• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’عطر کی خوشبو‘‘ اپنا گزشتہ کالم لکھ رہا تھا، ایک دوست کا ٹیلی فون آیا۔ اُس کے پوچھنے پر موضوع بتایا ’’ٹیکس گزاروں کی رقم سے اخبارات اور ٹیلی وژن پر سرکاری اشتہارات کے خلاف لکھ رہا ہوں‘‘ وہ ہنسنے لگا، وجہ پوچھنے پر اُس نے کہا ’’جنگ، اِس ملک کے سب سے بڑے میڈیا گروپ کا حصہ ہے۔ سب سے زیادہ اشتہار اُسے ملتے ہوں گے‘‘ میں نے پوچھا ’’تو پھر‘‘ اُس کا جواب بہت آسان تھا۔ ’’تمہاری تجویز منظور ہوئی تو اخبار کا مالی نقصان ہو گا، وہ تمہارا کالم کیوں چھاپیں گے‘‘ میں نے کہا ’’میں زندگی میں کبھی مالکان سے نہیں ملا۔ مگر دل نہیں مانتا کہ جس گروپ نے مشرف دور کی مالی مشکلات برداشت کی ہوں اور اُس کے بعد بھی میر صاحب کے خلاف ملک کے کونے کونے میں فوجداری مقدمے قائم کئے گئے ہوں، وہ میرا کالم رد کر دیں گے۔‘‘ کالم بلا کم و کاست چھپ گیا۔ جان میں جان آئی، اگر میڈیا پر ایمان متزلزل ہو جاتا تو شاید مجھے مشکل فیصلہ کرنا پڑتا۔
سرکاری اشتہارات کے حوالے سے گزشتہ دنوں اخبار میں چھپی ایک تصویر دیکھ کر بہت دُکھ ہوا۔ دو مشہور اشتہاری ایجنسیوں کے مالکان نیب کی حراست میں تھے۔ اخباری اطلاع کے مطابق، میڈیا پر اشتہار چلے ہی نہیں یا کم نرخ پر چلے، مگر پوری قیمت وصول کی گئی۔ افسوس اِس بات پر ہوا کہ پہلے اشتہارت صحافتی رشوت کیلئے استعمال ہوتے تھے، اب الزام کے مطابق صاحبِ اختیار، اِس ذریعے سے اپنی جیبیں بھر رہے ہیں۔
پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں میڈیا صرف اخبارات اور رسائل پر مشتمل تھا۔ نجی شعبہ معاشی طور پر مضبوط نہیں تھا، اِس لئے میڈیا کے لئے سرکاری اشتہارات بہت اہم تھے۔ حکومت کسی اخبار سے ناراض ہوتی تو اُس کے اشتہار بند ہو جاتے۔ اخبار اِس امتیازی سلوک پر واویلا کرتا۔ قارئین کو یقین دلاتا کہ وہ غیر جانبدار رپورٹنگ کرتا ہے اور عوام کو حقائق سے باخبر رکھنے کے جرم کی پاداش میں اُسے سزا دی جا رہی ہے۔
اُس زمانے میں عوام، عام طور پر غیر جانبدار ہوتے تھے۔ سیاسی کشاکش ایسی نہیں تھی جیسی آج ہے۔ سیاست شائستگی کے دائرے سے باہر نہیں نکلتی تھی۔ لوگ صرف ایک پارٹی کے مداح اور اُس کے مخالفین پر ملامت سے زیادہ حقائق کی کھوج میں دلچسپی رکھتے تھے۔ اِس بنا پر اشتہار بند ہونا اخبار کے لئے غیر جانبداری کی سند بن جاتا۔ عوام کو بیباک اور نڈر صحافت من بھاتی اور حکومت کا مخالفانہ رویہ اشاعت میں اضافے کا سبب بنتا۔
رفتہ رفتہ میڈیا کے لئے نجی شعبے کے اشتہارات زیادہ اہم ہو گئے۔ پھر اِس صدی کے اوائل میں ایک صوبائی حکومت نے اشتہاروں میں بے پناہ اضافہ کر دیا۔ اب وفاقی حکومت ہو یا صوبائی حکومتیں، اشتہارات کی مد میں اخراجات لاکھوں کروڑوں سے بڑھ کر اربوں میں جا پہنچے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رقم میں اضافے کے ساتھ مختلف بدعنوانیوں نے جنم لیا ہے۔ اپنی طویل سرکاری نوکری کے دوران وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں شعبۂ اطلاعات کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ حکومتی اشتہارات، ایڈورٹائزنگ ایجنسی کے ذریعے اخبارات اور ٹیلی وژن چینلز کو تقسیم کئے جاتے ہیں۔ ہر سرکاری محکمہ مقابلے کے ذریعے ایڈورٹائزنگ ایجنسی کا چنائو کرتا ہے۔ محکمہ اطلاعات اِس معاملے میں غیر جانبدار نہیں رہتا۔ اول تو وہ چنائو کمیٹی میں اپنے نمائندے کے ذریعے نتائج پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ دوسری صورت میں وہ محکمے کو مجبور کرتا ہے کہ کسی ایک ایجنسی کو ضرور چنا جائے۔ بعد ازاں، اُن ایجنسیوں کو کس قسم کا اور کتنا کاروبار دیا جائے گا، اِس سلسلے میں بھی اطلاعات کا شعبہ دخل اندازی کر کے پسندیدہ ایجنسیوں کو نوازتا ہے۔ ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں کو واجبات کی ادائیگی سے پہلے شعبہ اطلاعات کی منظوری کا ٹھپہ لگنا ضروری ہے۔ عقلمند قارئین کو بتانے کی ضرورت نہیں کہ یہ ٹھپہ کتنا قیمتی ہے۔
