• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ اسمبلی میں تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر خرم شیر زمان نے کہا ہے کہ کراچی میں 70ہزار آوارہ کتے ہیں اور سندھ کے وزیر صحت ڈاکٹر سکندر نے تسلیم کیا ہے کہ کراچی میں آوارہ کتے بہت زیادہ ہیںاور جناح اسپتال کراچی کے سوا کسی سرکاری اسپتال میں کتے کاٹے کی ویکسین نہیں۔ وزیر صحت نے ایوان کو یہ بھی بتایا کہ سندھ میں سانپ اور کتے کے زہر کی تشخیص کے لئے کوئی لیبارٹری نہیں البتہ ضلع شہید بے نظیر آباد میں اینٹی اسنیک وینوم اور اینٹی ریبیز سرالوجی لیب موجود ہے جہاں پر سانپ کاٹے کے علاج کے لئے ویکسین تیار کی جاتی ہے۔‘‘
صوبہ سندھ میں اور خصوصاً کراچی اور تھر میں صحت کی سہولتوں کا بہت برا حال ہے۔ پورے کراچی میں سگ گزیدگی کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں ۔ روزانہ 100سے زائد لوگوں کو آوارہ کتے کاٹ لیتے ہیں۔ 2017ء میں کراچی کے جنا ح اسپتال میں 7500افراد کو آوارہ کتوں کے کاٹنے کے کیس درج ہوئے۔ویسے اب اس ملک میں جنسی حیوان بھی آوارہ کتوں سےکم نہیں۔
سندھ اسمبلی میں پی پی پی کی رکن سائرہ شاہبانی نے کہا کہ بچیوں سے زیادتی کے واقعات بہت بڑھ چکے ہیں ۔ ہم حکمرانوں سے اپیلیں کرکرکے تھک گئے ہیں۔ اب درندوں سے اپیل کرتے ہیں کہ خدارا وہی باز آ جائیں۔ آتے ہیں ہم آج کےمو ضوع کی طرف۔ گزشتہ برس کراچی میں 36افراد کتے کے کاٹنے سے زندگی کی بازی ہار گئے۔ پورے ملک میں ہرسال پانچ ہزار افراد کتے کے کاٹنے سے مر جاتے ہیںجبکہ ہزاروں افراد کو آوارہ اور پاگل کتے کاٹ لیتے ہیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ہمارے ملک میں آج بھی سینکڑوں لوگ کتے اور سانپ کے کاٹنے سے مر جاتے ہیں اور پورے ملک میں سانپ کےکاٹے کے لئے ویکسین صرف ایک جگہ تیار ہوتی ہے۔
سندھ کے لیڈران صوبہ پنجاب میں آ کر ایسے ڈینگیں مارتے ہیں جیسے انہوں نےصوبہ سندھ کو پیرس بنا دیا ہے سوچیں جس شہر میں 70ہزار آوارہ کتے پھر رہے ہوں وہاں انسان کیسے محفوظ رہ سکتا ہے۔ ویسے تو اب پورے ملک کے ہر علاقے میں آوارہ کتوں سے زیادہ خطرناک انسانی بھیڑیئے پھر رہے ہیں جو معصوم بچوں اور بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیتے ہیں۔ اس ملک میں روزانہ پتہ نہیں کتنی بچیوں کے ساتھ یہ انسانی بھیڑیئے زیادتی کرتے ہیں اور بے شمار والدین صرف اپنی عزت کے خوف سے رپورٹ درج نہیں کراتے۔ ویسے پولیس بھی کونسا تحفظ فراہم کرتی ہے۔پولیس کے اندر بھی کئی درندے بیٹھے ہیں۔ امریکہ میں جمناسٹک کی کھلاڑی سو بچیوں کے ساتھ زیادتی کرنے والے انسٹرکٹر LARRY NASSAYکوگزشتہ ہفتے 175 برس قید کی سزا دی گئی ہے ۔ کیا زینب کے قاتل کو سزائے موت ملے گی؟ یا اس کو کسی پراسرار پولیس مقابلے میں مار دیا جائے گا تاکہ اصل مجرموں تک کوئی نہ پہنچ سکے۔ یہ بڑا پیچیدہ کیس ہے شہباز شریف کو اس کیس کی تہہ تک پہنچنا چاہیے۔
چلیں بات آگے بڑھاتے ہیں۔ کراچی کے جناح اسپتال میں روزانہ 50سے 100کے قریب سگ گزیدگی کے مریض لائے جاتے ہیں آج کراچی کی کوئی گلی، بازار، محلہ اور آبادی ایسی نہیں جہاں پر آوارہ کتوں کی بہتات نہیں، جو شہریوں کو کاٹتے رہتے ہیں۔
جناح اسپتال کی سربراہ ڈاکٹر سیمیں جمالی کا کہنا ہے کہ جناح اسپتال کراچی واحد اسپتال ہے جہاںپر ٹیشو ویکسین کلچر متعارف کرایا گیا ہے تاکہ آوارہ کتوں کے کاٹنے کا علاج یقینی بنایا جاسکے۔ اور پھر جناح اسپتال میںمعمولی کتے کے کاٹنے کے معمولی زخمی مریض نہیں لائے جاتے بلکہ انتہائی سیریس اور کیٹگری 2اور 3 کے خطرناک کیس لائے جاتے ہیں۔
