• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

منوبھائی نے اس رات پہلی مرتبہ اپنی زندگی کے لانگ پلے کے ختم ہونی کی بات کی۔ انہوں نے کہاکہ میرا وائنڈ اپ آگیا ہے۔سہیل احمد نے منوبھائی کا ہاتھ پیار سے اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام رکھاتھا۔منو بھائی کہہ رہے تھے انہوں نے زندگی میں جو خواب دیکھے تھے وہ ادھورے رہ گئے ،انہوں نے ساری زندگی دکھی اور عام انسانوں کی زندگی بدلنے کے لئے جدوجہد کی، لیکن کچھ نہیں بدلا۔اس رات پہلی مرتبہ منوبھائی کے اندر زندگی جینے کی امید کو ٹوٹتے ہوئے دیکھا۔انہوں نے ایک آہ بھری اور پنجابی میں بڑبڑائے’’مزہ نئیں آیا‘‘۔ سہیل احمدنے کہا۔۔آپ کا ہی تو مزہ آیا ہے،آپ کے بعض دوستوں کا اکثر مزہ نہیں بھی آیا۔۔یہ سنتے ہوئے منوبھائی کے خشک ہونٹوں پر ایک خفیف سی مسکراہٹ پھیل گئی لیکن ان کی آنکھیں ویران ہی رہیں ۔اس تھراپی کا فائدہ یہ ہوا کہ انہوں نے اپنی بیٹی گڑیا کے ہاتھ میں پکڑی کھجور کھالی جو وہ انہیں کھلانا چاہ رہی تھی۔ منوبھائی سے یہ آخری ملاقات ڈیفنس اسپتال کے آئی سی یو وارڈ میں ہوئی ۔جہاں وہ بیڈ پر سیدھے لیٹے ہوئے تھے اور انکی بیٹی گڑیا ان کے بائیں جانب پریشان کھڑی تھی۔ آخری دنوں میں منوبھائی گھر اوراسپتالوں کے درمیان شٹل کاک بنے رہے۔ان کے بارے میں جب بھی پتہ چلتا کہ وہ اپنی بیماری کے باعث زیر علاج ہیں تو سہیل احمد کے ہمراہ اسپتال پہنچتارہا۔19جنوری کی سہ پہر لوہے کے اسی گیٹ سے منوبھائی کا جنازہ باہر لایاگیا جس دروازے کو کھولتے ہوئے وہ اکثر کہتے ’’اوئے فیر آگئے او‘‘۔منوبھائی کا آخری دیدار اسلئے نہ کیاکہ میں انہیں اپنے دل ودماغ کے سیلولائیڈ پر چلتا،پھرتا،ہنستا،مسکراتا اور شگوفے بکھیرتا زندہ دیکھنا چاہتاہوں۔
منوبھائی سے پہلی ملاقات مال روڈ پر واقع وائی ایم سی ہاسٹل کے ایک کمرے میں ہوئی ۔اس ڈنر کے اسپانسر اور ہوسٹ آج کے معروف اینکرپرسن سعید قاضی تھے۔منوبھائی سے اس شام بہت سی باتیں ہوئیں۔میں نے منو بھائی سے پوچھا جب آپ کم سن تھے ، آپ کے دل ودماغ میں خدا کا تصور کیاتھا؟مجھے یا د ہے منوبھائی نے پورے یقین کے ساتھ کہاتھاکہ اس وقت بھی میں یہی سمجھتاتھاکہ میرا رب ماں جیسا ہے۔یہ ملاقات 29سال قبل ہوئی تھی اور پھر یہ سلسلہ جاری رہا۔منوبھائی کی خواہش تھی کہ پاکستان ایک پرامن اور فلاحی ریاست بنے ،ہمسائیوں سے ہمارے تعلقات برادرانہ ہوں تاکہ خطے میں بسنے والے انسانوں کے بہترین وسائل ان کی فلاح وبہبود پر خرچ ہوں۔ شبانہ اعظمی اورجاوید اختر پاکستان آئے تو میں نے انہیں جنگ فورم میں مدعوکیا۔