہمیں خاموش کرانے کے لئے دبائو ڈالتی رہی۔ اسی تناظر میں اس شبےکا اظہار کیا جاتا ہے کہ کچھ معصوم لوگوں کے پولیس مقابلے میں مارے جانے کا امکان رد نہیں کیا جاسکتا، اگر یہ بات درست ہے تو روز قیامت اس قتل کا حساب اور جواب کون دے گا؟
معصوم اور مسکراتی بچی زنیب کی تصویر ہر لمحے رلاتی ہے۔ عمرے سے واپسی پر زینب کے والدین کی فریاد کہ آرمی چیف اور چیف جسٹس ہمیں انصاف دلائیں بذات خود ہمارے حکمرانوں کی گورننس کا راز فاش کرنے کے لئے کافی ہے، اگر میڈیا اس المیے کو نہ ابھارتا تو پولیس نے اپنے وہی روایتی ہتھکنڈے استعمال کرنے تھے۔ میڈیا نے حکمرانوں کو مجبور کیا کہ وہ مجرم کی تلاش کے لئے آرمی انٹیلی جنس، وفاقی انٹیلی جنس بیورو، آئی ایس آئی وغیرہ جیسے خفیہ اداروں کے علاوہ ڈی این اے ٹیسٹ کا وسیع جال پھیلائیں اور پولیس کو متحرک کرنے کے لئے آئی جی پولیس اور دوسرے اہم انتظامی عہدیدار قصور میں ڈیرے ڈالیں۔ اس تفتیشی جال نے بالآخر دو ہفتے کے اندر مجرم پکڑلیا۔ ان کے علاوہ اس واردات کا نوٹس عدلیہ نے بھی لے رکھا تھا، چنانچہ عملی طور پر یہ دو ہفتے ساری حکومت پنجاب اس واردات کے تانے بانے ادھیڑنے اور مجرم تک پہنچنے کے لئے کام کرتی رہی۔ ایک عام شہری کی حیثیت سے میں سوچتا ہوں کہ اگر ہمارے خادم اعلیٰ کی نیند دو سال قبل ڈسٹرب ہوئی ہوتی جب ایک دو بچیوں سے زیادتی اور قتل کی خبریں شائع ہوئی تھیں جب قصور میں بچوں سے مسلسل زیادتی اور ان کی ویڈیوز کی خبریں منظر عام پر آئیں تھیں تو شاید اس کے بعد قتل ہونے والی کوئی دو درجن بچیاں اس درندگی سے بچ جاتیں۔ معصوم بچیوں سے زیادتی اور قتل کے سنگدلانہ جرائم میں یہی چند ایک مجرمان ملوث تھے جنہیں اگر پہلی دوسری واردات کے بعد پکڑ لیا جاتا تو یہ سلسلہ ختم ہوجاتا اور مجرمان کی حوصلہ افزائی نہ ہوتی۔ ذاتی طور پر میرا مشاہدہ اور تجربہ بتاتا ہے کہ جرم سے دو ہی باتیں روکتی ہیں 1خوف خدا،2قانون کی گرفت کا خوف ۔ جن ممالک میں ایسے جرائم کی شرح کم ہے وہاں یہ کریڈٹ پولیس کی کارکردگی اور بہتر نظام کو جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں خوف خدا بھی زوال پذیر ہے اور انتظامیہ کی صلاحیت بھی مذاق بن چکی ہے۔خوف خدا کا یہ حال ہے کہ اوپر سے لے کر نیچے تک جھوٹ، فراڈ، لوٹ کھسوٹ، ملاوٹ، منافع خوری، لاقانونیت وغیرہ کی حکمرانی ہے۔ اخبارات بچوں سے زیادتی، اغوا اور بچیوں سے درندگی کی خبروں سے لہولہان نظر آتے ہیں اور عدم تحفظ پھیلاتے ہیں۔ یہ صورتحال حکمرانوں کی گورننس اور تساہل کے رویے کا راز فاش کرتی ہے۔ میں ہر روز بےشمار جرائم ، درندگی اور قتل و غارت کی خبریں پڑھ کر سوچتا ہوں کہ کیا ایسے معاشرے پر اللہ پاک کی رحمتیں نازل ہوسکتیں ہیں؟ مجھے تو قوم چھوٹے سے عذاب میں مبتلا لگتی ہے جو ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے۔ کیا یہ اجتماعی معافی مانگنے کا وقت تو نہیں، کیا اصلاح احوال کے بغیر اجتماعی معافی قبول ہوسکتی ہے؟

تازہ ترین