• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب سے ہوش سنبھالا خود کو مزدور پایا، بچپن میں والد صاحب بیماری کی وجہ سے بستر سے لگے تو گھر کا سارا بوجھ ناتواں کندھوں پر آپڑا، مزدور تھا تو 50روپے دہاڑی ملتی تھی لیکن پھر مہنگائی بڑھنے لگی اور50روپے کے نوٹ کی حیثیت5روپے سے بھی کم ہو گئی۔ آج میں کاریگر ہوں، ہزاروں کماتا ہوں، پوری نہیں پڑتی۔ پہلے لگتا تھا اس ملک کے حالات اور ہم غریبوں کے دن بدلنے والے ہیں، لیکن، امیر، امیر تر اور غریب، غریب تر ہوگیا ہے، بڑوں کو کیا پروا، یہاں کوئی ووٹ لے کر لوٹتا ہے تو کوئی ووٹ ہی لوٹ لیتا ہے، چھوٹے موٹے ملازم سے لے کر بڑے افسر تک، کوئی موقع ہاتھ سے جانے دیتا ہے، کچھ نہیں چھوڑتا۔ ملکی نظام پر مسلط یہ سب لوگ ہی ٹھیک نہیں ہوں گے تو پھر اللہ ہی حافظ ہے، ان الفاظ کے ساتھ اپنے اوزاروں کو تھامے صغیر احمد نے جونہی میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا، تو میں نے بھی حسب عادت سوال داغا، تم کس نظام کی بات کررہے ہو؟ اس ملک میں کوئی نظام ہے؟ جھٹ سے بولا، پتہ نہیں جی، یہاں سیاسی نظام تو کسی نے چلنے نہیں دیا، جمہور کے ووٹ لینے والے کو کبھی اقتدار دیا نہیں گیا اور جنہیں مل گیا انہوں نے کبھی جمہوریت نہیں دی، اس ملک کے حالات بھلا کیسے ٹھیک ہوں؟ میں نے پوچھا، تم نے کبھی ووٹ دیا؟ کاریگر صغیر اوزار زمین پر رکھ کر خلا میں گھور کر بولا، جی ہاں پچھلے انتخابات میں پہلی بار ووٹ ڈالا تھا وہ بھی تبدیلی کو، لیکن تبدیلی والوں نے تو سوائے نئی ’زبان‘ متعارف کرانے کے عملی طور پر کچھ کیا ہی نہیں، ایک صوبے کی حکومت بھی انہیں ملی، پانچ سال ڈٹ کر ایسا کام کرتے کہ دنیا یاد رکھتی، بس جی اب تو دل ہی ٹوٹ گیا ہے یہ سارے بادشاہ ہیں کوئی سندھ کا، کوئی پختون خوا، کوئی! میں نے کہا کہ سنا ہے بڑے میاں اور چھوٹے میاں نے بڑے کام کئے ہیں؟ چونکتے ہوئے صغیر نے ردعمل دیا، تیسری مرتبہ اقتدار پانے والوں نے بھی چن چن کر بدلے لئے ہیں ہم غریبوں سے، مہنگائی کو ہی دیکھ لیں، لیکن ایک بات ہے، آدھا جملہ بول کر چپ ہوا، تو میں نے برجستہ کہا وہ کیا؟ بولا، لوگ کہتے ہیں میاں صاحب ایسا تھا ویسا تھا، ہوں گے ہم ان کا کیا بگاڑ سکتے ہیں، یہاں تو ان سے پہلے والے صاحب پانچ سال گزار کر سب کچھ ڈکار گئے، عوام کا بھلا تو دور کی بات یہ تک نہیں بتایا کہ قومی خزانہ کہاں خرچ کیا؟ یہ دونوں بھائی کام میں تو لگے رہے ناں، میٹرو بس ہی دیکھ لیں، عام آدمی کے لئے بڑی سستی اور اچھی سہولت بنادی، بجلی12 سے 16 گھنٹے تک غائب ہوتی تھی، اب بجلی جاتی ہی نہیں، سی این جی نہیں مل رہی تھی اب پھر مل رہی ہے، دھماکے شماکے روز ہوتے ہیں شکر ہے اب کچھ امن ہے، سنا ہے ایک نئی موٹروے بھی بن رہی ہے جو کراچی سے پشاور اور وہاں سے چین بھی جائے گی، میں نے اس کے جذبات کا اندازہ لگاتے ہوئے پوچھا، میاں صاحب اپنی ’حرکتوں‘ کی وجہ سے نکالے گئے اب کہتے ہیں ’کیوں نکالا‘؟ بولا ہاں ناں ٹھیک تو پوچھتے ہیں، میں نے تو انہیں ووٹ نہیں دیا تھا لیکن کروڑوں ووٹ تو انہیں پڑے تھے، عدالت کو کیا ضرورت تھی ان کو نکالنے کی، وہ کرپٹ تھے، نااہل تھے اور عوام کے لئے کچھ نہیں کیا تو ووٹ نہ دے کر ووٹر آئندہ الیکشن میں خود ہی انہیں نکال باہر کرتا، لیکن آہستہ آہستہ سمجھ آرہی ہے اصل کہانی کی، میں نے پوچھا، کیا تم آئندہ ووٹ ڈالو گے اور کس کو؟ صغیر نے آہ بھری بولا، سر جی آپ میڈیا والے بڑے سادے بنتے ہیں، ووٹ سے کیا فرق پڑتا ہے، ہماری کس کو فکر ہے، لیکن سب سمجھداری سے ووٹ کا حق استعمال کریں تو حالات بدل بھی سکتے ہیں، ووٹ ضرور ڈالوں گا لیکن میں نے فیصلہ کیا ہے کہ تبدیلی تو نہیں آئی، میرا ووٹ ضرور تبدیل ہوگا!
28 جولائی کی دوپہر ایوان اقتدار سے بے دخلی کے بعد جی ٹی روڈ سے شروع ہونے والا سفر میاں صاحب کے لئے وسیلہ ظفر ثابت ہو رہا ہے، بھرپور تیاری کے باوجود اپوزیشن پوری ’طاقت‘ سے پنجاب کے دل میں گھر کرنے اور وہ کچھ کر دکھانے میں کامیاب نہ ہوسکی جو نااہل وزیراعظم خیبرپختونخوا، سندھ اور کبھی اپنے پنجاب میں کر کے دکھا رہا ہے۔ سیانے کہہ رہے ہیں کہ پارٹی کی سرکردہ اور فہم وفراست سے لبریز قیادت، صاحبزادی مریم نواز کے اسلام آباد سے لاہور جی ٹی روڈ مارچ کے فیصلہ کو غیرسیاسی قرار دے کر مسترد کرنے کے باوجود آج اس کو درست ماننے پر مجبور ہوچکی ہے، نااہلی کے بعد میاں صاحب کی نشست حلقہ این اے 120پر محترمہ کلثوم نواز کی معمولی کامیابی کو شک کی نگاہ سے دیکھنے والوں کو آج چھ ماہ بعد چکوال کا ضمنی انتخاب 30 ہزار سے فیصلہ کن برتری کی صورت میں بھاری پڑا ہے، افواہوں کے باوجود میاں صاحب نے لندن جانے کی بجائے دیس میں رہ کر جس سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا وہ دوستوں کے اندازوں اور مفروضوں کو بھی غلط ثابت کررہی ہے، ہری پور (کےپی کے) اور جڑانوالہ (فیصل آباد) کے پرجوش جم غفیر نے فیصلہ سازوں کے لئے بھی نئی مشکل پیدا کردی ہے کہ انتخابات روکیں یا کرائیں؟
