• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ورلڈ اکنامک فورم کا 48واں سالانہ اجلاس ڈیووس میں ختم ہو گیا ہے جس میں ہماری دنیا کے ان سلگتے ہوئے مسائل پر ایسے مباحث ہوئے ہیں ، جو شاید کسی دوسرے عالمی فورم پر نہیں ہوتے ۔ ورلڈ اکنامک فورم سے اس سال امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ، بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی ، پاکستانی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ، پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور ملالہ یوسفزئی کے علاوہ کئی بلند پایہ عالمی رہنماؤں ، عالمی مالیاتی اداروں ، بینکوں ، کثیر القومی ، تجارتی اور صنعتی اداروں کے نمائندوں ، سائنس دانوں اور دانشوروں نے خطاب کیا اور شرکت کی ۔ فورم میں شریک 1500 سے زائد افراد کا شمار عالمی سیاست اور تجارت کی اشرافیہ میں ہوتا ہے اور یہ وہ لوگ ہیں ، جو اگر چاہیں تو دنیا کی تقدیر بدل سکتے ہیں ۔ فورم میں چین ، روس ، یورپی یونین کے ممالک ، جاپان سمیت دنیا کے تقریباً تمام ممالک اور علاقوں کی نمائندگی تھی ۔
اقوام متحدہ کے بعد ورلڈ اکنامک فورم کو دوسرے بڑے عالمی ادارے کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے لیکن یہ اپنے اسکوپ کے اعتبار سے اقوام متحدہ سے بڑا ادارہ ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ اقوام متحدہ کی طرح اسے بعض معاملات میں مداخلت کا اختیار نہیں ہے ۔ مئی 1971 ء میں فورم کا قیام عمل میں لایا گیا اور اس کا ہیڈ کوارٹرز جنیوا میں ہے ۔ اس ادارے کے قیام کا مقصد معیشت کے ذریعہ دنیا کی حالت کو بہتر بنانا ہے ۔ یہ ادارہ سیاست دانوں ، دنیا کی معیشت چلانے والے تاجروں ، صنعت کاروں ، اقتصادی ماہرین ، حکومتوں کے نمائندوں ، دانشوروں اور مختلف شعبوں کے ماہرین کو ایک جگہ جمع کرتا ہے اور موجودہ صورتحال پر مباحث کے ذریعہ دنیا کے مسائل کی نشاندہی کرتا ہے اور ان مسائل کے حل کیلئے کچھ تجاویز دی جاتی ہیں ۔ مباحث کے حوالے سے اس فورم کا اسکوپ بہت زیادہ ہے اور فورم کی ساکھ بہت زیادہ ہے ۔ اگرچہ یہ غیر سرکاری تنظیم ( این جی او ) کے طور پر کام کرتا ہے لیکن سوئٹزرلینڈ کی حکومت نے 2017 ء میں ’’ سوئٹزرلینڈ ہوسٹ ایکٹ ‘ ‘ منظور کرکے اسے سرکاری طور پر ایک اور عالمی ادارے کے طور پر تسلیم کیا ۔
ڈیووس فورم میں شرکاء نے یہ بات تسلیم کی کہ اس وقت دنیا کے غریب اور وسائل سے محروم طبقات ( Have Nots ) سے وہ بھی چھن رہا ہے ، جو پہلے کبھی نہیں چھینا گیا ۔ آٹو موبائل انڈسٹری کے چیف ایگزیکٹو کے مباحثے میں یہ جملہ بھی سامنے آیا کہ ’’ ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ سڑکوں اور شاہراہوں پر صرف خود کار موٹر کاریں چل رہی ہیں اور یہ کاریں جل بھی رہی ہیں ۔ ‘‘ نفسیات کے ماہرین اور نیورو سائنس دانوں کے مباحثے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ دنیا کو ذہنی امراض ( مینٹل ڈس آرڈر ) کے بم کا خطرہ ہے ۔ دنیا کس طرف جار ہی ہے ؟ مختلف شعبوں کے عالمی رہنماؤں نے اس کی نشاندہی کر دی ہے لیکن اس مشکل صورتحال سے کس طرح نمٹنا ہے ؟ اس سوال پر اتفاق ہونا ابھی باقی ہے کیونکہ دنیا کی استحصالی اور استبدادی قوتوں کے مفادات بھی ان مباحث میں زیادہ بہتر انداز میں اجاگر ہوئے ہیں ۔ عالمی رہنماؤں نے ڈیووس فورم میں اس امر کا بھی اعتراف کیا کہ ’’ گلوبلائزیشن ‘‘ کا عہد ختم ہو رہا ہے اور ہر ملک اور خطہ اپنے لئے دیواریں کھڑی کر رہا ہے ۔ دنیا پروٹیکشن ازم ‘‘ ( Protectionism ) کا شکار ہو رہی ہے ۔ گلوبلائزیشن سے فائدہ اٹھانے والی مغربی طاقتیں اگرچہ آزادانہ تجارت ( فری ٹریڈ ) کی مخالفت نہیں کر رہی ہیں لیکن وہ اس سے خوف زدہ بھی ہیں ۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ چین عالمی تجارت پر قابض ہونے جا رہا ہے ۔ ڈیووس فورم میں یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ دنیا کو چین سے خوف ہے ۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فورم سے خطاب میں کہا کہ امریکا فری ٹریڈ کیلئے اوپن ہے لیکن جب انہوںنے یہ الفاظ کہے تو فورم کے شرکاء حیرت سے خاموش رہے کیونکہ ٹرمپ نے عہدہ صدارت سنبھالتے ہوئے اسکی مخالفت کی تھی ۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ پہلے امریکا (America First)کا مطلب تنہا امریکا نہیں ۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے شمالی کوریا اور ایران کے بارے میں وہی سخت لہجہ اختیار کیا ۔ ممتاز اخبار ’’ انڈی پینڈنٹ ‘‘ نے اپنے اداریے میں لکھا کہ ڈیووس میں ٹرمپ کے خطاب کے بعد دنیا کو زیادہ مطمئن ہونے کی ضرورت نہیں ۔ امریکا اور چین کے درمیان بہت زیادہ تجارتی عدم توازن ہے اور دنیا چین کے ساتھ ’’ تجارتی جنگ ‘‘ کی طرف گامزن ہے ۔ لیکن اس تجارتی جنگ سے تجارتی عدم توازن ختم نہیں ہو گا ۔ بھارت کے انتہا پسند وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے خطاب میں یہ اعلان کیا کہ ’’ گلوبلائزیشن ‘‘ اپنی چمک کھو رہا ہے لیکن بھارت آزاد تجارت کا حامی ہے اور بیرونی سرمایہ کاری کیلئے اوپن ہے ۔ نریندر مودی نے اس امر کا بھی اعتراف کیا کہ موجودہ صورت حال کا حل تنہائی نہیں ہے مگر انہوں نے گاندھی جی کا ایک قول دہرایا کہ ’’ میں نہیں چاہتا کہ میرے گھر کی دیواریں اور کھڑکیاں ہر طرف سے بند ہوں ۔ ‘‘ مودی نے اس قول کی تشریح اس طرح کی کہ ’’ ہماری خواہش ہے کہ ہر ملک کے کلچر کی ہوا آئے لیکن ایسا بھی نہ ہو کہ اس ہوا سے میرے پاؤں اکھڑ جائیں ۔ ‘‘
درحقیقت کچھ پابندیوں کے ساتھ آزادانہ تجارت کے حوالے سے یہ بحث چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کے تناظر میں تھی ۔ گزشتہ سال ورلڈ اکنامک فورم میں چین کے وزیر اعظم نے دنیا کی اس بحث پر اپنی رائے دی تھی اور دنیا کو یہ باور کرایا تھا کہ ’’ پروٹیکشن ازم کا مقصد اپنے آپ کو تاریک کمرے میں بند کر دینا ہے ۔ بارش اور آندھی کی گرد کمرے سے باہر رہیں لیکن روشنی اور ہوا کو تو اندر آنا چاہئے ‘‘ اب دنیا کے لئے مسئلہ یہ ہے کہ روشنی اور ہوا کیسے آئے ۔ بارش اور دھول کو کیسے روکا جائے ۔ فورم سے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی خطاب کیا اور انہیں ’’ جھوٹی خبریں اور حقیقی سیاست ‘‘ کا موضوع دیا گیا ، جس پر انہوں نے بہت متوازن انداز میں اپنا مقالہ پڑھا ۔ اصل میں اس وقت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ میڈیا میں ’’ جھوٹی خبروں ‘‘ کے معاملے پر سب سے زیادہ حساس ہیں ۔
پاکستانی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے خطاب میں زیادہ گہرائی نہیں تھی اور ان کے خطاب سے یہ محسوس ہوا کہ پاکستان ان مسائل پر نہیں سوچ رہا ہے ، جس سے دنیا پریشان ہے ۔ پاکستانی وزیر اعظم نے صرف چین کے ’’ ون بیلٹ ون روڈ ‘‘ کے تصور کو سراہا اور کہا کہ نہ صرف پاکستان بلکہ خطہ میں سی پیک کے اثرات نمایاں ہو رہے ہیں ۔ انہوں نے ماحولیات کے حوالے سے بھی عالمی خدشات کو دور کیا ۔
پاکستان کو چاہئے کہ ایسے فورم پر نمائندگی کرنے والوں کی تقریروں کی بہت پہلے سے تیاری کرے ۔ پاکستان کے تاجروں ، صنعت کاروں اور دیگر اہم شخصیات کے ذریعہ سفارت کاری کا کام لے کیونکہ اس فورم میں ’’ سائیڈ لائن ‘‘ ملاقاتیں زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہیں ۔ ہمارے ہاں صرف اکرام سہگل ایک ایسی شخصیت ہیں ، جو ایسے فورم کے دانشورانہ اور عالمی معیارات کے مطابق لابنگ اور خاموش سفارت کاری کرتی ہیں ۔ اس طرح کے دانشوروں کی ٹیم بنانی چاہئے ۔ ڈیووس فورم سے دنیا کو وارننگ ملی ہے ۔ پاکستان کو اس فورم میں ہونے والی تمام تقاریر اور مقالوں اور ملاقاتوں میں دی گئی آر او کا تجزیہ کرنا چاہئے اور بدلتی ہوئی دنیا میں اپنی پالیسی بنانے کے لئے اس تجزیے سے رہنمائی حاصل کرنی چاہئے ۔

تازہ ترین