• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زری پالیسی، جسے بینکاری کی زبان میں مانیٹری پالیسی کہا جاتا ہے، ایک ایسا عمل ہے جس میں زری حکام ملک میں قیمتوںکے استحکام، زر کی رسد اور سود کی شرح کو کنٹرول کرتے ہیں۔ اس کاوش کا مقصد ملک کے مالی امور کو اس نہج پر چلانا ہوتا ہے کہ کسی بھی شعبے میں مالیاتی اعتبار سے بگاڑ پیدا نہ ہونے پائے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے جمعہ کے روز آئندہ دو ماہ کے لئے زری پالیسی کا اعلان کردیا ہے جس کے مطابق شرح سود اعشاریہ دو پانچ اضافے کے بعد6فیصد کردی گئی ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک طارق باجوہ نے کہا کہ شرح سود بڑھانے کا مقصد معاشی نمو کو روکنا نہیں بلکہ اس کی رفتار کو مستحکم کرنا ہے۔ معاشی نمو گزشتہ گیارہ برس کی بلند ترین سطح حاصل کرنے کی طرف گامزن ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میںاضافے سے مہنگائی بڑھنے کا خدشہ ہے۔ مالی خسارہ گزشتہ سال کی سطح یعنی2.5فیصد تک رہنے کی توقع ہے جبکہ برآمدات میں 11فیصد اور ترسیلات زر میں 2.5فیصد اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امکان ہے مجموعی صنعتی سرگرمیاں مضبوط رہیں گی۔ انفراسٹرکچر اور سی پیک سے متعلق سرمایہ کاری سے تعمیرات اور اس سے منسلک صنعتوں کو فائدہ ہوا ہے اور توقع ہے کہ ان کی بلند نمو کی رفتار قائم رہے گی۔ اسٹیٹ بینک کی حالیہ پالیسی کے مہم کی اہم باتیں مالی خسارہ، ترسیلات زر میں اضافہ، معاشی نمو کا گیارہ سال میں بلند ترین سطح کی طرف گامزن ہونا اور پٹرولیم مصنوعات کی گرانی کے باعث مہنگائی میں اضافے کا اندیشہ ہیں۔ برآمدات و ترسیلات زر میں اضافہ اچھی بات ہے اور معاشی نمو بھی تو مالیاتی خسارے کو کم کرنے کے اقدامات لازم ہیں۔ مجموعی صنعتی سرگرمیوں کی بلندلی بھی خوش آئند عندیہ ہے لیکن مہنگائی کو قابو میں لانا ازحد ضروری ہے کہ یہ پہلے ہی عوام کیلئے ناقابل برداشت ہے۔ شرح سود میںاضافے کا قرضوں پر بھی براہ راست اثر مرتب ہوا کرتا ہے۔ امید ہے زری حکام نے تمام تر معاملات پر غور و خوض کیا ہوگا۔ بہرکیف حکومت کو عوام کی کمر سے مہنگائی کا بوجھ اتارنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرنا چاہئے۔

تازہ ترین