• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پیڈوفیلیا (Pedophilia) یونانی زبان کا لفظ ہے، پیڈو کا مطلب بچہ اور فیلیا بچوں سے تعلقات کو کہتے ہیں۔ پیڈوفیلیا ایسی نفسیاتی یا ذہنی بیماری ہے جس میں مبتلا بالغ افراد کم عمر بچوں کو جنسی کھلونے کے طور پر استعمال کرتے ہیں، انہیں زیادتی کا نشانہ بناتے ہیں اور اپنی تسکین کیلئے بچوں کی برہنہ تصاویر اور ویڈیوز بناکر اُنہیں جبری طور پر جنسی تعلقات پر آمادہ کرتے ہیں۔ امریکہ اور یورپ میں پیڈوفیلیا کا رجحان انیسویں صدی میں منظرعام پر آیا تاہم 80کی دہائی میں امریکہ اور یورپ میں بچوں کے ساتھ بدفعلی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے باعث پیڈوفیلیا پر کافی ریسرچ کی گئی اور اِسے ذہنی بیماری قرار دیا گیا۔
نیشنل سوسائٹی فار دی پریونین آف کریولٹی ٹو چلڈرن (NSPCC) کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ 4 سالوں کے دوران صرف برطانیہ میں کم عمر بچوں سے جنسی زیادتی اور بدفعلی کے60 ہزار سے زائد مقدمات درج کئے جاچکے ہیں۔ ادارے کی تحقیق کے مطابق امریکہ اور یورپ میں ہر تین میں سے ایک بچہ بالغ افراد کی جنسی زیادتی یا بدفعلی کا شکار ہوتا ہے لیکن یہ بچے اس بارے میں کسی کو نہیں بتاتے۔ کم عمر بچوں اور بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور بدفعلی کی سب سے بڑی مثال معروف برطانوی شوبز اسٹار اور عالمی نشریاتی ادارے بی بی سی سے منسلک جمی سوائل تھا جو اپنے فلاحی کاموں کی وجہ سے مشہور تھا اور اُس کے فلاحی کاموں کو دنیا بھر میں سراہا جاتا تھا جبکہ ملکہ برطانیہ نے اُسے ’’سر‘‘ کے ایوارڈ سے بھی نوازا تھا مگر کسی کو یہ نہیں معلوم تھا کہ جمی سوائل نے فلاحی کاموں کی آڑ میں 500 سے زائد کم عمر بچوں اور بچیوں کو جنسی زیادتی اور بدفعلی کا نشانہ بنایا تھا۔ 2011ء میں 84 سال کی عمر میں جب جمی سوائل کی موت ہوئی تو یہ انکشاف سامنے آیا کہ ہر دلعزیز شوبز اسٹار جمی سوائل دراصل پیڈوفیلیا کا شکار تھا جس نے اپنے چمکتے چہرے کی آڑ میں سینکڑوں کم عمر بچوں کی زندگیاں خراب کیں۔ اس معاملے کی جب تحقیقات کی گئیں تو جمی سوائل کے خلاف کم عمر بچوں سے جنسی زیادتی اور بدفعلی کے 500 سے زائد کیسز سامنے آئے اور الزامات ثابت ہونے پر جمی سوائل کو اُس کی زندگی میں دیئے گئے خطابات اور اعزازات واپس لے لئے گئے جبکہ اُس کی قبر پر ’’سر‘‘ کے نام سے لگایا گیا کتبہ بھی ہٹادیا گیا۔
پیڈوفیلیا کے بارے میں آج تک یہ تصور کیا جارہا تھا کہ اس ذہنی مرض میں مبتلا افراد صرف امریکہ اور یورپ میں ہی پائے جاتے ہیں لیکن گزشتہ دنوں قصور میں 7 سالہ بچی زینب کے اغوا، جنسی زیادتی اور قتل کے بعد سامنے آنے والے انکشافات جس میں ملزم عمران علی کے اعتراف جرم کہ اُس نے زینب سمیت 8 بچیوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا اور 5 بچیوں کو قتل کیا، نے یہ ثابت کردیا ہے کہ پیڈوفیلیا کے ذہنی مریض اب پاکستان میں بھی موجود ہیں۔ قصور میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں تھا بلکہ گزشتہ 2 سالوں کے دوران ایک درجن سے زائد کم عمر بچوں اور بچیوں کو جنسی زیادتی اور بدفعلی کا نشانہ بنایا جاچکا ہے جبکہ واقعہ میں ملوث ملزمان نے پکڑے جانے کے خوف سے بچوں کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کیا۔ چائلڈ پروٹیکشن بیورو آف پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف صوبہ پختونخوا میں گزشتہ سال 200 سے زائد بچے جنسی زیادتی کا شکار ہوئے۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ گزشتہ 3 سالوں کے دوران پاکستان میں اس قسم کے تقریباً ایک ہزار واقعات پیش آچکے ہیں جبکہ صرف 2016ء میں 500 سے زائد واقعات پیش آئے۔ صرف عمران کیس میں ہی 8 کم عمر بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا لیکن پولیس نے کیس کو سنجیدگی سے نہیں لیا جس کے باعث قصور میں وقفے وقفے سے اِسی قسم کے دیگر واقعات بھی پیش آتے رہے جنہیں دبایا جاتا رہا۔ اگر پولیس صرف قصور میں ہونے والے واقعات کو سنجیدگی سے لیتی اور یہی پریکٹس اپنائی جاتی جو سپریم کورٹ کے حکم پر اپنائی جارہی ہے تو زینب اور دوسری معصوم بچیاں درندہ صفت لوگوں کی ہوس کا نشانہ نہ بنتیں۔قابل افسوس بات یہ ہے کہ ہم خود کو بدنام کرنے میں نظیر نہیں رکھتے۔ ڈاکٹر شاہد مسعود کے اس بے بنیاد دعوے کہ زینب اور دیگر کم عمر بچیوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے والا ملزم عمران علی کا انٹرنیشنل گینگ سے تعلق ہے اور اُس کے ملک و بیرون ملک کئی بینک اکائونٹس ہیں، سے دنیا بھر میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی جس کے بعد مغربی میڈیا نے پاکستان کو پیڈوفیلیا ممالک کی فہرست میں شامل کرلیا۔ گزشتہ دنوں بی بی سی پر یہ خبر نشر ہوئی کہ ’’انٹرپول کینیڈا کی شکایت پر پاکستان میں ایف آئی اے نے تیمور نامی شخص کو گرفتار کیا ہے جو بچوں کی پورنو گرافی ویڈیوز اور تصاویر انٹرنیٹ پر جاری کرتا تھا۔ تیمور جو پیشے کے لحاظ سے انجینئر ہے، کے قبضے سے 60GB پورنو گرافی ویڈیوز بھی برآمد ہوئیں اور دوران تفتیش ملزم نے اعتراف کیا کہ وہ یہ کام ذہنی سکون کیلئے کرتا تھا۔ یاد رہے کہ اس سے قبل ایف آئی اے نے گزشتہ سال سرگودھا سے بھی ایک شخص کو گرفتار کیا تھا جو بچوں کی پورنو گرافی ویڈیوز بناکر مارکیٹ میں فروخت کرتا تھا۔
زینب قتل کیس میں ملوث عمران کی گرفتاری کے بعد جشن منایا جارہا ہے کہ ہم نے بہت بڑا معرکہ سر کرلیا جس سے ایسا لگتا ہے کہ ملک بھر میں کم عمر بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور بدفعلی کا ذمہ دار عمران ہی ہے جبکہ پولیس بھی قصور میں درجنوں بچوں اور بچیوں کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی، بدفعلی اور قتل کا ملبہ عمران پر ڈال کر اپنی جان چھڑانا چاہتی ہے جو کہ مناسب نہیں۔ یہ امر انتہائی تشویشناک ہے کہ آج ہمارے بچوں کو کس قدر تباہ کن خطرات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ ایسی صورتحال میں ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان خطرات کے پیش نظر پہلے سے زیادہ چوکنا رہیں اور اپنی ذمہ داریاں نبھانے کیلئے آگے آئیں۔ امریکہ اور یورپ میں پیڈوفیلیا ذہنیت کے حامل شخص کو کم عمر بچوں اور بچیوں سے دور رکھا جاتا ہے جبکہ اسکولوں، بچوں کے کھیل کے میدانوں اور دیگر ایسے پبلک مقامات جہاں بچوں کی سرگرمیاں ہوں، پر ایسے شخص کا جانا ممنوع ہوتا ہے تاکہ بچوں کے ساتھ اُس کا کوئی رابطہ نہ ہوسکے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ پیڈوفیلیا جیسی ذہنی یا نفسیاتی بیماری کا دنیا میں کوئی علاج نہیں لیکن اب جبکہ یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ پاکستان میں بھی پیڈوفیلیا ذہنیت کے لوگ موجود ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے لوگوں جن کے بارے میں شکوک و شبہات یا شکایات ہوں کہ وہ پیڈوفیلیا ذہنیت کے حامل ہیں، پر کڑی نظر رکھی جائے۔ زینب قتل کیس پاکستان کیلئے ٹیسٹ کیس ہے، حکومت کو چاہئے کہ معصوم بچی کے قاتل عمران کے اعتراف جرم کے بعد اُسے جلد از جلد نشانِ عبرت بنائے تاکہ آئندہ ایسی ذہنیت کے حامل افراد کسی معصوم بچے یا بچی کو اپنی جنسی ہوس کا نشانہ بناکر موت کے گھاٹ نہ اتارسکیں۔

تازہ ترین