• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب میمو گیٹ میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ میں پیش ہوئے تھے تو ان کو اس امر کا ہرگز خیال نہیں تھا کہ انکے اس عمل سے ریاست کے کس ادارے کو فائدہ اور کس کو نقصان ہوگا۔ اس وقت انکے سامنے سوائے پاکستان پیپلز پارٹی کو نیچا دکھانے کے اورکچھ نہیں تھا۔ عجیب بات یہ ہے کہ میاں نواز شریف پیپلز پارٹی کی حکومت کو ختم بھی نہیں کرنا چاہتے تھے اور شاید اپنے تئیں وہ سویلین اداروں کو کمزور بھی نہیں کر رہے تھے۔میاں نواز شریف کے ماضی اور حال کے رویوں سے یہ ظاہر ہے کہ وہ ملک میں سویلین برتری کے سخت حامی ہیں۔ لیکن انہوں نے میمو گیٹ میں جو کچھ کیا اس کے نتیجے میں پیپلز پارٹی ہی نہیں بلکہ سیاسی ادارے کمزور ہوئے۔ اسی طرح مختلف سیاست دان وقتاً فوقتاً اپنے حریفوں کو نیچا دکھانے کیلئے اور فوری فوائد حاصل کرنے کیلئے ایسے موقف اپناتے رہتے ہیں جس سے وہ پورے سیاسی عمل کو منفی سمت میں لے جاتے ہیں، وہ اپنے پاؤں پر آپ ہی کلہاڑی چلا دیتے ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر میاں نواز شریف پیپلز پارٹی کی حکومت کا خاتمہ نہیں چاہتے تھے تو پھر وہ امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کے خلاف کس لئے تلوار زنی کر رہے تھے؟ جناب حسین حقانی پر الزام تھا کہ انہوں نے امریکیوں کو فوجی مداخلت کے امکان کے بارے میں خبردار کیا اور انہوں نے امریکیوں کو تھوک کے حساب سے ویزے جاری کئے۔ ان کے بد نام زمانہ میمو کی اصل حقیقت کبھی کھل کر سامنے نہیں آئی اور یہ ثابت ہو گیا ہے کہ امریکیوں کو خلیج کی ریاستوں میں پاکستانی سفارت خانوں سے بھی وسیع تعداد میں ویزے جاری کئے جا رہے تھے۔ تمام قرائن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکیوں کو بلا روک ٹوک ویزے جاری کرنا حکومت ہی نہیں بلکہ ریاست کے باقی اداروں کی بھی پالیسی تھی۔ امریکہ میں پاکستان کے وسیع و عریض سفارتخانے میں مقتدر طاقتوں کے درجنوں افسران ہر وقت سویلین نمائندوں کی نگرانی کرتے رہتے ہیں اور ایسا ممکن نہیں ہے کہ ان کو امریکیوں کو ویزے جاری کرنے کے بارے میں علم نہ ہو۔ اگر ایسا ہے تو پھر انہوں نے اس وقت کیوں شور نہیں مچایا جب یہ ویزے جاری کئے جا رہے تھے؟
حقیقت یہ ہے کہ کیری لوگر بل کے دنوں سے لے کر میمو گیٹ تک امریکی سویلین برتری کیلئے زور لگا رہے تھے اور شاید حسین حقانی بھی اس حکمت عملی کا حصہ تھے۔ اس پس منظر میں میمو گیٹ اسکینڈل بنانے کا مقصد امریکیوں کی پاکستان کے اداراتی معاملات میں مداخلت روکنے کیلئے مقبول بیانیہ تخلیق کرنا تھا۔ ظاہر بات ہے کہ امریکی مداخلت کے خلاف قوم پرستی کا بیانیہ عوام میں فوری طور پر مقبول ہو جاتا ہے اور میاں نواز شریف اسی عوامی مقبولیت کے حصول کیلئے آلہ کار بنے ہوئے تھے۔ میاں نواز شریف عوامی مقبولیت کیلئے عدلیہ کی بحالی کیلئے بھی میدان میں نکلے تھے اور اس میں کامیاب ہوئے تھے۔ عوامی مقبولیت سیاسی لوگوں کیلئے نشے جیسی ہے جس کیلئے نواز شریف بھی میمو گیٹ میں یہ سوچے بغیر کود پڑے تھے کہ اسکے دور رس نتائج کیا برآمد ہونگے۔ لیکن میمو گیٹ کے پورے قضیے میں سیاسی اداروں کو جو نقصان ہوا وہ ناقابل تلافی تھا۔