کہا جارہا ہے کہ صورت حال یکسر تبدیل ہوتی دکھائی دے رہی ہے، سیاسی میدان بالخصوص وزارت عظمی پر ایک آنکھ نہ بھانے والا اب مکمل آزادی سے کھلی تنقید، اپنی کارکردگی کا اظہار اور آئندہ کی انتخابی حکمت عملی کا اعلان کرتا پھر رہا ہے، جس کو نااہل کر کے سیاسی نظام سے الگ کرنے کی کوشش کی وہ ووٹ کے تقدس اور جمہوری نظام کی مضبوطی کا مقدمہ لے کر عوامی عدالت پہنچ چکا ہے، پرجوش خطابات پر عوامی ہجوم کا والہانہ رسپانس کسی نئے منظر کی عکاسی کررہا ہے، میاں صاحب تو6 ماہ پہلے ہی انتخابی مہم پر نکل چکے ہیں ساتھ ہی صاحبزادی کو جلسوں میں لے جا کر باضابطہ سیاسی جانشینی کا پیغام بھی دے رہے ہیں، یہ بھی واضح ہے کہ میاں صاحب کو اقتدار سے نکالے جانا اپوزیشن کے لئے سیاسی فائدے کی بجائے نیا درد سر بن چکا ہے، پوری اپوزیشن مل کر بھی اپنی صفوں میں اتحاد اور آئندہ کی حکمت عملی پر متفق نہیں ہوسکی۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ نوازشریف کو اقتدار سے نکال باہر کرنے کا مقصد انہیں ماضی کا قصہ بنانا تھا لیکن وہ تو ان کے مستقبل کے لئے ڈراونا خواب بن رہے ہیں، آئندہ انتخابات میں ن لیگ کو فارغ کر کے ہنگ پارلیمنٹ لانا اور مرضی کی حکومت بنانے کا منصوبہ ناممکن نہیں تو دشوار ضرور ہوتا جارہا ہے، انتخابی انجینئرنگ کا فارمولا بھی ٹھس ہوتا دکھائی رہا ہے تاہم دل کی تسلی کے لئے فروری میں نیب کی کارکردگی کا انتظار کیا جارہا ہے، خدشہ ہے کہ نیب زدہ کرنے کا فیصلہ بھی میاں صاحب کے لئے مزید رحمت، کسی اور کے لئے باعث زحمت نہ بن جائے، عوام کا گمان ہے کہ انتخابات قریب آرہے ہیں، ان کی اہمیت پھر بڑھ رہی ہے، سلطانی جمہور کا زمانہ قریب آرہا ہے، نقشِ کہن مٹنے جارہا ہے تاہم یہ سب تب تک ممکن نہیں جب تک تمام اسٹیک ہولڈرز جمہوریت کو تمام مسائل کا حل تسلیم نہیں کرتے۔ امر حقیقی ہے کہ ووٹ کی قدر و منزلت، تقدس اور احترام عوام کا ووٹ لینے والے لیڈرز کو پہلے خود کرنا ہوگا۔ شرط ہے کہ وہ انتخابی وجمہوری عمل کو روکنے کی بجائے اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے متحد ہو جائیں، آئین اور پارلیمنٹ کی حفاظت کا عہد کریں، سیاست و جمہوری روایات کی پامالی کی بجائے اس کو عوام امنگوں کے مطابق ڈھالنے کا سامان کریں، ایک دوسرے کو نااہل ثابت کرنے کی تگ ودو کی بجائے اپنی توانائیاں خود کو اہل ثابت کرنے پر خرچ کریں، عوامی اعتماد کی بحالی کے لئے خود احتسابی کی نئی روایت قائم کریں، اپنے حصے کے کام اور فرائض کی انجام دہی میں ذمہ داری کا ثبوت دیں، سیاست کے بعد میڈیا کنٹرول کی حکمت عملی کامیاب ہوگی اور سینیٹ وعام انتخابات بروقت نہ ہوسکے تو پھر پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا!

تازہ ترین