• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمی فلاحی ادارے آکسفیم کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس ایک فیصد اُمرا نے 83 فیصد دولت کمائی۔ نتیجتاً دُنیا کی آدھی غریب آبادی (3.7 ارب لوگ) کے ذرائع آمدن میں کوئی اضافہ ہوتا نظر نہ آیا۔ صرف 8 افراد کے پاس اللہ کے فضل سے اتنی دولت ہے جتنی کہ تین ارب اور ستر کروڑ لوگوں کی کل جمع پونجی ہے۔ سرمائے کی لوٹ مار کے اس عالمی نظام میں ہر دوسرے روز ایک ارب پتی کا اضافہ ہو رہا ہے، جبکہ غربت میں کمی کے جو دعوے پائیدار ترقی کے اہداف کے ناطے کیے جا رہے ہیں، اُن کا 2030 تک حصول ممکن ہوتا نظر نہیں آتا۔ گزشتہ 20 برس میں 500 امیروں کے کھاتے 2.1 کھرب ڈالرز تک پہنچ گئے جو ایک ارب 30 کروڑ لوگوں (بھارت کی آبادی کے برابر) کے کل ترکے سے زیادہ ہے۔ دس فیصد غریبوں کی آمدنی میں اگر فی کس تین ڈالرز کا اضافہ ہوا (1988-2011) تو ایک فیصد کی آمدنی 182 گنا بڑھی۔ امریکی معیشت دان تھامس پیکیٹی کے مطابق گزشتہ 30 برس میں دُنیا کی آدھی آبادی کی آمدنی میں کوئی اضافہ نہیں ہوا، جبکہ ایک فیصد کی آمدنی میں 300 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اس عدم تفاوت میں مردوں کے مقابلے میں عورتوں کی حالت کہیں زیادہ خراب ہے اور جس رفتار سے عورتوں کی مفلوک الحالی میں کمی لانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، ان کے بار آور ہونے اور مرد و عورت کے درمیان آمدنی و مواقع میں بڑے فرق کو کم کرنے میں 217 برس لگیں گے۔ اور اگر دُنیا کے امیروں پر 1.5 فیصد ٹیکس عائد کر دیا جائے تو تمام بچےا سکول جا سکتے ہیں۔ اسی طرح اُن کی دولت کا (جو کہ حقیقتاً اُن کی نہیں محنت کشوں اور غریبوں کے استحصال اور طرح طرح کی چھوٹوں اور دھوکہ بازیوں کی پرتو ہے) ایک معمولی حصہ غریبی کے خاتمے پر خرچ کر دیا جائے تو دُنیا میں ناداری و غربت ختم ہو جائیں۔ لیکن ہائے! اس کا کیا کہیے کہ سرمایہ دارانہ ارتکازِ دولت تو قائم ہی اسی شرط پہ ہے کہ آبادی کی اکثریت اس سے محروم رکھی جائے۔ اب آپ سرمایہ دارانہ نظام کے لئے کیسے ہی جواز گھڑیں، اس پر تہذیبی ملمع چڑھائیں اور غریبوں کے لئے کیسے ہی نمائشی فلاحی منصوبے پیش کیا کریں۔ طبقاتی خلیج اور دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم نے تو بڑھنا ہی ہے اور جتنا اس طبقاتی تفریق نے بڑھتے رہنا ہے، اُتنا ہی اس سرمایہ دارانہ نظام نے متزلزل ہوتے رہنا ہے۔ یہ بات استاد مارکس نے بہت پہلے کہی تھی جو آج بھی ویسے ہی سچ ہے جیسے انیسویں صدی میں تھی۔
سوویت یونین کے افسر شاہانہ سوشلزم کا انہدام کیا ہوا جیسے سرمایہ کی دُنیا کے سر سے بڑی آفت ٹل گئی۔ اور آزاد منڈی کے چلن نے ایک مذہب کی صورت لے لی۔ لیکن آزاد منڈی کے آزاد خیال نیولبرل نظریے کو کہاں عافیت نصیب ہونا تھی۔ عالمی منڈی صبح شام ہچکولے کھاتی رہی اور تمام اصلاحی نسخے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔ یہ جو خیال تھا کہ پہلے ارتکازِ دولت ہو تو پھر اس کے ٹپکوں سے غریبوں کے پیٹ کا جہنم ٹھنڈا پڑ جائے گا، کہیں دیکھنے کو نہ ملا۔ ریاست کی مداخلت کے خلاف آزاد معیشت کے جو جھنڈے بلند کیے گئے تھے وہ ہم دیکھ چکے۔ کس طرح سرمایہ دارانہ کارپوریشنوں کو تباہی سے بچانے کے لئے ریاست کی اعانت حاصل کرنے کی ضرورت کے سامنے سرنگوں ہو گئے۔ عالمی سرمایہ کی چیرہ دستیوں کے خلاف ہم نے ورلڈ اکنامک فورم اور سات بڑے سرمایہ دار ملکوں کی چوٹی کی کانفرنسوں کے خلاف سوشل فورم کے ارد گرد طرح طرح کے ناقدین اور سماج وادی نوجوانوں کو صدائے احتجاج بلند کرتے دیکھا اور خود امریکہ میں وال اسٹریٹ مردہ باد کی تحریک نے ایک نئی انقلابی لہر پیدا کی۔ عالمی سرمائے اور اجارہ دار کارپوریشنز کے خلاف اُبھرتی عوامی لہروں نے ایک ایسا سماجی دباؤ پیدا کیا کہ یورپ اور امریکہ میں نہایت بدبودار، متعصب قوم پرستانہ ردّعمل سامنے آیا جس کا اظہار کئی فسطائی جماعتوں اور فسطائی لیڈروں کی صورت ہوا۔ اُس کی بڑی مثال صدر ٹرمپ کی کامیابی کی صورت میں نظر آئی۔ گو کہ یہ خطرہ یورپ میں آتے آتے ٹل گیا ہے۔ لوگوں کی محرومیوں اور خاص کر متوسط طبقوں کی بے چینیوں کے غصے کو فسطائی جماعتوں اور لیڈروں نے خوب کیش کیا اور چھوٹے بڑے فسطائی لیڈر عوام کی توجہ اُن کی اصلی طبقاتی جدوجہد سے ہٹاتے نظر آئے۔
