• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جی ایس پی پلس پر لابنگ اور اِس کے ذریعے یورپی یونین سے رعایت لینے کا کام 2011میں شروع ہو گیا تھا تب پاکستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی،2013 میں مسلم لیگ ن کی حکومت آ ئی تو برطانیہ کے پاکستانی نژاد ممبر یورپین پارلیمنٹ سجاد کریم، پنجاب کے سابق گورنر اور اسکاٹ لینڈ کی معروف سیاسی شخصیت چوہدری محمد سرور کے ساتھ یورپی ممالک میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی کوششوں اور لابنگ سے یورپی یونین نے 28ممالک میں جی ایس پی پلس کے حوالے سے رعایت دینے کا اعلان کر دیا جن 10ممالک کو یہ رعایت دی گئی اُن میں پاکستان بھی شامل ہے، پاکستان کیلئے معاہدے کی بنائی گئی ’’ٹیرف لائن‘‘ میں66فیصد مصنوعات ایسی ہیں جن پر ڈیوٹی زیرو فیصد ہے اُن میں چمڑے اور ٹیکسٹائل کی مصنوعات سر فہرست ہیں لیکن پاکستان میں انرجی بحران کی وجہ سے اِس رعایت سے مکمل فائدہ نہیں اُٹھایا جاسکا، یورپی یونین کی عمارت فرانس کے شہر ’’اسٹراس برگ‘‘ میں ہے لیکن لابنگ کرنے اور پاکستان کو جی ایس پی پلس رعایت دلانے کیلئے یورپین پارلیمنٹ برسلز میں مختلف یورپی ممالک کے ممبرز پارلیمنٹ کے ساتھ ملاقاتیں کی گئیں، سفارت خانہ پاکستان بلجیم نے وطن عزیز سے اِن ملاقاتوں کیلئے آنے والے وفود کا یورپین پارلیمنٹ کے ممبرز کے ساتھ میٹنگز کے اہتمام میں اہم کردار ادا کیا۔ جی ایس پی پلس پر ہر دو سال بعد ’’ریویو‘‘ کیا جاتا ہے تاکہ پتا چلے کہ اِن دو سالوں میں اِس رعایت سے کتنا فائدہ اُٹھایا گیا اور مستقبل میں اِس پر مزید کیا ہوسکتا ہے،2016میں ہونے والے’’ریویو‘‘ میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ اِس معاہدے میں ابھی گنجائش ہے اور اِس کے تحت مزید بہت کچھ کیا جاسکتا ہے، جی ایس پی پلس کا آئندہ ’’ریویو‘‘20 یا 21فروری 2018میں پیش کیا جائے گا جسے دیکھ کر یورپین پارلیمنٹ ناقص اور اعلیٰ کارکردگی پر یہ معاہدہ ختم یا جاری رکھنے کا حکم دے سکتی ہے، اگر یہ معاہدہ ختم ہوتا ہے تو پاکستان کو بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑے گا کیونکہ گزشتہ تین سالوں میں دُنیا بھر میں پاکستانی مصنوعات پر ایکسپورٹ کی شرح 21فیصد رہی ہے جبکہ یورپی ممالک میں یہی شرح 40فیصد بڑھی ہے۔ بریگزٹ بھی اِس معاہدے پر اثر انداز ہوگا کیونکہ تب نئی ڈیوٹی لگے گی، جی ایس پی پلس کا ’’ریویو‘‘ پیش ہونے کی وجہ سے پاکستان کا ایک وفد سابق وزیر کامرس اور موجودہ وزیر دفاع خرم دستگیر جو ای یو فرینڈشپ پاکستان کے کنوینیئر ہیں (پی ایم ایل این )، سراج خان ایم این اے چیئر مین اسٹینڈنگ کمیٹی قومی اسمبلی پاکستان (پی ٹی آئی)، فہمیدہ مرزا سابق اسپیکر قومی اسمبلی پاکستان (پی پی پی) اور سینیٹر شبلی فراز چیئرمین اسٹینڈنگ کمیٹی سینیٹ (پی ٹی آئی) پر مشتمل تھا یورپی دارالحکومت برسلز پہنچا جہاں وفد نے ممبرز یورپین پارلیمنٹ، سربراہ فارن افیئرز کمیٹی، سربراہ ساؤتھ ایشیا ڈیلیگیشن اور سربراہ انٹرنیشنل ٹریڈز کمیٹی سے ملاقاتیں کیں، اِن ملاقاتوں میں سفیر پاکستان بیلجیئم نغمانہ ہاشمی اور کامرس منسٹر عمر حمید پیش پیش رہے۔ پاکستانی وفد کے دورہ برسلز کا مقصد یہ تھا کہ ممبرز یورپین پارلیمنٹ اور مختلف یورپین کمیٹیوں کے سربراہان کو بتایا جائے کہ آئندہ انتخابات میں کوئی بھی پارٹی اقتدار میں آ جائے تو وہ جی ایس پی پلس پر کام کرے گی اور یورپین منڈیوں کے ساتھ درآمدات اور برآمدات کے بڑھاوے کو تقویت دے گی۔ صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی، پنجاب میں مسلم لیگ ن اور خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت ہے لہٰذا اِن پارٹیوں کی نمائندگی سے یہ پیغام بھی دیا گیا کہ وفاق کے ساتھ ساتھ پاکستان کے صوبے بھی جی ایس پی پلس جیسی رعایت کا بھر پور فائدہ اُٹھائیں گے، تمام بڑی سیاسی پارٹیوں کے نمائندگان کی موجودگی نے یہ تاثر بھی دیا کہ پاکستان میں یہ پارٹیاں جس طرح چاہیں ایک دوسرے کے ساتھ اختلاف رائے رکھیں لیکن جب پاکستان کی بات آئے گی تو پھر سب ایک ہوکر اتفاق و اتحاد کی لڑی میں پروئے جائیں گے، بلجیم میں مقیم پاکستانی کمیونٹی نے بھی اِس وفد کے اعزاز میں مل جل کر عشائیہ کا اہتمام کیا جس میں مسلم لیگ ن کے راہنما ماجد شیخ، تحریک انصاف کے صدر سردار صدیق اور پی پی پی کے نمائندوں نے شرکت کی۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پاکستانی وفد کا دورہ برسلز وطن عزیز کا مثبت اور سافٹ امیج پیش کرنے کیلئے مددگار ثابت ہوا ہے۔ دوسری طرف اگر ہم یہ دیکھیں کہ یورپی یونین نے ہمیں اتنی بڑی رعایت دی ہے اُس کے بدلے میں ہم انہیں کیا دے رہے ہیں؟ یا وہ ہم سے کیا توقع رکھتے ہیں؟ تو اِس کا جواب پڑھ کر یقیناً آپ حیران ہوں گے، جی ایس پی پلس کے لئے یورپی یونین سے کئے گئے معاہدے سے پہلے پاکستان نے اقوام متحدہ کے ساتھ 27گلوبل ’’کنونشنز‘‘ پر دستخط کئے تھے جس کے تحت ہیومن رائٹس، لیبر رائٹس، موسمیاتی تبدیلی، اینٹی نارکوٹیکس کنٹرول، کرپشن، بچوں کی لیبر اور اِس جیسے مزید پروجیکٹس پر کام کرنا شامل تھا، یورپی یونین نے پاکستان سے کہا کہ ہم دی گئی رعایت کے بدلے میں آپ سے کچھ نہیں مانگتے بلکہ یہ چاہتے ہیں کہ آپ نے اقوام متحدہ کے ساتھ جو گلوبل کنونشنز دستخط کئے ہیں اُن پر عمل درآمد مزید تیز کیا جائے۔ پاکستان میں کرپشن اور دہشت گردی کا خاتمہ یا کرپشن کی وجہ سے پاکستان کے وزیراعظم کا نااہل ہونا، عدالتوں میں سیاسی پارٹیوں کے سربراہان کی طلبی، اُن لوگوں پر ہاتھ ڈالنے کی جرات کہ جن کے خلاف کچھ کرنے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ میں یہ لکھنا ضروری سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں اور پاکستان سے باہر سیاسی پارٹیاں اور اُن کے نمائندے آپس میں سیاسی ٹکراؤ کریں، اختلاف رائے رکھیں، دست و گریباں ہوں، ٹی وی ٹاک شوز اور میڈیا کے سامنے ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالیں، سیاسی کارکنان اپنے قائدین خواہ وہ سچے ہوں یا جھوٹے اُن کا دفاع کریں ،سیاسی قائدین کے گھریلو اور ذاتی اسکینڈلز کی تشہیر کریں یا ایسا سب کچھ کریں جس سے کارکنان کو اپنی پارٹی میں رُتبہ ملے یا اُنہیں عہدے سے نوازا جائے، مگر جب وطن عزیز کے وقار، سوہنی دھرتی کے تقدس اور اپنا سافٹ امیج اور مثبت چہرہ دکھانے کا موقع ملے تو اُس وقت ایک پلیٹ فارم یا ایک ٹیبل پر بیٹھنے میں فخر محسوس کریں۔ دیار ِ غیر میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کو یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ پاکستان میں جاری اپنے معاملات کو وہیں رکھیں اُن معاملات کو یورپی ممالک میں زیر بحث نہ لائیں، بلکہ اپنے مثبت معاشرتی رہن سہن، اچھے اخلاق، ہمسائیگی کے حقوق کی ادائیگی، شیریں بیانی، ایماندارانہ رکھ رکھاؤ اور مقامی قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے دوسری اقوام کے دِلوں میں اپنا مقام بنائیں، ایسا کرنے سے دیارِ غیر میں ہمارے اور آنے والی نسلوں کے لئے بہترین اور تابناک مستقبل کا وہ بیج بویا جاسکتا ہے جو آنے والوں وقتوں میں تناور اور سایہ دار درخت بنے گا جس کی چھاؤں میں بیٹھنے والے پاکستانی قوم کو دعائیں دیں گے۔

تازہ ترین