اس نشست میں منوبھائی اور جاوید اختر شبانہ اعظمی کے دائیں بائیں بیٹھے ہوئے تھے ۔منوبھائی نے کہاکہ دونوں ملکوں کو قریب لانے کی کوششیں جاری ہیں لیکن طاہر سرورمیر کی کوششوں سے شبانہ ہمارے بہت قریب آگئی ہیں۔ منوبھائی کی اس بات پر شبانہ اعظمی سمیت حاضرین نے زور دار قہقہہ لگایا جبکہ جاوید اختر کے تاثرات وہی تھے جو ویرا ت کوہلی کے زیر و پر کلین بولڈ ہونے پر ہوتے ہیں۔ 1996 کی بات ہے۔ میں اپنے ساتھیوں محسن جعفر اور عارف نجمی کے ساتھ موجود تھاکہ منوبھائی بھی شوبزسیل میں آگئے ۔یکایک ایک جواں سال اور خوبصورت لڑکی اندر آئی اور اس نے منوبھائی سے مخاطب ہوکر کہا۔۔منوبھائی !میں ایک فنکارہ ہوں ،خواہش ہے میری تصویر اخبار میں شائع ہو لیکن میں جہاں بھی جاتی ہوں مجھ سے عجیب و غریب ’’فرمائشیں‘‘کی جاتی ہیں ،میں ایک شریف لڑکی ہوں ۔میری مدد کریں۔ منوبھائی نے لڑکی کی بات سنی تو ہماری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔کہیں وہ فرمائشی صحافی یہ تو نہیں۔لڑکی نے گھور کر ہمیں دیکھا اور جواب دیاکہ یہ وہ نہیں ہیں۔ اس شناخت پریڈ کے بعد منوبھائی نے ہمیں کیریکٹر سرٹیفکیٹ جاری کرتے ہوئے آرڈرکیاکہ اس لڑکی کی ایک ماہ میں دوبار تصویر شائع کی جائے۔اس واقعہ کو 20سال ہوگئے مذکورہ فنکارہ ایک سینئر اداکارہ کے طور پر شوبز میںآج بھی مصروف ہے اور منوبھائی کا نافذ کیا’’بھائی ٹیکس ‘‘ میں اب تک ادا کررہاہوں۔گزشتہ سردیوں کی بات ہے شادی کی ایک تقریب میں اداکارہ میرا کی والدہ شفقت بیگم منوبھائی کے پاس بیٹھیں انہیں ’منوجی ‘ کہہ کرمخاطب کررہی تھیں۔میں نے شرارت سے کہا۔۔آنٹی ان کانام منوبھائی ہے،آپ انہیں منوجی کہہ رہی ہیں۔خیر تو ہے؟منوبھائی نے اپنے مخصوص انداز سے کہا۔۔منوبھائی میرا نام ہے ،میرارشتہ نہیں۔عبدالرئوف صاحب کی شادی کی تقریب میں منوبھائی کا کردار مکی آرتھر جیساتھا جبکہ میں اور سعید قاضی نے پھبتیوں اورجگتوںکا ٹوئنٹی ٹوئنٹی کھیلاتھا۔ بذلہ سنجی کے اس میچ کے امپائر چاچا زبیر رانا تھے جبکہ آصف علی پوتااورعابدتہامی انتظامیہ میں شامل تھے ۔طاہر القادری کے کمانڈرناراض ہوئے تووہ جنگ لاہور کے دفتر پر قابض ہوگئے ان کامطالبہ تھا ان کی ریلی بہت بڑی تھی مگرسرخی صرف دوکالمی جمائی گئی۔منوبھائی نے اس واقعہ کو گریبان میں بیان کیااور کالم لکھا جس کا عنوان تھا ’’طاہر القادری نے چھ کالمی ریلی نکالی‘‘۔
