• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صحت کے ساتھ SEESAWچل رہا ہے یا یوں کہہ لیجئے کہ وولٹیج میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے اور کبھی کبھی ’’لوڈشیڈنگ‘‘ کی سی کیفیت۔ سو تسلسل، ترتیب، توازن میں کمی اور کبھی کبھار ناغے لیکن ان شاء اللہ نارمل ہونے پر سب نارمل ورنہ وہ جو چچا کہہ گئے کہ ’’غالب خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں‘‘ تب تک چھوٹے موٹے ٹوٹے اور ٹوٹکے۔آج کل ’’ٹاک آف دی ٹائون‘‘ یہ کہ صحافت زوال کی زد میں کیوں ہے؟ تو اس پر عدیم ہاشمی مرحوم کا یہ زندہ شعر یاد آتا ہے؎گرو تو ساتھ گرے شان شہسواری بھیزوال آئے تو پورے کمال میں آئےمعاشرہ زوال کی لپیٹ میں ہو تو پورے کا پورا ہوتا ہے۔ جہاز کریش کرے تو پورے کا پورا کرتا ہے۔ ایسا نہیں کہ اکانومی کلاس تو جائے، فرسٹ کلاس، بزنس کلاس بچ جائے۔ بیچارہ ’’ٹائی ٹینک‘‘ گلیشیئر سے ٹکرائے تو گنہگار ہی نہیں، پرہیزگار بھی سدھار جاتے ہیں۔ بیمار تو صرف دل، جگر، کڈنی یعنی کوئی ایک آدھ عضو ہی ہوتا ہے لیکن قیمت پورے جسم کو چکانی پڑتی ہے۔ کار کا ایک آدھ پرزہ خراب ہو تو پوری کار بیکار، ایک ٹائر پھٹ جائے تو پوری گاڑی الٹ جاتی ہے۔ زوال بم کی مانند ہوتا ہے اور بموں کے بارے کہا جاتا ہے۔’’بموں کی آنکھیں نہیں ہیں جو دیکھ کر پھٹیںاور اپنے ٹکڑوں کو بے گناہوں سے دور پھینکیں‘‘ایسے میں یہ کیسے ممکن ہے کہ ہر جگہ گلائو سڑائو، انحطاط پورے زور و شور سے جاری ہو لیکن صحافت اس سے محفوظ رہے سو میں تو ان نابغوں کی حیرت پر حیران ہوں جو صحافت کے معیار کی گراوٹ پر پریشان ہیں۔ جہاں ڈاکٹر عاصم جیسے نیک نام عالم کو ’’ایچ ای سی‘‘ کے سر پر بٹھا دیا جائے، اسحق ڈار کی دولت 16سال میں 91فیصد یا 91گنا بڑھ جائے، کوئی بڑی سیاسی جماعت کسی عدالتی نااہل کو اپنا صدر بنانے پر فخر کرے، زرداری صاحب دوسروں کو کرپٹ قرار دیں، ایس ایچ او دو نمبر گاڑی میں بیٹھ کر نشے میں دھت ہو کر دو شہریوں کو سر عام روند دے، ان کائونٹر اسپیشلسٹ خود ان کائونٹر سے بچنے کیلئے ملک سے فرار ہونے کی کوشش میں ناکام ہو کر زیر زمین چلا جائے، دودھ میں دودھ باقی نہ رہے، مکھن سے مکھن غائب ہو، مرچیں پھیکی ہو جائیں، لائف سیونگ ڈرگز زندگی کیلئے خطرہ بن جائیں، امتحانی مراکز نیلام ہوں اور پرچے آئوٹ ہو جائیں، رشتے سے انکار پر گولیاں مار دی جائیں، مہنگی کھال والے گدھے کا سستا گوشت ’’مٹن‘‘ کے بھائو بکے، تربوز کو سرخ رنگ کے انجکشن لگائے جاتے ہوں، غلیظ ترین سیریل کلر روحانی محفلوں میں اسٹیج سیکرٹری ہو، رشوت کا لین دین ٹی وی اشتہاروں کا عنوان بن جائے، سب سے بڑی سیاسی جماعت ہونے کے دعویدار سرعام کنڈے لگا کر بجلی چوری کریں، اسکولوں میں مویشی بندھے ہوں، ایم اے اقتصادیات نے کبھی ایڈم سمتھ اور مالتھس کے نام نہ سنے ہوں، ماس کمیونیکیشن کے طلبہ قرۃ العین حیدر، عبداللہ حسین، عصمت چغتائی، منٹو، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی کے ذکر پر ہونق دکھائی دیں ، نامور ریستورانوں کے کچن بدبودار اور گندگی کے ڈھیر ہوں، گنا کپاس کے حصے کی زمینیں کھا جائے، تخمینے اس بات کے لگائے جاتے ہیں کہ سینیٹ الیکشن میں ہونے والے ہارس ٹریڈنگ کا حجم کیا ہوگا؟ پنجاب کی 6جیلوں کے اندر بچوں سے زیادتی میں ملوث 3865افراد موجود ہوں، عدالتی کیسز تین تین نسلوں تک نیند سے بیدار نہ ہوں۔ ’’چوراچکا چوہدری تے غنڈی رن پردھان‘‘ اور ’’جتنا لُچا اتنا اُچا‘‘ جیسے محاورے زبان زدعام ہوں، ہسپتالوں کے ویسٹ سے سستے برتن بنتے اور تل کر بکتے ہوں، فن کار فحش کام کر کے ملک کا نام روشن کرنے کے کلیم داغیں، پی ایچ ڈیز سرقہ بازی فرمائیں، ڈالروں میں کھرب پتی حکمران غریب ترین عوام کے مال پر ذاتی گھروں کے گرد حفاظتی حصار کھڑے کرنے پر کروڑوں روپے خرچ کر کے اپنی دیانت کی قسمیں کھائیں، جہاں اقامے، شجرے بن جائیں وہاں صحافت کے معیار بارے فکر مندی؟رہی سہی کسر یہ رویے پورے کئے دیتے ہیں کہ ’’سی پیک چینی صدر کا تحفہ ہے‘‘ بندہ پوچھے تمہارا باس تو گزشتہ انتخابی مہم میں ’’اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی‘‘ جیسا کلام گاتا پھرتا تھا اور تم قوم کو یہ پیغام دے رہے ہو کہ یہ ملک بنا ہی قرضوں، امدادوں اور ’’تحفوں‘‘ کیلئے ہے .... جیسے چینیوں کا سی پیک میں کوئی ذاتی انٹریسٹ ہی نہیں۔ایسے بدبودار ماحول میں خوشبودار صحافت کے متلاشیوں کو مبارکباد کے ساتھ دعا ہی دی جاسکتی ہے اور میں دعاگو ہوں۔ یونہی نہیں کہا تھا کہ اس نظام کو تیزاب کے ساتھ غسل دو کہ یہ سادہ صابن، ڈیٹرجنٹ سے نہیں دھلے گا.... مریض وہاں پہنچ چکا جہاں سیریز آف سرجری سے کم پر بات نہ بن پائے گی لیکن ایسے سرجن قسمت والی قوموں کو ہی ملتے ہیں؎عمر بھر تیرا انتظار رہاعمر بھر موسم بہار رہا۔

تازہ ترین