پاکستان میں بھی غریبوں، محنت کشوں، کسانوں اور متوسط طبقوں کی کیا حالت بدلنی تھی، اُلٹا یہ ہوا کہ خطِ ناداری ہی کو 2013 میں ایک ڈالر فی کس سے کم کر کے تین ہزار اور تیس روپے تک کم کر دیا گیا۔ ہمارے عوام دوست معیشت دان ڈاکٹر طاہر پرویز کے مطابق صارفین کے کھاتے (CDI) کو اس طرح بدل دیا گیا کہ ہر ایک کی کھپت ہر ایک کی آمدنی کے مطابق ہے (واہ؟) اس کی کم ترین آمدنی کے گروپ کو 8000 روپے سال (2007-08) کی بنیاد پر رکھا گیا۔ لہٰذا اس مالی سال میں کم از کم اُجرت کو 15,000 روپے رکھا گیا ہے۔ لیکن کیا یہ زندہ رہنے کی اُجرت (Wage for Living) ہے؟ ویسے بھی یہ کہیں کہیں ادا ہوتی نظر آتی ہے۔ اُجرتی مزدوری اپنی ہر صورت میں اُتنی بھی نہیں جتنی کہ اُجرتی مزدور کو کام پر لانے کے قابل رکھنے کے لئے ضروری ہے۔ یہ اجرت (Wage) کیا ہے؟ جبکہ مزدوروں کی انجمنیں مزدور کی ماہوار اُجرت کا تعین ایک تولہ سونے کی قیمت کے مساوی رکھنے کا مطالبہ کرتی ہیں۔مزدور کی محنت کے نتیجے میں جو زائد قدر پیدا ہوتی ہے، اُس میں حصہ جو اُسے ملتا ہے وہ اُس کل محنت کا معمولی حصہ ہوتا ہے اور جو نہیں ملتا ہے وہ سرمایہ دار کا بلامحنت حصہ یا نفع کہلاتا ہے۔ یہی وہ استحصالی بنیاد ہے جس پر یہ سرمایہ دارانہ نظام کھڑا ہے اور اس کے تمام وکیل، جن میں تعلیمی نظام، قانونی نظام اور تمام تر ریاستی نظام قائم ہے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ محنت کشوں اور پیشہ وروں کی ٹریڈ یونینز ختم کر دی گئی ہیں، جو بچی ہیں وہ پاکٹ یونین ہیں یا پھر ٹھیکیداری نظام کا حصہ۔ اور جو ہماری بڑی سیاسی جماعتیں ہیں خواہ وہ اسلام کے نام پر کام کرتی ہیں یا پھر قدامت پسند، یا روشن خیال اور یا پھر جو اسٹیٹس کو کو بدلنے کا لبادہ اوڑھتی ہیں، وہ سب کی سب سرمایہ دارانہ نظام، اُمرا، جاگیرداروں اور کاروباری لوگوں کی جماعتیں ہیں۔ جب عوام دو بڑی جماعتوں قدامت پسند مسلم لیگ نواز یا پھر عوامیت پسند پیپلز پارٹی سے مایوسی کا اظہار کرتے ہیں تو پھر امریکہ اور یورپ کی طرح یہاں بھی عوامیت کے نعروں کے ساتھ فسطائی جماعتیں سامنے آتی ہیں۔ لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے نعرے نہ صرف عمران خان لگاتے ہیں بلکہ چھوٹے میاں صاحب بھی اُن سے پیچھے نہیں رہتے۔ کوئی بھی پارٹی اور کوئی بھی لیڈر 99 فیصد لوگوں کی شراکتی اور پائیدار معیشت اور ترقی کے عوامی ماڈل کو اختیار کرنے کو تیار نہیں۔ بلاول بھٹو جس سوشل ڈیموکریسی کی بات کرتے ہیں، اسےاُن کی پارٹی پہ حاوی جاگیردار اور لٹیرے کیوں چلنے دیں گے؟ ضرورت ہے ایک بائیں بازو کے متبادل کی جو محنت کش عوام اور متوسط طبقوں کے لئے ایک اکیسویں صدی کا جمہوری و عوامی اور سماج وادی پروگرام دے۔ لیکن یہ ہمارے لیفٹ والے جانے کہاں بیسویں صدی کی بحثوں میں غلطاں ہیں۔ بس مارکس کی طبقاتی سیاست کی جانب واپسی کی ضرورت ہے۔ اور زیادہ نہ سہی، کم از کم پروگرام ہی سہی۔ پاکستان کے محنت کش عوام کو کہیں سے تو اُن کی دلی آواز بلند ہوتی ہوئی سنائی دے اور وہ خود اپنی آواز بنیں کہ کوئی اُن کی نجات کو نہ آئے گا۔ یہ معاملہ اب طے ہو جائے کہ ایک فیصد کے گلچھرے یا پھر 99 فیصد طبقے کی معیشت!!

تازہ ترین