• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بے نظیر بھٹو کے ساتھ تصویر کھینچتے ہوئے جیسے ہی واجد شمس الحسن نے میمونہ سے کہا’’ بیٹا آپ ذرا مسکراؤ ‘‘تو بی بی بولیں ’’ جن بچیوں کا باپ جیل اور والدہ بسترِ علالت پر ہو ، ان کے چہروں پر مسکراہٹ کیسے آسکتی ہے ‘‘۔
بھانجی کی موت پر وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی نے تعزیتی فون کرتے ہوئے جب یہ کہا ’’جیل میں خوش ہیں ۔۔ڈنڈ بیٹھکیںتو نکالتے ہوں گے ‘‘ تو دُکھ ہوا کہ پانچ سال بعد بات اور وہ بھی طنز بھری ۔
چوہدری شجاعت حسین کا پیغام ملا ’’ ہمارے ساتھ مل جائیں ،آپ وزیراعظم اورمیں مسلم لیگ کا صدر‘‘، میں نے کہلا بھیجا ’’،میں نواز شریف کی مرضی کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا ‘‘۔
رانا ثناء اللہ نے چیف جسٹس کا پیغام دیا ’’وہ جولائی یا اگست کے اوائل میں میری ضمانت لے لیں گے ‘‘ میں نے کہا’’ میری ضمانت چھوڑیں چیف صاحب کو بتائیں کہ ان پر کڑا وقت آنے والا ‘‘۔
احسان پاشا بولے ’’ چند روز پہلے نواز شریف نے قیصر محمود شیخ کوبلایا، شہباز شریف اور کلثوم نواز بھی موجود تھے ، وہاں شہباز شریف نے سخت لہجے میں قیصر شیخ سے کہا’’ آپ ہمارے مقابلے پر لیڈر تیار کر رہے ہیں ، آپ فوری طور پر جاوید ہاشمی سے تعاون بند کریں ‘‘قیصر شیخ بولے ’’ جاوید ہاشمی کے تمام بینک اکاوئنٹس منجمد ہو چکے ، انکی زمینوں کا پانی روک کر فصلیں تباہ کر دی گئیں اور ان بُرے حالات میں بھی وہ جیل میں ڈٹے ہوئے ، انہیں یوںبے یارومددگار نہیں چھوڑنا چاہیے، انکی تھوڑی بہت مدد کرنے کی اجازت دی جائے ‘‘ یہ سن کر شہباز شریف نے کہا’’نہیں ۔۔بند کرو یہ سب ۔۔کوئی ضرورت نہیں یہ سب کرنے کی ‘‘۔
نواز شریف کا رویہ تکلیف دہ ہو چکا تھا، ایک رات جیمرز کی ناکامی کا فائدہ اُٹھا کر میں نے میاں صاحب کو فون کرکے کہا’’سوائے پرویز مشرف کے سب نے ہوائی جہاز حادثے میں جاں بحق ہوئی میری بھانجی کی تعزیت کی مگر آپ نے افسوس کا فون تک نہ کیا ‘‘ بولے ’’ بات پرانی ہوگئی تھی ، اس لئے تعزیت نہ کی ‘‘ میں نے گلہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’ پارٹی عہدیداروں کی نامزدگیاں کرتے وقت میری رائے بھی لے لیتے ‘‘ ،پھر میں نے انہیں پارٹی میں اپنے خلاف سازشوں کابھی بتایا مگر ہر دفعہ ان کا جواب ’’خاموشی ‘‘تھا ۔
لوگ کہہ رہے تھے کہ ’’مجھے لمبی قید میں ڈالنے کا منصوبہ پارٹی کے اندر تیار ہوا، چونکہ مشرف حکومت پہلے ہی مجھ سے تنگ تھی لہٰذا موقع غنیمت جان کر مجھے اندر کردیا‘‘ میں یہ بھی سن رہا تھا کہ نواز شریف آئندہ الیکشن میں مجھے راولپنڈی سے شیخ رشید کے مقابلے میں کھڑا کرنے والے ہیں، یہ صرف اس لئے کہ جاوید ہاشمی کے غبارے سے ہوا نکالنے کیلئے اسے شیخ رشید سے شکست دلائی جائے ۔
