• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جھوٹی خبر دینے پر معروف امریکی صحافی برائن روس (Brian Ross) آج سے کوئی دو ماہ قبل معطل کردئیے گئے۔ گزشتہ سال پہلی دسمبر کوانہوں نے دعویٰ کیا تھاکہ قومی سلامتی کے سابق مشیر مائیکل فلِن نے ڈونلڈ ٹرمپ کے کہنے پر صدارتی انتخابات کی مہم میں معاونت کے لئے روسی حکام سے رابطہ کیا تھا۔ خبر جھوٹی ثابت ہونے پراگلے ہی دن یعنی دو دسمبر کو 67سالہ برائن روس کو معطل کردیا گیا! اِس دوران تنخواہ کا نہ ملنا بھی سزا کا حصہ تھا۔ چار ہفتوں کی معطلی کے بعد گزشتہ ماہ نوکری پر بحالی کے بعدادارے نے اِن کا یونٹ بھی علیحدہ کردیا ہے۔ پاکستان میں جھوٹی اور من گھڑت خبریں دینے والے صحافیوں اور اُ ن کے خاموش حمایتیوں کے لئے امریکہ میں رونما ہونے والا یہ واقعہ ایک انتہائی موزوں اور تازہ ترین سبق ہے۔
سوال یہ بھی اہم ہے کہ جھوٹاثابت ہونے والے صحافی کا کیا ردّعمل ہونا چاہئے۔ اِس حوالے سے بھی برائن روس کا اعتراف کم و بیش ایک مشعل راہ ہے ۔ انہوں نے ایک ٹوئٹ میں کہا، ’’میرا کا م لوگوں کا احتساب کرناہے، اس لئے میں اپنے خلاف احتساب پر بھی راضی ہوں۔‘‘ لیکن یہ ساری باتیں ایک ترقی یافتہ، جمہوری اور مہذب معاشرے سے متعلق ہیں۔ ہمارے ہاں ان معاملات میں ایسی شفافیت اور بے با کانہ ایمانداری فی الحال ڈھونڈے نہیں مل سکتی۔
ڈاکٹر شاہد مسعود کی خبر کے متنازع ہونے سے چند گھنٹے پیشتر سوشل میڈیا پر ایک بحث میں حصہ لیتے ہوئے میں نے اس ناقص رائے کا اظہار کیا تھا کہ زینب کیس کے ملزم کو ڈھیر سارے بینک اکائونٹس کا مالک اورایک بین الاقوامی گروہ کا ممبرقرار دینا خبر کے کمزور پہلو ہیں۔ بعد ازاں عدالت میں ان ہی معاملات پر سوالات اٹھائے گئے۔ ہوسکتا ہے کہ اس خبر کے دفاع میں کوئی دستاویز پیش کرہی دی جائے لیکن اہم سوال یہ ہے کہ اگر دستاویزموجود ہیں تو پیش کیوں نہیں کی گئیں او ر اگر فی الحال موجود نہیں توکوئی بھی ذمہ دارصحافی بغیر دستاویزی ثبوت کے ایسی خبر کیسے آگے بڑھا سکتا ہے۔ صحافی معروف ہو یا غیرمعروف، خبر کسی کی بھی غلط ہوسکتی ہے۔ البتہ کوئی مانے نہ مانے لیکن صحافی کے لئے اس کی خبر کا جھوٹا ثابت ہو جانا ہی اس کی سب سے بڑی سزا ہے۔ لہٰذا اگر برائن روس جیسے صحافی کی خبر غلط ہوسکتی ہے تو 37بینک اکائونٹس اور ملزم کے بین الاقوامی نیٹ ورک سے خفیہ تعلق کی خبر کے جھوٹا ثابت ہونے سے بھلا کون سا انقلاب آجائے گا؟ البتہ اس تنازعے پر جاری بحث اگرخبر کے صحیح یا غلط ہونے تک محدود رہے تو غنیمت ہے ورنہ دنیا جھوٹی اور من گھڑت خبروں اور پروپیگنڈے کی آڑ میں خاص اہداف کو نشانہ بنانے کے ناقابل یقین واقعات سے بھری پڑی ہے۔
مغرب سمیت دنیا کے بیشتر خطوں کے سادہ لوح شہریوں کو برسوں اس حقیقت کا علم ہی نہ ہوسکا کہ کون، کب، کس کے کہنے پر کیا کچھ کہتارہا ہے۔ ستم یہ کہ کہیں صحافی یا ناول نگارکچھ کہتے یا لکھتے ہوئے، کوئی فلمساز شاہ کار فلم تیار کرتے ہوئے اور کوئی شاعر شعر کہتے ہوئے اِس بات سے بے خبر رہتا ہے کہ اس کی تخلیقی سرگرمیوں کا تانہ بانہ در اصل کسی پس پردہ عنصر کے مفادات سے جڑا ہے۔