حکمرانوں کو اِس دخل اندازی کا جواز بتایا جاتا ہے کہ اگر شعبہ اطلاعات اشتہاروں کی رقم کے بہائو پر کنٹرول نہ رکھے تو میڈیا اُس کی بات نہیں سنے گا۔ دوسرا جواز دیا جاتا ہے کہ چھوٹے اور علاقائی اخبارات کو معاشی امداد دینے کے لئے سرکاری اشتہارات کا ایک طے شدہ حصہ مختص کرنا ضروری ہے تاکہ وہ اشاعت جاری رکھ سکیں۔ دوسری طرف واقفانِ حال یہ الزام لگاتے ہیں کہ بہت سے سیاست دانوں نے یا شعبہ اطلاعات کے ہمنوائوں نے ڈمی اخبارات کے ڈیکلریشن لئے ہوئے ہیں۔ اُنہیں اشتہارات ملتے ہیں اور صرف اُس روز کے لئے اخبار کی محدود کاپیاں شائع ہوتی ہیں۔ یہ الزام بہت عرصے سے لگ رہا ہے اور اِس میں کوئی کمی نہیں آئی کہ علاقائی اخبارات اور رسائل کے لئے اشتہارات کا کوٹہ بدعنوانی کا ایک ذریعہ ہے۔ راقم کو اِن اخبارات کی مالی مدد پر اعتراض نہیں مگر ایک شفاف طریقۂ کار اپنانے کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔ اِس کے برعکس ادبی پرچوں کی سرپرستی نہیں کی جاتی۔ اُنہیں اشتہار نہیں ملتا۔ یہی وجہ ہے کہ ادبی جریدوں کے مالکان کبھی کبھار بیگم کے کنگن بیچ کر بھی پرچہ نکالتے ہیں۔ شکیل عادل زادہ ہمارے ملک کے نامور قلم کار ہیں۔ ہمیشہ علم و ادب سے وابستہ رہے۔ اُنہوں نے ایک دفعہ انٹرویو میں انکشاف کیا تھا کہ ایوبی دور سے بھی پہلے حکومت وقت نے مرحوم رئیس امروہوی کی مالی امداد کے لئے یہی طریقہ استعمال کیا۔ وہ روزانہ ایک قطعہ لکھتے تھے۔ حکومت اُنہیں خوش کرنا چاہتی تھی۔ حکومت وقت کے کہنے پر ’’شیراز‘‘ نامی ایک پرچہ نکالا گیا۔ جس روز سرکاری اشتہار ملتا، اُس دن دس کاپیاں خاص اہتمام سے چھپوائی جاتیں۔
دخل اندازی کا ایک جواز اشتہاروں کے نرخ سے متعلق ہے۔ غیر کاروباری سرکاری محکموں کے لئے کم اور کاروباری اداروں جیسے پی آئی اے کے لئے اشتہاروں کی زیادہ قیمت لی جاتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اِس تخصیص کی تصدیق کیلئے شعبۂ اطلاعات کے پاس جانا ضروری ہے۔ یہ جواز غیر ضروری ہے کیونکہ اداروں کی فہرست بنا کر مشتہر کرنے سے تصدیق غیر ضروری ہو جائے گی۔ ایک اور وجہ آڈٹ بیورو سرکولیشن سے وابستہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اے بی سی کی تصدیق شدہ اشاعت سے اخبار میں اشتہار کی قیمت کا تعین ہوتا ہے۔ یہ دلیل بھی معقول نہیں۔ الیکٹرونک میڈیا پر اشتہار کے نرخ کا تعین نجی شعبہ کی ریٹنگ ایجنسی کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ نجی شعبہ کو پرنٹ میڈیا کے لئے بھی یہی خدمت سونپی جا سکتی ہے۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا حق ہے کہ وہ اپنی کارکردگی کو کسی بھی طریقے سے مشتہر کریں۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ ٹیکس گزاروں سے لی ہوئی رقم کا بے جا استعمال نہ ہو۔ اس عمل میں شعبۂ اطلاعات کی بیجا مداخلت کو ختم کرنا مناسب ہو گا۔ یہ مداخلت ایک طرف حکومت کی نیک نامی کو متاثر کرتی ہے، دوسری طرف بدعنوانی کے لئے نئی راہیں کھول دیتی ہے۔ اگر ہمت کر کے اِس دخل اندازی کو ختم کر دیا جائے تو میڈیا بھی سُکھ کا سانس لے گا اور حکومت کا دامن بھی داغدار ہونے سے بچا رہے گا۔ کیا مریم، میرا مطلب ہے محترمہ مریم اورنگزیب ہمت کریں گی؟

تازہ ترین