عاصمہ جہانگیر کا بھارتی وزیراعظم کے شکرئیے کا بیان پڑھ کرمجھے فرانس میںہونے والی وہ انٹرنیشنل پارلیمانی یونین کانفرنس یاد آگئی جس میں عاصمہ جہانگیر پاکستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے ہونے والی زیادتیوں کو اس جارحانہ انداز میں اُجاگر کر رہی تھیں کہ ہمارا وفد سرجھکائے شرمسار ہورہا تھا اور ایڈوانی کی سربراہی میں آیا ہندوستانی وفد ہمیں دیکھ دیکھ کر مذاق اُڑا رہا تھا ۔
ایک بار اکبر بگٹی نے بتایا ’ ’ذوالفقار بھٹو تو چوہدری ظہور الہٰی کو کو لہو میں قتل کرانا چاہتے تھے مگر میں نے کہا ’’چوہدری صاحب ہمارے مہمان ہیں ، یہاں یہ نہیں ہو سکتا‘‘ ،بعد میں چوہدری ظہورالہٰی نے بھی بارہا اس بات کی تصدیق کی، مگر افسوس کہ چوہدری شجاعت حسین کی حکمرانی میں اکبربگٹی کے ساتھ کیا ہوا ،کاش اکبر بگٹی کی جگہ میں مرجاتا۔
قومی اسمبلی کے اسپیکر صاحب کو نواز شریف نے لاہور میں نہر کنارے قیمتی زمین اسکول کیلئے دی ،انہوں نے اس پر گھر بنا کر ایک کونے میں خانہ پری کیلئے اسکول بنادیا ، لیکن جب مشکل وقت آیا تو موصوف نے یہ کہہ کر سیاسی وفاداری بدل لی کہ ’’میں مجبور، نیب والے کہہ رہے ہیں اسمبلی ممبر بننا ہے یا جیل جانا ‘‘۔
افواہیں گردش کر رہی تھیں کہ مسلم لیگ (ن )کے اندر ایک طبقہ پرویز مشرف کے ساتھ شریک ِ اقتدار ہونا چاہ رہا مگر ان کے مؤقف کو پذیرائی نہیں مل رہی ، اسحق ڈار ،خواجہ آصف ،چوہدری نثار اور شہبا ز شریف کو تو پیشکش بھی ہوئی بلکہ اسحق ڈار نے خود مجھے بتایا کہ ’’ سب ٹھیک ہونے والا ، تمام مسلم لیگیں اکٹھی ہو جائیں گی ‘‘، خواجہ آصف نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ’’اگر جاوید ہاشمی ،تہمینہ دولتانہ اور سعد رفیق سمیت کچھ لوگوں کو علیحدہ کر دیا جائے تو معاملات طے ہو سکتے ہیں ‘‘۔
پارٹی کی پنجاب قیادت میمونہ کی جلسوں میں شرکت کو ناپسند کرنے لگی ، ایک جلسے میں جب دھکے کھا کر اور جاوید لطیف کی کوششوں سے میمونہ اسٹیج پر آئی اور لوگوں نے میرے حق میں نعرے بازی کی تو سردار کھوسہ نے لوگوں کو جھڑکتے ہوئے کہا کہ ’’صرف لیڈر کے حق میں نعرے بازی کریں، جاوید ہاشمی میری طرح کارکن ہیں‘‘۔
ایک مرتبہ میں نے حسین حقانی سے کہا ’’سارا گاؤں بھی مرجائے تب بھی تم نمبردار نہیں بن سکتے ،کچھ عرصہ بعدوہ مجھے ملنے آیا تو اُس کی کار پر جھنڈا لہرارہا تھا ،کہنے لگا’’کیوں جاوید بھائی میں اب نمبردار ہوں یا نہیں ‘‘ ۔
سرانجام خان نے کہا ’’آپ کی حیثیت کو ختم کرنے کیلئے چار سینئر نائب صدور کے عہدے گھڑے گئے ہیں‘‘
چوہدری صاحب دعویٰ کیا کرتے کہ میاں برادران کو فوجی وغیر فوجی حلقوں میں متعارف کرانے کا سہرا ان کے سرہے،چوہدری نثار پارٹی کے پارلیمانی لیڈر بننا چاہتے تھے اور وہ مجھے اپنی راہ کی رکاوٹ سمجھ بیٹھے ،انہوں نے تو مجھ پر یہ الزام بھی لگادیا کہ میرے گھر کا خرچہ میاں نواز شریف اداکرتے ہیں ،چوہدری صاحب جیل میں ملنے آئے تو کہا ’’میں نہیں آرہا تھا ،میاں صاحب نے مجبور کیا تو آگیا ‘‘۔
