• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب کہا جاتا ہے کہ حُسن دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتا ہے تو اس سے مراد حسن کو کھوجنے کی خواہش ہے یعنی جو انسان ایک مثبت نقطۂ نظر کا حامل ہو گا تو اسے چیزوں میں مثبت پہلو زیادہ دکھائی دے گا اور جو صرف خرابی ڈھونڈنے کی کوشش کرے گا تو اسے وہی حاوی نظر آئے گی۔ مطلب اپنے وجود میں تعمیری اور تخریبی قوتوں کی فعالیت کا سارا چکر ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے دھوپ کی عینک لگا لی جائے تو ہر طرف سایہ دکھائی دینے لگتا ہے۔
یہی حال ہمارے عظیم ملک پاکستان سے روا رکھے جانے والے رویوں کا بھی ہے۔ کچھ لوگ ہر وقت مر گئے، مٹ گئے، تباہ ہو گئے، کچھ نہ رہا اور کرپشن کی گردان کرتے رہتے ہیں اور کچھ سب اچھا کی تکرار۔ ملک اور انسان ان دونوں کے درمیان کسی جگہ موجود ہوتے ہیں جہاں خوبیاں بھی ہوتی ہیں اور کچھ کوتاہیوں کا امکان بھی ہر وقت ساتھ۔ اگر آپ پاکستان کی خوبیاں تلاش کرنے نکلیں تو سب سے پہلے اس کی طاقت اور منفرد حیثیت میں آپ کو وہ متنوع کلچر نظر آئے گا جو سات رنگوں کی طرح فضا میں کھلتی قوسِ قزح کی طرح ہے۔ فرق یہ ہے کہ قوسِ قزح صرف بارش کے بعد نظر آتی ہے جب کہ پاکستان کی صوبائی اکائیوں کے دلفریب کلچر کا حسین منظر آپ کو ہر وقت دکھائی دیتا ہے، شرط وہی ہے کہ اگر آپ دیکھنا چاہیں تو۔ پھر موسموں کی بات کریں تو ایک ہی وقت میں کہیں جسم کو جھُلساتی شدید گرمی خبر بنتی ہے تو دوسرے حصے میں برف پڑ رہی ہوتی ہے۔ غرض یہ ایک ایسا ملک ہے جو دریائوں، پہاڑوں، کہساروں، نہروں، ندیوں، جنگلوں، باغوں اور سمندر کے فطری تحفوں اور عنایات سے سجا سجایا گلدستہ ہے۔ ہم چونکہ دور کے ڈھول سہانے کے محاورے پر عمل پیرا ہیں اور نہ جانے کیسے ہمارے دماغوں میں کچھ ملکوں کا سحر اس قدر سرایت کر گیا ہے کہ ہم سدا وہیں رہنے کی تمنا کرنے لگتے ہیں۔ حالانکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان جس زمین پر جنم لیتا ہے، جس مٹی پر پہلا قدم رکھتا ہے، اس کا مزاج، اس کی خصوصیات اور اس کے موسموں، درختوں اور پرندوں کا تال میل ایک خاص تعلق کی طرح اس کے وجود سے بندھ جاتا ہے۔ عمر بھر دونوں ایک دوسرے کی طرف خاص کشش محسوس کرتے رہتے ہیں اسی لئے کہا جاتا ہے کہ مٹی اپنی طرف کھینچتی ہے حتیٰ کہ ایک دن اپنے وجود کا حصہ بنا لیتی ہے۔ یہ سب فطری عوامل مل کر ایک فضا تیار کرتے ہیں جو اس علاقے میں پیدا ہونے والے انسان کو پروان چڑھنے کے لئے سانس کی طرح ضروری ہوتی ہے اور اس کے وجود کے موافق ہوتی ہے اسی لئے دھرتی کو ماں کا درجہ دیا جاتا ہے۔ دونوں مائیں اپنی طاقتوں کو شیئر کر کے نئی زندگی کی تخلیق میں معاونت کرتی ہیں۔ جس طرح ماں کو چھوڑنا، بھلا دینا، اس کے ساتھ دھوکہ اور اسے نقصان پہنچانا ناممکن ہے، بندہ ساری عمر، بچپن میں ماں کی نگہداشت کا حق ادا نہیں کر سکتا اسی طرح دھرتی کا قرض اتارنا بھی مشکل ہے۔ دھرتی سے محبت اس امر کی متقاضی ہے کہ لفظی اور زبانی نعرے بازی سے بڑھ کر ملک سے محبت کا ثبوت دیا جائے اور اس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اس کی ترقی کو مقصدِ حیات بنا لیا جائے۔ ہم مثبت اور منفی رویوں اور حُسنِ نظر کی بات کر رہے ہیں تو جہاں ملک کو لُوٹنے والے اور نقصان پہنچانے والے لوگ اپنی وارداتوں میں مصروف ہیں وہیں لاکھوں، کروڑوں اس کی بقا اور فلاح کے لئے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ کھانے والے بہت تھوڑے ہیں لیکن کما کر دینے والے بہت زیادہ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے لوٹ کھسوٹ اور خود کو مضبوط کرنے کا رجحان عام ہوا ہے جس سے جمہوریت اور جمہور کے مفادات کو شدید نقصان پہنچا۔ اگر غیر یقینی صورت حال اور سنسنی خیزی ختم کر دی جائے تو نہ صرف یہاں کے لوگ ملک میں سرمایہ کاری کو ترجیح دیں بلکہ بیرونِ ملک بڑے بزنس مین پاکستانی بھی اس طرف کا رُخ کریں۔ خراجِ تحسین ہے ان تمام کاروباری حضرات کو جنہوں نے لوڈ شیڈنگ اور دیگر سیاسی و سماجی مداخلتوں کے باوجود دھرتی سے رشتہ قائم رکھا تاہم پچھلے دس پندرہ برسوں کے مقابلے میں آج کا پاکستان مختلف میدانوں میں ترقی کی منازل طے کرتا دکھائی دیتا ہے کیوں کہ یہ برس ہماری آزمائش کے سال تھے۔ عالمی طاقتوں نے پاکستان کو لیبارٹری بنا رکھا تھا جس سے ہماری قدریں، ہمارا مزاج اور ہماری ترجیحات متاثر ہوئیں۔ ان سالوں میں ہمارا سب سے بڑا مسئلہ بجلی کی شدید لوڈ شیڈنگ کا رہا ہے جس کی بناپر سینکڑوں مِل مالکان ہمسایہ ممالک کی طرف رُخ کر گئے۔ بجلی کی کمی نے صرف گرمیوں میں ہمارے حواس خطا نہیں کئے بلکہ ہماری معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا اس لئے یہ مرکزی مسئلہ تھا۔ بھلا ہو حکومتِ پنجاب کا جس نے اپنے وسائل اور اپنی کاوشوں سے پنجاب میں کئی منصوبے مکمل کئے اور بجلی پیدا کر کے ملک کو روشنی کے راستے پر ہموار کیا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ گزشتہ ادوار میں توانائی کے منصوبوں کے حوالے سے ملک میں جامع منصوبہ بندی کرنے میں شدید کوتاہی برتی گئی جس کی وجہ سے نہ صرف ملک اندھیروں میں ڈوبا رہا اور شدید موسمی اثرات نے لوگوں کو اذیت میں مبتلا رکھا اور حکمرانوں نے اپنے وسائل کو استعمال میں لا کر خود مختاری کی طرف سفر شروع کرنے کی، بجائے قرضوں کا بوجھ بڑھتا رہا۔ حکومت پنجاب نے بالکل جنگی بنیادوں پر بجلی کی پیداوار پر کام کیا اور اسے اپنی سب سے بڑی ترجیح بنایا۔ گزشتہ چار سالوں کی دیوانہ وار محنت کا جو پھل آج ملک کو نصیب ہوا ہے وہ 70 سالوں کی محنت، پالیسی سازی اور حکمتِ عملی کے مقابلے میں کئی گُنا زیادہ ہے۔ پھر یہ کہ دوسرے کی طرف دیکھتے رہنا اور ہر کام مرکز پر ڈال دینے کی بجائے، اپنے وسائل سے بجلی پیدا کرنا بہت بڑی کامیابی ہے۔ پنجاب نے دیگر صوبوں کے لئے ایک مثال قائم کی ہے کہ اپنے صوبائی اختیارات کو استعمال کر کے اپنے بجٹ سے ایسے منصوبوں کا آغاز کریں جو صوبے کے ساتھ ساتھ ملک کی مجموعی ترقی کا باعث بنیں۔ جمہوری سلسلے کا یہ پانچ سالہ دور کئی حوالوں سے سراہنے کے لائق ہے لیکن اگر کامیابیوں کا تعین کیا جائے تو زیادہ کارکردگی پنجاب کی نظر آئے گی۔ کسی بھی منصوبے کی تکمیل سے سب سے زیادہ عام فرد کو فائدہ حاصل ہوتا ہے تاہم مسلم لیگ (ن) کی کامیابیوں کے ساتھ ساتھ یہ امر بھی توجہ طلب ہے کہ اب وہ پروٹوکول اور شاہی اسٹائل کو تبدیل کرنے کی طرف سفر شروع کرے۔ آج مسلم لیگ عوام کی پارٹی بن چکی ہے تو اس میں عوامی رنگ بھی نظر آنا چاہئے۔ گزشتہ دنوں ایک جلسے کے دوران ہیلی کاپٹر سے پھول پھینکنے کا عمل دیکھ کر بہت سے لوگوں نے سوچا کاش اس کی بجائے ان پیسوں سے کسی غریب علاقے کے لوگوں کے لئے خوراک، دوائیاں، بچوں کے لئے غبارے اور کھلونے پھینکے جاتے، آنکھوں میں آس کے دیے جلائے کھلے آسمان تلے بیٹھے لوگوں کے لئے خوابوں کو تدبیر بنانے والی کوئی تحریر پھینکی جاتی جس میں انہیں بنیادی حقوق کی فراہمی کا اعلان کیا گیا ہو۔ ایسا نہ ہو ایک دن چمکتی گاڑیوں کے آگے پیچھے بھنگڑا ڈالتے ڈالتے ان کی ہمت جواب دے جائے، وہ تھک جائیں اور شاید جاگ بھی جائیں تو فرق محسوس کرنے لگیں پھر کیا ہو گا اس لئے ملک میں جمہوریت کو آگے بڑھانا ہے تو ملک معراج خالد کی طرح بے لوث خدمت کو یقینی بنانا ہو گا۔ خادمِ پنجاب خدمت پر یقین رکھتے ہیں اور دن بدن پروٹوکول اور دیگر چکروں سے نجات حاصل کرتے آگے بڑھ رہے ہیں۔ دُعا ہے کہ پاکستان ترقی کے اس سفر کو جاری رکھتے ہوئے اپنے تمام مسائل خود حل کرے اور اسے کسی طاقت کے آگے وسائل کے لئے ہاتھ نہ پھیلانے پڑیں۔ اس کے لئے ہمیں تھوڑا سا اپنا لائف اسٹائل تبدیل کرنا پڑے گا۔

تازہ ترین