اخبارات، جریدوں اور معروف صحافیوں کو خاص مقاصد کے تحت استعمال کرنے کے معاملے میں امریکہ کا مبینہ طور پر خفیہ منصوبہ، آپریشن ماکنگ برڈ (Operation Mockingbird)، پروپیگنڈے کی تاریخ میں مثال سمجھا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ منصوبے کے تحت سرد جنگ کے دوران اخبارات و رسائل کے ایڈیٹرز اور صحافیوں کو کمیونزم کے پھیلائو کے خلاف مہم میں استعمال کیا جاتا رہا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مہم میں استعمال ہونیوالوں میں امریکہ سمیت دنیا کے صف اوّل کے اخبارات اور نامی گرامی صحافی شامل رہے ہیں۔ ریاست اور جرائم پیشہ گروہوں کی خواہشات پوری کرنے والے اِن خبر رساں اداروں اور صحافیوں کی زیادہ تر داستانیں آزاد صحافت کے علمبرداروں کیلئے کسی دیومالا سے کم نہیں۔
قصہ گوئی یا خبر کے ذریعے اپنی مثبت تشہیر اور مخالف کی کردار کشی ہمیشہ سے معاشرے کا المیہ رہا ہے۔ شہنشاہیت کے مختلف ادوار میں یہ روایت سودمند پیشے کی صورت اختیار کرتی گئی اور یوں ان گنت درباری تاریخ نویسوں اور لکھاریوں نے سچائی پر مفادات پرستی اور ذاتی تحفظ کو ترجیح دی۔ یہی وجہ ہے کہ سازش اور بدعنوانی نے انسانی معاشرے کا آج بھی پیچھا نہیں چھوڑا۔ دور جدید میں جمہوریت اور حقوق کے فلسفے کے سبب دنیا کی تقدیر مجموعی طور پر بہتر ضرور ہوئی لیکن چندخطوں میں آج بھی بہتیرے افسانہ نگار، صحافی اور نیوز اینکرز یہی کام کررہے ہیں، ہمارا معاشرہ یقیناً اِن سے مختلف نہیں۔
برطانوی مصنف ایرک آرتھر بلئیر(Eric Arthur Blaire)دنیائے ادب میں جارج اورویل (George Orwell)ـ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ 1954میں ان کے شہرہ آفاق ناول اینمل فارم (Animal Farm) پر مبنی فلم کمیونزم کے خلاف پروپیگنڈے کے لئے تیار کی گئی۔ مزید افسوسناک بات یہ کہ بورس پیسٹر نیک(Boris Pasternak) کے ناول پر مبنی یاد گار ہالی وڈ فلم ڈاکٹر ژواگو (Dr. Zhivago) بھی 1965 میں مبینہ طور پر اسی مقصد کے تحت بنائی گئی تھی۔ جارج اورول اور بورس پیسٹر نیک تو شاید اپنی تصانیف پر فلمسازی سے قبل ہی دنیا چھوڑ گئے تھے لیکن ڈاکٹر ژواگو کے ڈائریکٹر ڈیوڈ لین (David Lean) کو غالباً آخری سانس تک علم نہیں تھا کہ انہوں نے یہ شاہ کار فلم کس مقصد کے تحت بنائی تھی ۔
کسی بھی پروپیگنڈے کی پس پردہ وجوہات عموماًً نظریاتی وابستگی، تعلقات، مادّی مفادات، طاقتور عناصر کے خوف اور پیشہ ورانہ رقابت پر مشتمل ہوسکتی ہیں۔ مالکان کی ترجیحات اور اینکرز کی خود ساختہ فکری تنہائی بھی ملتی جلتی صورتحال کا سبب بن سکتی ہیں۔ چند معروف اینکرز اپنے پروڈیوسرز، ریسرچرز اور آس پاس موجود تجربہ کار افراد سے دانستہ کوئی معاونت حاصل نہیں کرتے، ایسی صورت میں چھوٹی بڑی غلطیوں کے امکانات کم و بیش یقینی ہو جاتے ہیں۔ ابلاغ عام کے جدید تقاضوں کے تحت اگرچہ ہر میڈیا ہائوس کا اپنا نیوز ماڈل اور نشریاتی نظام ہوتا ہے لیکن خبر پہنچانے اور پیش کرنے والوں کی ساکھ ہمیشہ بنیادی اہمیت کی حامل رہتی ہے۔ نیوز روم اسٹافرز کے لئے مذکورہ شعبوں میں پیشہ ورانہ تربیت ساکھ پر براہ راست مثبت اثرات مرتب کرتی ہے۔ پھر یہی عمل آگے چل کر برانڈ کی شناخت، مقبولیت اور صحت مند مسابقت کاسبب بنتا ہے۔ پاکستان کے زیادہ تر چینلز میں اگرچہ یہ ماڈل کسی نہ کسی حالت میں موجود ہے لیکن سچ یہ ہے کہ پیشہ ورانہ حد تک مربوط ماحول ملک کے چند ہی نیوز رومز میں پایا جاتا ہے۔ لہٰذا یہ طے ہے کہ کسی میڈیا ہائوس کا غیر مربوط نیوز ماڈل ہی، دبائو کے تحت کسی پروپیگنڈا خبر کو شائع یا نشر کرنے کے لئے موزوں ترین ذریعہ ثابت ہوسکتا ہے۔

تازہ ترین