• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چشم ِ غور اورادراکِ باطن سے اگر دیکھ لیں تو افسوس ہوتاہے کہ پاکستان دنیا کا ایک ایسا ملک بن کر رہ گیا ہے جس میں انسانی خون سب سے ارزاں ہے ۔یہاں قاتل کا دستِ سفاک جس طرح آزاد ہے دنیا کے کسی غیر مہذب یا پسماندہ ملک میں بھی شاید ہی اس طرح کی کوئی مثال ملتی ہو۔ وطن عزیز میں پرویز مشرف کےدور سے لے کر موجودہ جمہوری دور تک عوام پر عرصہ حیات مسلسل تنگ ہوتا جا رہا ہے اورظلم عظیم یہ ہے کہ نائن الیون کے بعد سے اب تک بم دھماکوں، ٹارگٹ کلنگ، جعلی پولیس مقابلوں اور ہلاکتوں کے دیگر لرزہ خیز واقعات میں ہزاروں بے قصور انسانوں کے خون سے رنگین ہاتھوں کو کاٹنا تو درکنار کسی کو مجرم تک نہیں ٹھہرایا جا سکا ہے۔تاریخ کا فیصلہ یہ ہے کہ جس ملک میں قاتل سلیمانی ٹوپی پہن لیتے ہیں اور رہنما رہزن بن جاتے ہیں۔ پھر وہاں قاتل کے ہاتھ پر ابنِ آدم کا لہو تلاش بسیار کے بعد بھی نہیں مل پاتا اور بے بس رعایا یہ کہتی رہ جاتی ہے۔
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
آج کا نوحہ یہ ہے کہ جن کو رعایا کے تحفظ کی ذمہ داری تفویض ہے رعایا اُن سے امان کیلئےمدد کی طالب ہے ۔دوسری طرف اختیارمند، اختیارات کی جنگ میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔ پھرایسے عالم میں جب حاکم نے مصلحت کی چادر اُوڑھ لی ہو اور وہ مدعی بننے سے انکاری ہو تو پھرمقتول کی ایف آئی آر کون کاٹے گا۔
نہ مدعی نہ شہادت، حساب پاک ہوا
یہ خون خاکِ نشیناں تھا، رزقِ خاک ہوا
یہ درست ہے کہ پورے ملک کے شہری گونا گوں مسائل سے دوچار ہیں، لیکن اس ارضِ پاک پر شاید پختون مظلوم ترین ہیں۔جن مصائب نے آج پختونوں کے ہاں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کی مرضی سے یہ پڑائو نہیں ڈالا گیا لیکن ان کی رضا کے بغیرشاید یہ ممکن بھی نہ تھا۔ ہاں ایک مختصر اقلیت کو طاقتور بنا کر اکثریت کو مجبور ضرور رکھا گیا تھا۔ غیروں کے مظالم کا رونا، رونا تو یوںکارِزیاں ہے کہ وہ تو ہیں ہی غیر، البتہ اپنوں سے پختون عوام کے شکوے بجا و حل طلب ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نائن الیون کے بعد طالبان کے نام پر نہ صرف صوبہ پختونخوا و قبائل بلکہ ملک کے دیگر علاقوں میں بھی ان سے نامناسب سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ گائوں سے سندھ آتے ہوئے جگہ جگہ تلاشی کے نام پر انہیںہراساں کیا جاتا ہے۔اندرون صوبہ پختونخوا ایک مقام سے دوسرے مقام تک سفر کے دوران مختلف ’’ ناکوں‘‘ پرخواتین، بچوں، ضعیف العمر افراد یہاں تک کہ مریضوں کو تکلیف دہ صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ دہشت گردوں کی نقل و حمل روکنے کیلئے سیکورٹی اہلکاروں سے ہرقسم کا تعاون اپنا ملی فریضہ سمجھتے ہیں۔ لیکن عام شہریوں اورتخریب کاروں میں امتیاز کو ملحوظ خاطر رکھا جانا چاہئے۔ پختونخوا سے کراچی آنے والے سرزمین پنجاب کو اپنے لئے امن کا راہ گزر سمجھتے ہیں کہ پنجاب کے پورے علاقے میں وہ سکون سے سفر کرتے ہیں، تاہم پنجاب میں داخل ہوتے وقت وہ تلاشی کے کربناک مرحلے سے گزرتے ہیں۔ پنجاب کی حدود ختم ہوتے ہی وڈیروں کے پالے ہوئے ڈاکو ان پر جھپٹ پڑتے ہیں اور کوئی ڈرائیور ان سے بچ نکلنے کی خاطر اگر بس بھگانے کی کوشش کرتا ہے تو فائرنگ کرکے ڈرائیور و مسافروں کی جان لینے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا۔ پختون عوام کے مطابق سندھ میں ان سے امتیازی سلوک بامِ عروج پر ہے۔شہرقائد میں طالبان کے نام پر بپا شور و غوغا نے جس طرح ان کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے،اس سے آئین و قانون کی بے توقیری کا خوب اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ راہ چلتے پختونوں کو محض شک کی بنیاد پر پکڑ کر حوالہ زنداں کیاجاتا ہے۔ دوسری طرف ان کے شہری حقوق پامال کرتے ہوئے تعلیم، روزگار اوررہائش کے سلسلے میں ان پر مختلف خلاف قانون و غیر آئینی قدغنیں لگائی گئی ہیں ۔ کراچی میں پختونوں کے شناختی کارڈ اور ڈومیسائل نہیںبن رہے ۔ شناختی کارڈ کیلئے پختونوں سے 1971ء سے پہلے کی رہائش کا ریکارڈ طلب کیا جاتا ہے۔ پختون طلبا کاکہنا ہے کہ تعلیمی اداروں میں دیگرصوبوں سے تعلق رکھنے والے طلبا کو داخلوں سے محروم رکھے جانے کیلئے غیر آئینی شرائط عائد کی گئی ہیں۔
حکمران بڑے شدومد سے احساس محرومی دور کرنے کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں لیکن کیا انہیں احساس ہے کہ اس طرح کے سلوک سے کس طرح کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
سب سے مگر خوفناک سلسلہ یہ چل نکلاہے کہ طالبان کا الزام لگاکر جعلی پولیس مقابلوں میں بے قصور شہریوں کو مارا جارہاہے۔اس طرح کا ایک دلخراش واقعہ گزشتہ روز شہر قائد کے در وبام نے دیکھا، جب خوبرونوجوان نقیب اللہ محسود بیدردی سے نشانہ بنا ۔اس الزام میں ملوث رائوانوار تادم تحریر ریاست کی رٹ کا منہ چڑا رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ جن عناصر نے پختونخوا سمیت پورے ملک میں بربریت کی چنگیزی مثالیں قائم کی تھیں، اُنہیں نشانِ عبرت بنایا جائے، لیکن اُن کی آڑ میں بے قصوروں پرظلم ڈھانابھی دہشت گردی ہی قرار پائے گی۔ جو لوگ نقیب اللہ محسود کو جانتے ہیںاگر اُن کی گواہی کو ہم ایک طرف بھی رکھ دیں اور صرف منظر عام پر آنےوالی اُن کی تصاویر وویڈیوز سےبھی اندازہ لگانا چاہیںتو صاف نظر آتاہےکہ اس طرح زندگی سے پیار کرنے والااور جوانی کو سنوارنےوالازندگی بیزار عمل یعنی دہشت گردی میں ملوث نہیں ہوسکتا۔جولو گ دوسرے انسانوںکے درپےہوتےہیں،وہ سو فیصد بیمارذہنیت کے حامل ہوتے ہیں، جبکہ نقیب اللہ جیسے فعال نوجوان کی ظاہر زندگی کی پرجوش سرگرمیاںصحت مندذہن کی عکاس تھیں۔
ویڈیومیںوہ پختونوںکاروایتی رقص ’اتنڑ‘کرتے دکھائی دیتےہیں ، اس رقص کے علاوہ فنوں لطیفہ کے تمام روح افزا و حیات پرور سرگرمیاں طالبان نےبندکردی تھیں۔طالبان کے ادوار خواہ وہ وزیرستان میںہویاافغانستان میں،انسانی دلچسپی کے روایتی ،ثقافتی،تہذیبی مشاغل سے خالی تھے۔لیکن جیسے ہی افغانستان اور پاکستان سے ان کے وحشت ناک جمود کےادوار کا خاتمہ ہوا، زندگی میں حدت وچمک،حرکت وحرارت اور مستی وبیداری پیدا کرنے والے یہ ثقافتی رنگ وآہنگ لوٹ آئے۔ان میں ’ اتنڑ‘بالخصوص نمایاں ہے۔نقیب اللہ ایک ویڈیو میں’اتنڑ‘ کرتے ہوئے اپنے محسود قبیلے کی مخصوص تھاپ پر بڑے تپاک سے اپنے دراز بالوں کو جنبش دیتے ہوئےنظر آتے ہیں۔ظالموں نے ایسے معصوم کو کیسی درندگی سےمٹی کی خوراک بنا ڈالا۔اب توتحقیقات اور شواہدسے بھی سب کچھ واضح ہوچکا ہے جبکہ انکے قتل پر لاکھوں لوگوں کا احتجاج اور دکھ یہ یاددلاتا ہے کہ قاتل کسی رعایت کے مستحق نہیں۔

تازہ ترین