• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قصور شہر کی معصوم بچی زینب کے ساتھ ہونے والے ہولناک واقعہ کے بعد پاکستانیوں کی توجہ ان جرائم کی طرف مبذول ہوئی ہے، جن کا شکار معصوم بچے ہوتے ہیں۔ یہ جرائم عالمی سطح پر بہت پہلے سے اور منظم انداز میں ہو رہے ہیں لیکن ہم نے ان پر اس طرح توجہ نہیں دی، جس طرح دینی چاہئے تھی۔ انٹرنیٹ پر عریاں اورغیر اخلاقی مواد کی فروخت اربوں ڈالرز کے کاروبار کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ اسے ’’سائبر سیکس‘‘ انڈسٹری کا نام دیا جاتا ہے۔ اس انڈسٹری سے وابستہ مافیاز دنیا بھر میں سرگرم ہیں۔ بچوں پر جنسی اور جسمانی تشدد کا ایک سبب یہ ویب سائٹس ہیں، جن کی ڈیمانڈ ہوتی ہے کہ انہیں ایسی ویڈیوز ارسال کی جائیں ۔
زینب کا کیس چونکہ عدالت میں زیر سماعت ہے ۔ لہذا اس پر کوئی بات کرنا مناسب نہیں لیکن مذکورہ انڈسٹری کے حوالے سے کچھ حیرت انگیز اعداد و شمار سامنے آئے ہیں ۔ صرف ایک غیراخلاقی ویب سائٹ کے 2016 ء میں 23 ارب وزٹ (Visits) ہوئے ۔ ہر ایک سیکنڈ میں 729 یا ایک دن میں 6 کروڑ 40 لاکھ افراد نے اس ویب سائٹ کا وزٹ کیا ۔ یعنی ایک دن میں برطانیہ کی مجموعی آبادی کے برابر لوگوں نے ویب سائٹ کھولی ۔ 2016 ء میں اسی ویب سائٹ کو اتنا دیکھا گیا کہ 19 کروڑ 40 لاکھ یو ایس پی اسٹکس بھر جائیں ۔ اگر ان یو ایس بی اسٹکس کو ملا کر رکھیں تو یہ چاند کے پورے کرہ کو لپیٹ لیں ۔ گزشتہ سال اسی ویب سائٹ پر 91 ارب 28 کروڑ 2لاکھ 25ہزار ویڈیوز دیکھی گئیں ۔ اگر ان ویڈیوز کو کرہ ارض کی کل آبادی میں تقسیم کیا جائے تو فی فرد 12.5 ویڈیوز آئیں گی ۔ اسی ایک سال میں ویب سائٹ پر 4ارب 59 کروڑ 90 لاکھ گھنٹے غیر اخلاقی ویڈیوز دیکھی گئیں ۔ یہ مدت 5246صدیوں کے برابر ہے ۔ مذکورہ ویب سائٹ مئی 2007 ء میں شروع کی گئی تھی اور آج دنیا کی سب سے بڑی ویب سائٹ ہے ۔
اربوں ڈالرز کی اس مذموم انڈسٹری میں کیا ہوتا ہے ؟ صرف فلپائن کے حوالے سے ایک چشم کشا رپورٹ سامنے آئی ہے ۔ فلپائن کے دارالحکومت منیلا سے 500 کلو میٹر جنوب میں ’’ ایبا باؤ ‘‘ ( IBABAO ) نامی ایک قصبہ ہے ، جہاں کا ہر باسی ایک دوسرے کو جانتا ہے اور وہاں خاندانی رشتے بہت مضبوط ہیں لیکن وہاں جو کچھ ہو رہا ہے ، وہ انتہائی بھیانک ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ وہاں بچوں کو پڑوسیوں یا اپنے والدین کی جانب سے ویب کیمروں کے سامنے بد فعلی کا مظاہرہ کرنے کے لئے مجبور کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں بچوں سے غلط رغبت رکھنے والے افراد (Pedophiles) کی جانب سے ان ویڈیوز کا آرڈر دیا جاتا ہے اور یہ ویڈیوز انٹرنیٹ پر لائیو چلتی ہیں ۔ یہ گھنائونا کاروبار اس قدر منافع بخش بن گیا ہے کہ قصبہ کے کچھ لوگوں نے ماہی گیری اور فیکٹریوں میں کام کو چھوڑ دیا ہے ۔ جنوبی ایشیامیں یہ انڈسٹری تیزی سے پھیل رہی ہے ۔ فلپائن کے علاوہ کمبوڈیا ، انڈونیشیا اور دیگر ممالک بھی اس کی لپیٹ میں آ گئے ہیں ۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے اعداد وشمار کے مطابق فلپائن میں ہزاروں بچوں کو انٹرنیٹ کیفے یا ان کے گھروں میں زبر دستی مجبور کیا جاتا ہے ۔ کچھ خاندانوں نے صرف لیپ ٹاپ خرید کر یہ گھنائونا کاروبار شروع کر دیا ہے ۔ انہیں ایک شو کے لئے 10 سے 100 ڈالرز ملتے ہیں ۔ یہ اس ملک میں بہت بڑی رقم ہے ۔ جہاں کی 80 فیصد آبادی کی فی کس اوسط آمدنی 2 ڈالرز سے بھی کم ہے ۔ غربت کی وجہ سے یہ کاروبار فلپائن سمیت دیگر ملکوں میں بھی پھیل رہا ہے ۔ بچوں کی غیر اخلاقی ویڈیوز کی ڈیمانڈ دنیا بھر میں بہت زیادہ ہے ۔ ساڑھے سات لاکھ ہیڈو فائلز 24 گھنٹے ایسی ویڈیوز کی تلاش میں رہتے ہیں اور کچھ لوگ لائیو ویڈیوز کی ڈیمانڈ کرتے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کی اسٹڈی کے مطابق ویب کیمروں کے سامنے جنسی تشدد کا شکار اور جبراً بد فعلی کا مظاہرہ کرنے والے بچے شدید ذہنی اذیت کا شکار ہوتے ہیں اور کچھ بچے تو زندگی بھر نفسیاتی مسائل سے نجات حاصل نہیں کر سکتے ۔ جہاں بچوں کے والدین اس کام کے لئے راضی نہیں ہوتے، وہاں بچوں کو اغوا کرکے یہ کام کرایا جاتا ہے اور پھر قانون کی گرفت سے بچنے کے لئے انہیں مار دیا جاتا ہے۔ مذکورہ انڈسٹری کے کئی اور بھیانک پہلو ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے بچوں کو ایسی تعلیم دیں، جس سے وہ اپنا تحفظ کر سکیں۔ اس تعلیم کو کوئی بھی نام دیا جائے اور اس کے لئے کوئی بھی طریقہ اختیار کیا جائے۔ انہیں اس گورکھ دھندے کا شکار ہونے سے بچانا ہے ۔ ہمیں اس تعلیم میں مذہبی اور سماجی اقدار کو بھی ملحوظ رکھنا ہے لیکن یہ بات نہیں بھولنی کہ اس انڈسٹری کا نیٹ ورک دنیا بھر میں وسیع ہو رہا ہے۔ اگر کوئی نیٹ ورک نہ بھی ہو تو لوگ نفسیاتی اور ہیجانی امراض کا شکار ہو رہے ہیں ۔ غیر اخلاقی ویب سائٹس بڑا مسئلہ ہے۔

تازہ ترین