پنجاب کتا کاٹنے کے واقعات کے حوالے سے بہتر ہے یہاں پر کراچی والی خوفناک صورت حال نہیں ۔ ایک حلقہ کا یہ کہنا ہے کہ آوارہ کتوں کو مارنے کی بجائے نیوٹرالائز کیا جائے۔ ویسے تو ان ظالم لوگوں نے کتوں تک کا گوشت کھلا دیا ہے۔کبھی کارپوریشن والے کتا مار مہم شروع کیا کرتے تھے، اب وہ بھی نہیں ہوتی اور انسان کو یہ کتا کاٹ لےتو اس کی موت بڑی اذیت ناک ہوتی ہے۔
دوسری جانب سول اسپتال کراچی کے ایم ایس ڈاکٹر توفیق کا کہنا ہے کہ سول اسپتال میں روزانہ 50 سے 60 سگ گزیدگی کے کیس رپورٹ ہوتے ہیں۔ ذرا دیر کو سوچیں یہ حال تو کراچی کے دوبڑے اسپتالوں کا ہے ۔ پورے سندھ کے دور دراز علاقوں میں جہاں پر آوارہ کتوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ وہاں پر حالات کیا ہوںگے؟کراچی میں انفلوئنزا بھی زور پکڑ چکا ہے۔ ابھی تک محکمہ صحت نے وائرس کی تشخیص کے لئے ویکسین اور کٹس مہیا کی ہیں اور نہ ہی کسی سرکاری اسپتال میں آئسولیشن وارڈ قائم کیا گیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سندھ حکومت جو شعبہ صحت کی بہتری کے لئے اربوں روپے خرچ کرنے کے دعوے کرتی ہے وہ اربوں روپے آخر کہاں ہیں؟ ہم نے خود کراچی کے کئی سرکاری اسپتالوں میں جا کر دیکھا ہے کہ حالات بہت ابتر ہیں۔ اسی طرح کراچی میں میڈیکو لیگل کی صورت حال بھی بڑی خراب ہے۔ عملے کی کمی کی وجہ سے عملہ بارہ بارہ گھنٹے ڈیوٹی دے رہا ہے۔ اس طرح سندھ چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی کے پاس نہ تو اپنی عمارت ہے نہ عملہ اور نہ ہی فنڈز ۔ان حالات میں یہ اتھارٹی بچوں کو کیا تحفظ فراہم کرے گی جو خود عدم تحفظ کا شکار ہے۔
لیں جی دس ماہ بعد پنجاب یونیورسٹی پھر ایک مرتبہ میدان جنگ بن گئی۔ دس ماہ قبل بھی یہی دونوں تنظیمیں آپس میں دست وگریبان ہوئی تھیں اور اب پھر یہی صورتحال پیدا ہوئی ہے۔ ایک مادر علمی میں اس قسم کا واقعہ انتہائی افسوس ناک ہے اور حکومت کو چاہیے کہ اس واقعے میں ملوث لوگوں کو سزا دی جائے اور انہیں یونیورسٹی سے خارج کیا جائے۔
پنجاب یونیورسٹی میں ان واقعات میں وہ طالب علم ملوث ہوتے جا رہے ہیں جنہیں یہاں پر کوئی تعلیمی خرچ نہیں دینا پڑتا۔ اگر کسی طالب علم کی جیب سے فیسیں، کتابیں اور ہاسٹل کے اخراجات جائیں تو یقین کریں وہ کوشش کرے گا کہ جلد از جلد اپنی تعلیم مکمل کرے اور اپنے پائوں پر کھڑا ہو۔ جو طالب علم دوسرے صوبوں سے مفت تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں ان کو چاہیے کہ وہ پنجاب یونیورسٹی کو اپنا گھر سمجھیں تاکہ مستقبل میں مزید طالب علم یہاں تعلیم حاصل کرسکیں۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ایک سال سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے کہ پنجاب یونیورسٹی میں کوئی مستقل وائس چانسلر نہیں۔ اسی طرح کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی میں پچھلے ایک سال سے کوئی مستقل وائس چانسلر نہیں۔ حکومت نے سعودی عرب میں مقیم اپنے ایک خاص شخص کو وی سی لگانے کے احکامات تو جاری کئے ہیں مگر وہ پچھلے دو ماہ سے یہاں پر آنے کو تیار نہیںاور ہر مرتبہ جوائن کرنے کی تاریخ کوبڑھانےکی درخواست دے دیتے ہیں حالانکہ اگر حکومت تمام تعلیمی اداروں میں صرف اور صرف میرٹ پر وائس چانسلرز اور پرنسپلز تعینات کر دے تو یقین کریں اساتذہ اور طلباء دونوں میں بے چینی ختم ہو جائے گی۔ حکومت ایک مرتبہ میرٹ پالیسی کو سختی کے ساتھ نافذ کردے پھر کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوگا، پھر کسی گروپ کی اجارہ داری اور دبائو نہیں ہوگا۔ پنجاب یونیورسٹی میں پچھلے کئی ماہ سے عدم برداشت کی فضا بڑھتی جا رہی ہے جو کسی بہت بڑے واقعے کا باعث بن سکتی ہے۔

تازہ ترین