• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کا حکومتی نظام کافی کمزور ہوگیا ہے، ملک میں آئے دن ایسے شرمناک واقعات ہورہے ہیں جس سے عوام کے دل دہل جاتے ہیں، زینب زیادتی و قتل کیس نے ساری دنیا کو ہلا دیا، اُس کا قاتل زینب کا پڑوسی نکلا، جو کئی اور قتل و زیادتی کی وارداتیں کرتا رہا ہے، اِس سے پہلے قصور شہر سے ہی بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات رپورٹ ہوئے تھے، سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ آخرکار قصور شہر میں ہی ایسے ہی واقعات کیوں ہورہے ہیں؟ کیونکہ اس سے پہلے بچوں کے ساتھ زیادتی کے ذمہ دار گرفتار ہوگئے تھے اور پھر وہ قصہ پارینہ بن گئے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان خیبرپختونخوا پولیس کی تعریف کرتے نہیں تھکتے مگر وہاں بھی بچی کے ساتھ زیادتی ہوئی اور کوئی شخص تاحال نہیں پکڑا گیا۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان دہشتگردی کی زد میں ہیں اور پنجاب میں اضطراب پھیلانے کے واقعات ہورہے ہیں۔ مگر دیکھنے کی ضرورت یہ ہے کہ آیا پنجاب یا پورے پاکستان میں کیا کوئی منظم گروہ کام کررہا ہے جو ملک کو عدم استحکام کرنے کے منصوبہ پر عمل پیرا ہے۔ پنجاب بہت بڑا صوبہ ہے اور پاکستانی میڈیا متحرک ہے اس لئے ممکن ہے یہ واقعات پہلے بھی ہوتے ہوں مگر اس طرح رپورٹ نہ ہوتے ہوں ۔دوسرے نظامِ حکومت کمزور اور یکطرفہ نظر آتا ہے۔ اگر کوئی زیادہ مدت کے لئے حکمراں رہ جاتا ہے تو اُس کی گرفت نوکرشاہی پر ڈھیلی پڑجاتی ہے، اِس کے ساتھ ساتھ بیوروکریسی حاکمِ وقت کے عادات و اطوار اور کمزوریوں سے واقف ہوجاتی ہے، سو وہ کچھ تو حکمرانوں کو اپنے طرز پر ڈھال لیتی ہے اور کچھ اُن کی مرضی کے مطابق ڈھل جاتی ہے، اس لئے وہ مستعد رہنے کی تحریک کھو بیٹھتی ہے، دوسرے 1996ء میں پنجاب اور سندھ میں پولیس میں ڈی ایس پی کی سطح کے پولیس افسران ڈائریکٹ اور سیاسی بنیادوں پر بھرتی کئے گئے اور اب وہ بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں یا بہت موثر ہیں۔ سندھ میں کئی ایسے افسران کو جانتا ہوں کہ جو ڈائریکٹ بھرتی ہوئے اور ڈی جی نیب کے عہدے تک پہنچ کر ریٹائرڈ ہوئے اور وہ اب کینیڈا میں رہائش پذیر ہیں، پھر سیاسی مداخلت اور من پسند کے فیصلے کرانے میں یہی لوگ کارآمد ثابت ہوتے ہیں۔ بدنام زمانہ دانشور میکاولی نے اپنی کتاب ’’دی پرنس‘‘ میں لکھا ہے کہ حکمرانوں کو چاہئے کہ وہ نچلے درجے کے افسران کو اعلیٰ عہدوں پر فائز کردیں تو وہ احسان مند اور مطیع رہیں گے اور حکم ماننے سے گریز نہیں کریں گے۔ مزید برآں پولیس اور رینجرز کی تعداد اس قدر کم ہے کہ وہ کراچی کی بڑھتی ہوئی آبادی اور بڑھتے ہوئے جرائم کو روکنے کے لئے کافی نہیں ہے۔زیادہ تر پولیس اہلکار موٹر سائیکل سواروں اور ٹیکسی و رکشہ چلانے والوں سے لوٹ مار کرتے نظر آتے ہیں۔ شہر میں لوٹ مار، موبائل چھیننا، گھروں میں ڈاکےاس قدر عام ہیں کہ کوئی شہری بھی اس سے محفوظ نہیں ہے اور یہ کاروبار پولیس یا کسی بڑے آدمی کے زیرسرپرستی چل رہا ہوتا ہے۔ شہر میں شہریوں اور دکانداروں سے بھتہ لینے کا سلسلہ پھر شروع ہوگیا ہے اور کم از کم ایک دستی بم کا حملہ بھی ہوچکا ہے۔ اس پر ڈی جی رینجرز نے اپنی مجبوری کا اظہار اس طرح کیا کہ وہ گیارہ ہزار کی نفری سے ہر دکاندار کی حفاظت کے لئے رینجرز اہلکار نہیں کھڑا کرسکتے۔ بات پولیس یا رینجرز کی تعداد میں کمی کی تو ہے مگر پولیس اور رینجرز یا طرزِ حکومت کا وہ رعب و دبدبہ کام کرتا ہے جس سے ہر شہری کو یہ محسوس ہو کہ اگر وہ جرم کرے گا تو پکڑا جائے گا اور سزا دی جائے گی۔ یہ کہنا درست ہوگا کہ یہاں قانون کی حکمرانی نہیں بلکہ خواص کی حکمرانی ہے، اس کے علاوہ جب غیرقانونی طور پر لوگوں کو مارتے ہیں تو قانون توڑتے ہیں۔ میں نے یہ بات صدر فاروق لغاری سے کراچی کے اجلاس میں کہی تھی کہ قانون نافذ کرنے والے خود قانون توڑتے ہیں تو ملک ٹوٹ جاتے ہیں، اس پر صدر صاحب نے احتیاط سے کام لیتے ہوئے بیان دیا تھا کہ پولیس قانون توڑے تو ادارے ٹوٹ جاتے ہیں، بات تو وہی ہے کہ اگر ادارے ٹوٹتے ہیں تو ملک کہاں بچتا ہے۔
مزید برآں اس وقت رشوت کا بازار اس قدر گرم ہے کہ اس کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا اور انصاف نہیں ملتا اور اگر کسی کو انصاف مل بھی جاتا ہے تو وہ میڈیا، عدلیہ یا کسی اچھے افسر کی وجہ سے ملتا ہے۔ میں نے یکم مارچ 1987ء کو ’’جنگ‘‘ میں ایک مضمون بعنوان ’’وجہ انتشار اور نظریہ خاتمہ انتشار‘‘ کے حوالے سے لکھا تھا کہ ہمیں نظامِ حکومت، حکومت کے انداز، حکومت کی مشنری، حکومت دشمنی اور عوام دشمنی ورثہ میں ملی ہے۔ عوام کا استحصال آزادی ملنے کے بعد بھی کیا جارہا ہے، عوام اور حکومت دو مختلف سمتوں میں چل رہےہیں، عوام کی صفوں اور اداروں میں تہ در تہ، پرت درپرت ایک دوسرے کی مخالفت میں خودکار نظام کام کررہاہے ہیں، جن میں موقع و محل کے مطابق حالتِ جنگ میں رہنے کی صلاحیت موجود ہے، بعض اوقات ان کا طریقہ کار ناقابل فہم ہوتا ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک نظام کی بنیاد ایک فریق کی حیات اور دوسرے کی موت کے اصول پر مبنی ہے اور ہر دو فریق یعنی یہ نظام اور عوام اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
انگریز کے بنائے اس نظامِ حکومت میں پاکستان کبھی تبدیلی نہیں لاسکا، جنرل محمد ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو نے میکاولی کے اصولوں کو اپنا کر اس نظام کو اور بگاڑا اور پھر اس نظام کی خامیوں سے غیرملکیوں نے فائدہ اٹھایا اور وہ حکومتیں تبدیل کرتے گئے اور اُس نظام میں انصاف کے حوالے سے جو خوبی تھی اُس کو بھی ختم کردیا۔ بیوروکریسی کے نصاب میں ہم پاکستان کے حوالے سے تبدیلی لانا چاہتے ہیں وہ نہ لاسکے۔ حکیم احسن جو کراچی کے پہلے مسلمان میئر تھے انہوں نے مجھے بحرین جہاں وہ پاکستان کے سفیر تھے بتایا کہ قائداعظم محمد علی جناح نے بیورو کریسی کا اجلاس بلایا اور اُن پر پاکستان کی تعمیر کی ذمہ داری ڈالی وہ یہ ذمہ داری اس لئے پوری نہ کرسکے کیونکہ اُن میں وہ حوصلہ اور وہ صلاحیت موجود نہیں تھی جو ایک لیڈر میں ہوتی ہے۔ اگرچہ پھر بھی وہ ملک پر قابض ہوگئے تاہم وڈیروں، چوہدریوں اور ملکوں نے بیورو کریسی کو نکتہ چینی کا نشانہ بنایا، جس کو برداشت کرنے کی سکت ان میں موجود نہیں تھی اور کیسے ہوتی قائداعظم اُن میں جو روح پھونکنا چاہتے تھے وہ اُن میں سمانے کی گنجائش ہی نہیں تھی وہ انگریز کے نظام کا حصہ تھا اور عوام کو غلام ہی رکھنا چاہتے تھے، اگرچہ آزادی کے بعد ان کو عوام کا خادم ہونا چاہئے تھا۔ پھر فوجی مداخلت نے مزید خرابی پیدا کی تاہم اب یہ صورتِ حال تقاضا کرتی ہے کہ نظامِ حکومت عوام کی خدمت کے لئے بنایا جائے اور اس کے مطابق عامل بھی تیار کئے جائیں۔

تازہ ترین