منوبھائی ایک مستند ادیب ،نامور ڈرامہ نگار،منفرد شاعر اور بڑے کالم نگار تھے۔انہوں نے کالم نگاری میں ابن انشا جیسی لطیف روایت کو یوں آگے بڑھایا کہ ’’گریبان‘‘ معاشرے کے لئے آئینہ بن گیا ۔دسمبر 2015میں مجھے ایک ٹی وی انٹرویو دیتے ہوئے منوبھائی نے بتایاکہ ان کے کالم کی عمر 60سال ہوگئی ہے ۔میں نے منوبھائی سے کہا کبھی محسوس ہوا کہ آپکا کالم بوڑھا ہوگیاہے ؟ یا پھر ہم یہ سمجھیںمنو بھائی کا کالم اور مرد کبھی بوڑھا نہیں ہوتا؟ منوبھائی نے کہاانسان بوڑھا بھی ہوجاتاہے ،بوڑھا ہونا بھی چاہیے اس میں کیابرائی ہے۔ منو بھائی نے اپنے کیرئیر میں بطور کالم نگار 63سال کی کامیاب اننگز کھیلی۔ میرے نزدیک منوبھائی اردوزبان کے سب سے بڑے کالم نگار تھے۔انہیں اگر کالم نگاروں کا ’’چیف آف کالم اسٹاف ‘‘قراردیاجائے تو درست ہوگا۔منوبھائی کے لئے کہاگیاکہ وہ فیض بننا چاہتے تھے جبکہ ڈاکٹر لال کہتے ہیں کہ منوبھائی Ambitiousنہیں تھے ہم نے انہیں دولت ،طاقت اور شہرت کے حصول کی بجائے محکوم طبقات کی فلاح وبہبود کیلئے جدوجہدکرتے دیکھا۔منوبھائی ،فیض نہیں بن سکتے تھے مگر یہ بھی سچ ہے کہ فیض بھی منوبھائی نہیں تھے ۔جھوک سیال اورجزیرہ ان کے لکھے ایسے ڈرامے تھے جن سے ٹیلی وژن پاکستانیوں کا فیملی ممبربن گیا۔ مقبولیت کے اعتبار سے جھوک سیال اورجزیرہ نے وارث سے پہلے بازار بند اور سڑکیں سنسان کیں۔ دراصل وارث ،جھوک سیال اور جزیرہ کی ایکسٹینشن تھا۔ منوبھائی اپنی کئی جہتوں اور حیثیتوں سے زندہ رہے۔ارشد جیلانی اور میری درخواست پر منوبھائی نے پہلی مرتبہ میرے شہر گجرانوالہ میں سندس فائونڈیشن کا دورہ کیا۔اس کے بعد انہوں نے اپنی باقی زندگی خون کے عارضہ میں مبتلابچوں کے نام کردی ۔حامدمیر نے منو بھائی کو ’ڈاکٹر منوبھائی ‘ کالقب دیاہے۔ان کا خواب تھالاہور اور پھر پاکستان کو تھیلیسمیا اور ہیموفیلیاسے پاک بنایاجائے ۔اس کام میں ہمیں سہیل وڑائچ،خالد عباس ڈار اور سہیل احمد عزیزی کا ہاتھ بٹاناچاہیے۔ منوبھائی نظریاتی طور پر سوشلسٹ تھے جو انسانوں کے لئے ایسے معاشرے کے خواب دیکھتے رہے جہاں سب کو برابر حقوق حاصل ہوں ۔میں نے لگ بھگ چالیس سال تک انہیں پڑھا اور تیس سال تک قریب سے دیکھنے کا موقع ملا وہ بہت بڑے انسان تھے۔عظیم انسان کی ایک نشانی یہ بھی ہوتی ہے کہ آپ اس کے پاس بیٹھ کر اپنے آپ کو چھوٹا محسوس نہ کریں۔انہیں اپنے علم ،کسب،اسٹارڈم اور گلیمر پر رتی برابر بھی تکبر نہیں تھا۔وہ ایک درویش انسان تھے۔منوبھائی میرے رول ماڈل تھے۔میں نے ان کا آخری دیدار نہیںکیا اسکی وجہ وہی ہے جو سلطان باہوؒکہہ گئے۔۔نام فقیر تنہاں دا باہو۔۔قبر جنہاں دی جیوے ہو۔

تازہ ترین