قومی اسمبلی میں میری رہائی کا مسئلہ قاضی حسین احمد، مخدوم امین فہیم ،مولانا فضل الرحمان اور اسفند یار ولی سمیت تمام پارٹیوں نے اُٹھایا ،صرف میری جماعت خاموش رہی ۔
ایک بار نواز شریف کو جدہ فون کیا تو وہ بجھے بجھے اور مایوس تھے، سیاست سے کنارہ کشی کا سوچ رہے تھے ،میں نے انکی ہمت بندھاتے ہوئے کہا’’ ایک وہ وقت بھی آئے گا کہ جب ہر سیاستدان چل کر آپ کے پاس جدہ آئے گا چونکہ مسلم لیگ سمیت سب انہیں چھوڑ چکے تھے،اس لئے انہیں میری باتوں کا یقین نہیں آرہا تھا‘‘۔
میاں صاحب چونکہ میرے قائد ،ا س لئے کوئی سخت بات نہیں کرنا چاہتا، لیکن یہ سچ کہ بیرون ملک جانے والی قیادتوں نے جلا وطنی کا فیصلہ اپنے ذاتی مفاد میںکیااور یہ سب باہر بیٹھ کر بھی ملک سے زیادہ اپنے ذاتی مفادات کا تحفظ کرتے رہے ۔
صاحبو !یہ چند اقتباسات جاوید ہاشمی کی کتاب ’’زندہ تاریخ ‘‘کے ہیں ، 6سالہ جیل کے دوران 5کتابیں لکھنے والے ہاشمی صاحب کی یہ ایک سالہ جیل ڈائری ہے، بلاشبہ یہ پڑھنے لائق اوراس میں بہت کچھ ، جیسے یہی کتاب پڑھ کر آپ جان سکیں گے کہ ہاشمی صاحب نے کس جوانمردی ،حوصلے، ہمت سے جیل کاٹی، کن مشکل حالات میں پارٹی معاملات چلاتے رہے اورایک مخدوم اور قومی رہنما اپنے ہاتھوں سے کھانا پکاتے ، باتھ روم کی صفائیاں کرتے اورگٹر کے بدبودار پانی میں رات گزارتے ہوئے کیا سوچا کرتے ، اسے پڑھ کر ہی معلوم ہوگا کہ شوکی خان کو دیکھ کر ہاشمی صاحب کی آنکھیں کیوں بھر آئیں ،بسوں ،ویگنوں میں دھکے کھا کر اور جیل حکام کی منت سماجت کرکے سینکڑوں میل دور سے بڑھیا انہیں کیا دینے آئی ، ہتھکڑیاں پہنے بچوں کو دیکھ کر ان کا کیا حال ہوا، کس کی موت پر یہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑے، صرف سعد رفیق ،تہمینہ دولتانہ ،زعیم قادری اور جاوید لطیف ہی وہ لیگی رہنما کیوں ہیں جو باقاعدگی سے انہیں ملنے آیا کرتے اور یہ کیو ں سمجھتے ہیں کہ بے نظیر بھٹو نے ہر دفعہ ڈیل کر کے اقتدار حاصل کیا ، صاحبو! یہ کتاب پڑھ کر جہاں ہاشمی صاحب کے صبر پر رشک اورا نکی ثابت قدمی پرپیار آئے گا،وہاں ان کے کل او ر آج کو دیکھ کربے اختیار یہ خیال بھی آئے گا کہ کتنا اچھا ہوتا اگر یہ مسلم لیگ نہ چھوڑتے ،اگر تحریک انصاف جوائن کر لی تھی تو اس سے نہ نکلتے ، اگر اسے بھی چھوڑنا ضروری ہو گیا تھا تو الزامات بھری پریس کانفرنس کی بجائے چپ چاپ گھر چلے جاتے اوراب اگر عمران خان کی مخالفت کرنا تھی تو ’’بیمار آدمی ،بے کار آدمی ،احسان فراموش ہاشمی ‘‘ جیسے ٹویٹ کرنے والی مریم صاحبہ اور اسیری کے دوران بھی ان کے لیڈر بننے سے خوفزدہ میاں صاحب کے دربار کا دوبارہ حصہ نہ بنتے ،باقی چھوڑیں ہاشمی صاحب نے تو اپنی کتاب کے اختتامی پیراگراف میں خود لکھا تھا کہ ’’میں سمجھتا ہوں بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے آنے کے بعد مجھے عملی سیاست کو خدا حافظ کہہ دینا چاہیے ‘‘ یقین جانیے اگر وہ یہی کرجاتے تو آج وہ جاوید ہاشمی سے نوابزادہ نصراللہ خان بن چکے ہوتے، نہ کہ باغی سے داغی ۔

تازہ ترین