• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک فلم کا سین یاد آ گیا۔ پلیٹ فارم پر ایک شخص جیب کاٹتا ہوا پکڑا جاتا ہے، لوگ اکٹھے ہو جاتے ہیں اور مار مار کر جیب کترے کا بھرکس نکال دیتے ہیں،جس شخص کی جیب سے پرس چرایا گیا ہوتا ہے وہ لپک کر اسے چھڑاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں خود اسے سزا دوں گا، پھر چور سے پوچھتا ہے کہ بول کیا تو میرے ساتھ چلے گا یا کردوں تجھے اِن لوگو ں کے حوالے، آگے کے مکالمے خوب ہیں :’’جانتے ہو یہ کون ہیں، یہ ہمارے دیش کی جنتا ہے جنتا، ان کے چہرے دیکھے ہیں، کتنے غصے میں ہیں، کوئی بیوی سے لڑ کر آیا ہے، کسی کا بیٹا اس کی بات نہیں سنتا، کسی کو اپنے پڑوسی کی ترقی سے جلن ہے، کوئی مکان مالک کے طعنے سن کر آیا ہے، سرکار کے بھرشٹاچار سے لے کر کرکٹ ٹیم کی ہار تک، ہر بات پہ ناراض ہیں، لیکن سب چپ ہیں کسی کے منہ سے آواز نہیں نکلتی اور یہ سارا غصہ تجھ پہ نکالیں گے، کردوں ان کے حوالے، سر پھوڑ دیں گے تیرا۔‘‘ہمارا بھی یہی حال ہے، ہر شخص آگے بڑھ بڑھ کے عمرا ن علی نامی درندے کے لئے سزائیں تو تجویز کر رہا ہے مگر قصور کے لوگوں سے کوئی یہ بھی تو پوچھے کہ جب یہ مکروہ شخص پہلی دفعہ 2015میں ایک بچی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے پکڑا گیا تو انہوں نے اسے روکنے کے لئے کیا قدم اٹھایا؟ سوشل بائیکاٹ تو دور کی بات یہ شخص محفلوں میں نعتیں پڑھتا تھا، لوگ جھومتے تھے اورنعرے لگاتے تھے، اسے اپنے گھروں میں کام کے لئے بلواتے تھے، بچے اس کے ساتھ مانوس تھے، یہ درندہ زینب کا ہاتھ پکڑے اسی کے محلے سے لے جا رہا تھا جہاں سب اسے جانتے تھے مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی، اس کی فوٹیج سامنے آنے کے بعد پوری دنیا میں اس کی تصاویر لگ گئیں، اسے پہچان لیا گیا، اس کے گھر والوں کو یقین ہوگیا کہ یہی ہے زینب کا قاتل، اس کے دوستوں کے بقول اس نے یکایک داڑھی منڈوا دی، مگر کسی کو توفیق نہ ہوئی کہ پولیس کو بتاتا کہ ہم نے قاتل کو پہچان لیا ہے حالانکہ اس کے لئے انعام بھی رکھا گیا تھا۔
پولیس کا کردار اس قتل کی تفتیش کی حد تک یقیناً قابل ستائش ہے، آر پی او ذوالفقار حمید کی سربراہی میں تفتیشی ٹیم نے تین لاکھ افراد کی تصاویر کی چھان پھٹک کی، چھ ہزار کالز کا ڈیٹا کھنگالا گیا، ساٹھ ہزار افراد کا ریکارڈ تازہ مردم شماری سے چیک کیا گیا، گیارہ سو پچاس ڈی این اے نمونے لئے گئے، بیس پولی گراف ٹیسٹ کئے گئے، اڑھائی کلومیٹر کے احاطے میں بارہ سو خاندانوں کی چھان بین کی گئی اور یوں 24/7محنت کے بعد پندرہ دنوں میں اس مجرم کی گرفتاری عمل میں آئی۔لیکن دوسری طرف یہ پولیس کی ناکامی ہے کہ 2015کے بعد سات وارداتیں ہوئیں جن میں پانچ معصوم بچیوں کی جانیں گئیں، عمران علی کا کردار اس دوران مشکوک رہا، اس کی شکایت مقامی پولیس کے پاس در ج کروائی گئی، قصور جیسے شہر میں اس قدر معلومات کے بعد پولیس کی نظروں سے بچی سے زیادتی کے مجرم کا چھپے رہنا سراسر ظلم ہے اور اس پر مزید ظلم یہ کہ ایک بچی کے قتل کے جرم میں پولیس نے بے گناہ نوجوان کو پولیس مقابلے میں پار کر دیا جبکہ اس بچی کے ڈی این اے ٹیسٹ کے مطابق اس کا مجرم بھی یہ عمران علی تھا۔ سوال یہ ہے کہ اگر معصوم زینب کے قتل کو میڈیا تشہیر نہ ملتی تو یہ قتل بھی 2015کے بعد ان بچیوں کے قتل کی طرح داخل دفتر ہو جاتا اور ہم اُس وقت کا انتظار کرتے جب تک ایک اور زینب قتل نہ ہوتی ۔ کسی بھی شہر میں کم سن بچیوں کے ریپ اور قتل سے زیادہ بھیانک اور سنگین کوئی واردات نہیں ہو سکتی، یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ متعلقہ ڈی پی او کو ایسے واقعات کا علم نہ ہو، جس روز پہلی بچی کے ساتھ یہ واقعہ ہوا اسی دن اگر ڈی پی او اسے ٹیسٹ کیس بنا لیتا تو ممکن تھا کہ یہ کیس پندرہ روز میں حل نہ ہوتا مگر چار ماہ میں تو ہو جاتا! پولیس ان تمام بچیوں کے قتل سے بری الذمہ نہیں ہو سکتی۔ پولیس کی مذمت اپنی جگہ مگر یہ تلخ حقیقت بہرحال موجود ہے کہ بچیوں کے تحفظ کی ذمہ داری ان کے گھر والوں کی بھی ہے۔ ایک ایسا محلہ جہاں بچیوں کے ساتھ وارداتیں ہر کسی کے علم میں ہوں، جہاں یہ وارداتیا رنگے ہاتھوں پکڑا جا چکا ہو، جہاں اس کے کردار پر شک شبہے کا اظہار اہل علاقہ کر چکے ہوں، جہاں اس شخص کو ان حرکتوں پر مار پڑ چکی ہو، وہاں معصوم زینب اپنے سے چھ ماہ چھوٹے بچے کے ساتھ گھر سے باہر سیپارہ پڑھنے جاتی ہے اور عمران علی اسے بہلا پھسلا کر ساتھ لے جاتا ہے کیونکہ زینب اس سے مانوس تھی۔
ایک سوال اور پیدا ہوتا ہے کہ زینب کا قاتل اگر کوئی کلین شیوڈ لبرل اور مغرب زدہ نوجوان ہوتا تب ہمارا رد عمل کیا ہوتا؟ تب ہمارے مذہبی حلقوں نے کیا بھونچال کھڑا کرنا تھا؟ تب کس کس بات پر پابندی کا مطالبہ کیا جانا تھا؟ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ بڑھتی ہوئی عریانی و فحاشی ایسے جرائم کا سبب بنتی ہے مگر عمران علی تو کچھ اور ہی تھا، وہ تو مذہبی تہذیب کا دلدادہ نظر نہیں آتا، میں نے اس کی ویڈیو دیکھی ہے جس میں وہ لہک لہک کر مذہبی تقریر کر رہا ہے اور لوگ اس کی باتوں پر سر دھن رہے ہیں اور نعرے لگا رہے ہیں۔ یہ سب کیا ہے؟ اس کا جواب کچھ یوں دیا جائے گا کہ عمران علی جیسے درندوں نے مذہب کا صرف لبادہ اوڑھا ہوتا ہے، ان کا دین کی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، یہ معاشرے کے ناسور ہیں جو اپنی مکروہ حرکتوں کو مذہب کے پردے میں چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بجا ارشاد۔ میں بھی یہی سمجھتا ہوں، یہ انفرادی فعل ہوتا ہے اس کا کسی شخص کے مذہبی یا غیرمذہبی پس منظر سے کوئی تعلق نہیں، گرجا گھر کے پادری بھی یہ جرم کرتے ہیں اور الٹرا لبرل امریکی ڈاکٹر بھی۔
آخری سوال۔ زینب کا قاتل پکڑا گیا، اس خبیث کے ہاتھوں قتل ہونے والی بچیاں تو اب واپس نہیں آ سکتیں مگر کیا ہماری عقلوں پر پڑا ہوا پردہ بھی نہیں ہٹ سکتا؟ ہم جھوٹ کیوں بولتے ہیں؟ کیوں بغیر تصدیق کئے الزامات لگاتے ہیں اور پھر ان کو پھیلانے اور دہرانے میں لذت محسوس کرتے ہیں؟ کیوں ہمیں ہر بات میں سازش نظر آتی ہے؟ دراصل ہم سب وہ منافق عوام ہیں جو اپنی ناکامیوں کا جواز تلاش کرتے ہیں اور کسی کے اچھے کام کی تعریف کرنے میں ہمیں جلن محسوس ہوتی ہے، ہم کیسے مان لیں کہ کوئی نیک نیتی سے بھی کام کر سکتا ہے؟ لہٰذا ہر اچھے کام کو سبوتاژ کرو اور ایسا جھوٹ پھیلاؤ کہ ہر شے دھندلا جائے، لوگوں میں سچ جھوٹ کی تمیز کرنا ممکن نہ رہے اور صاحب کردار اور بدکردار کا فرق مٹ جائے۔ یہ پنجاب حکومت کا ہی کام تھا جس نے پاکستان کی واحد فرانزک لیب بنائی جس کی مدد سے زینب کا قاتل پکڑا گیا مگر یہ کریڈٹ ہم کیوں دیں، ہمارا کام صرف تنقید کرنا ہے اور اگر تنقید سے بھی کام نہ چلے تو ہمارا کام جھوٹ پھیلانا ہے چاہے اس جھوٹ سے تفتیش کا رُخ غلط سمت میں ہی کیوں نہ مڑ جائے، پولیس، انتظامیہ، میڈیا اور عدالتوں کا وقت ہی کیوں نہ ضائع ہو اور نتیجتاً زینب جیسی بچیوں کے قاتل کو فائدہ ہی کیوں نہ پہنچ جائے۔ وہ تمام لوگ جنہوں نے بغیر تصدیق کئے سوشل میڈیا پر اس قتل سے متعلق غلط معلومات پھیلائیں، معاملے میں ابہام پیدا کیا اور سازشی تھیوریاں تراشیں، سب زینب کے مجرم ہیں مگر سب عوام کے جتھے میں شامل ہو کر شہیدوں میں اپنا نام لکھوانا چاہتے ہیں۔ منافق کہیں کے۔

تازہ ترین