• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مردان میں چار سالہ اسما کے ساتھ زیادتی اور قتل کے ملزموں کا17روز گزر جانے کے بعد بھی گرفتار نہ ہونا خیبر پختونخوا پولیس کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہے اور 30جنوری کو چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس ثاقب نثار کا اس بارے میں از خود نوٹس لینا بجا طور پر ایک منطقی عمل ہے۔ فاضل چیف جسٹس کو پولیس کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے یہ ریمارکس دینے پڑے کہ کمسن اسما کے قتل کے ملزم گرفتار نہ ہونا سنگین کوتاہی اور کے پی کے پولیس کی نااہلی ہے۔ ساتھ ہی فاضل چیف جسٹس نے کوہاٹ میں میڈیکل کی طالبہ عاصمہ کے بہیمانہ قتل کی واردات پر بھی نوٹس لینے کے دوران آئی جی خیبر پختونخوا سے24 گھنٹے کے اندر پیشرفت رپورٹ طلب کی ہے۔ ایک فلاحی معاشرے میں جب پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دوسرے ادارے اچھی کارکردگی دکھانے میں ناکام ہو جاتے ہیں اور اس قسم کے واقعات تواتر سے پیش آنے لگتے ہیں تو عدلیہ ہی وہ کلیدی ادارہ ہے جو اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے مظلوم کو انصاف فراہم کر کے ملزموں کو کیفر کردار تک پہنچا کر عوام کو خوف کی فضا سے باہر نکلنے میں مدد دیتا ہے۔ اگرچہ فاضل چیف جسٹس کو دوران سماعت بتایا گیا کہ مردان کی اسما کے ڈی این اے کے نمونے فزانزک سائنس لیب لاہور کو بھجوا دیئے گئے ہیں اور کے پی کے میں بھی یہ لیب آئندہ ہفتے قائم ہو جائے گی۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ ترقی یافتہ ممالک کی طرح محکمہ پولیس سائنس و ٹیکنالوجی سے لیس اس طرح کی لیبارٹریاں بر وقت قائم کرتا اور ملزموں کو بھاگنے کا موقع ہی نہ ملتا۔ پولیس کا محکمہ تو قائم ہی اسلئے کیا جاتا ہے کہ جرائم روکنے کیلئے پیشگی منصوبہ بندی کی جائے اور اگر کوئی جرم سرزد ہو جائے تو مظلوم کو بر وقت انصاف دلانے میں بروقت قانونی اور تکنیکی طریقے استعمال کئے جائیں۔ اس کے بغیر جرائم سے پاک فلاحی معاشرے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ہماری پولیس کو اس حوالے سے تمام سہولتوں سے لیس کرنا پڑے گا۔

تازہ ترین