میمو گیٹ کے بعد ڈان لیکس کے معاملے کو لیجئے جس میں مسلم لیگ (ن) پر ویسا ہی الزام لگایا گیا تھا جیسا کہ میاں نواز شریف نے حسین حقانی اور پیپلز پارٹی پر لگایا گیا تھا۔ اس مرتبہ قوم پرستی کا جھنڈا پاکستان تحریک انصاف ، پیپلز پارٹی اور دائیں بازو کے پورے قبیلے نے اٹھا رکھا تھا۔ اس مرتبہ بھی ڈان میں ’لیک‘ ہونیوالی خبر کی صحت کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا بلکہ قومی بیانیہ یہ بنایا گیا کہ مسلم لیگ (ن) کے حلقوں نے یہ قومی راز فاش کردیا ہے کہ پاکستان کی بعض ایجنسیاں انتہا پسندوں کی بیخ کنی کے راستے میں حائل ہیں۔ یہاں بھی بیانیہ قوم پرستی کے جذباتی دھاگوں سے بنا گیا۔ ڈان لیکس میں بھی سیاسی گروہوں نے موقع پرستی کا ارتکاب کرتے ہوئے اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری۔ اس میں بھی حزب اختلاف کی پارٹیوں، بالخصوص عمران خان، کا مقصد ہر قیمت پر نواز شریف کا تختہ الٹنا تھا ۔ مسلم لیگ (ن) نے بھی اپنے کچھ وزیروں کی قربانی دیکر وقتی طور پر تو اپنی جان بچا لی لیکن آخر کار اس کی سیاسی حیثیت کو بہت نقصان اٹھانا پڑا۔ غرضیکہ ڈان لیکس کے سارے قصے میں سیاسی ادارے کا رہا سہا وقار بھی جاتا رہا۔
عوامی مقبولیت حاصل کرنے کیلئے پچھلے تیس سالوں سے قوم اور عوام کے نام پر تنگ نظر سوچ کو پروان چڑھایا گیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اب پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو اپنا اقتدار بچانے کیلئے پیروں کے گھٹنوں کو ہاتھ لگانے پڑ رہے ہیں۔ اسمبلی میں ختم نبوت کے مسئلے پر ہونے والے تنازعے کو بغور دیکھیں تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ مخصوص مذہبی گروہوں نے اس مسئلے کو سیاسی طاقت حاصل کرنے کیلئے استعمال کیا۔ جب یہ قصہ سامنے آیا تو باوجود اس کے کہ قومی اسمبلی نے فوراً اپنی غلطی کی تصحیح کر لی تھی لیکن پھر بھی شہباز شریف نے بیچ میں کود کر سستی شہرت کیلئے فوراً اعلان کردیا کہ اس کی تحقیق کیلئے ایک کمیٹی بنا دی جائے۔ نواز شریف کہاں پیچھے رہنے والے تھے انہوں نے بھی شہرت میں اپنا حصہ وصول کرنے کیلئے فوراً کمیٹی تشکیل دے دی۔ اس سارے عمل میں شریف برادران یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ وہ مذہبی معاملات میں مذہبی گروہوں سے پیچھے نہیں ہیں۔
مسلم لیگ (ن) نے جس طرح مذہبی گروہوں کے سامنے لیٹنا شروع کیا اس سے انتہا پسندوں کی حوصلہ افزائی ہوئی اور انہوں نے فیض آباد چوک میں دھرنا دے کر راولپنڈی اور اسلام آباد کو بند کردیا۔ آخر میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے ذلت آمیز سمجھوتہ کرکے اور وزیر قانون کی قربانی دے کر وقتی طور پر جان بچا لی ہے لیکن کب تک۔ اس سارے قصے میں مسلم لیگ (ن) کے ممبران قومی اسمبلی کا ضرورت سے زیادہ معذرت خواہانہ رویہ، شہباز شریف کے گرما گرم بیان اور نواز شریف کے کمیٹی بنانے کے فیصلے کا لب لباب سستی شہرت حاصل کرنا تھا۔ اس عمل میں معاشرے اور سماج کے طویل المیعاد مفاد کو پس پشت ڈال کر وقتی شہرت کو ترجیح دی گئی۔ پاکستان کا بنیادی مسئلہ ہی یہی ہے کہ یہاں ہر کوئی اپنے مقصد کے حصول کیلئے شارٹ کٹ مارنے کا عادی ہو چکا ہے۔ اس وقت پاکستان میں کوئی سیاسی پارٹی ایسی نہیں ہے جو ریاست کے طویل المیعاد مفاد کو اولیت دے۔

تازہ ترین