• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کل سزائوں کے بہت سے مشورے اخباروں میں شائع ہو رہے ہیں کوئی کہتا ہے ’’اسے سنگسار کرو‘‘ کوئی کہتا ہے اسے بھرے چوک میں پھانسی دو، غرض یہ کہ بھانت بھانت کی بولیاں ہیں۔
کیاسب لوگ بھول گئے ہیں کہ ضیا الحق کے زمانے میں پپو کے قاتلوں کو فیروز پور روڈ کے چوک میںدن گیارہ بجے پھانسی دی گئی تھی۔ وہ منظر کیسا تھا لوگ گود کے بچوں کو بھی اٹھائے بیوی اور ناشتہ دان لئے ہزاروں کی تعداد میں جمع ہو گئے تھے۔ انتظار حسین نے اس کے بارے میں ناول میں بھی تذکرہ کیا ہے۔ اس کے بعد ہوا کیا وہی روز مرہ یعنی ملک بھر میں کیا حجرے، گھروں میں بچوں کے ساتھ زیادتیاں اور ان کو کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دینا۔ مرچوں میں اینٹوں کا برادہ ملانا، چائے میں دالوں کے چھلکے ملانا، دودھ، گندے انڈوں اور ٹماٹو ساس، کیسے کیسے استعمال بنائے جاتے ہیں۔ گزشتہ سال ہمارے ملک سے 40 ہزار گدھوں کی کھالیں ،چین کو ایکسپورٹ کی گئی ہیں ان کا گوشت کہاں گیا!! روز اشتہار آتا ہے ’’گوجرانوالہ جا کر چڑے کھائو، اب تو شتر مرغ کے سلائس اور سنڈوچز کا اشتہار خوب چل رہا ہے۔ یہ کیا میڈیا ہمارے ساتھ کر رہا ہے۔ کوئی پروگرام کوئی گفتگو، کوئی بات، کتاب پڑھنے، کتاب کے بارے میں دلچسپ گفتگو، بڑوں کے لئے نہیں تو بچوں کے لئے ہی سہی،’’مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر‘‘ اب جا کے کچھ کارٹون بننے شروع ہوئے ہیں ۔ جس کے ذریعے شاید، پرانے آداب گفتگو کے، بڑوں اور چھوٹوں سے ملنے اور مخاطب ہونے کے، علاوہ ازیں ، کھانےکے آداب اور پھر نشست و برخاست کے آداب گویا زندگی اور معاشرت کی تہذیب۔
یہ زمانہ وہ ہے کہ ہم نے مغرب کو پڑھ کر یہ سیکھا کہ بچے کو کبھی ٹوکو نہیں وہ اگر گلاس توڑتا ہے توڑنے دو، وہ آپ سے بدتمیزی کرتا ہے توکرنے دو کہ وہ خود اپنے عمل سے سیکھے گا۔ ایسی بے لگام پرورش کے باعث، بچوں کی تربیت پس پشت ہو گئی۔ یہ بچے اگر کسی کے گھر جا کر ، چیزیں اسی بدتمیزی سے اٹھا کر توڑنے لگیں، یہاں کئی والدین ناراض ہو جاتے ہیں کہ ہم تو بچے کو ڈانٹنا، اس کی قدرتی پرورش کے خلاف سمجھتے ہیں۔ وہ بچے ڈب کھڑبے جوان ہوتے ہیں، ان کو آپ نے سڑک پر کبھی ون ویلنگ کرتے ، کبھی بے تحاشا تیز موٹر چلاتے، کبھی ٹریفک پر روکنے کو، اپنی بے عزتی سمجھتے ہوئے ،سرکاری ملازم سپاہی کو تھپڑ جڑ دیتے ہیں اس کے بعد کی منزلیں زیر بحث نہیں لائونگی کہ وہ تو ا کثر ماں کا لحاظ بھی نہیں کرتے ۔
ہم نے ایسے نوجوانوں کی نسل کی پرورش کی کہ جو استاد کو کلاس میں ذلیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ پڑھنا ان کا عشق نہیں، بازاروں میں شاپنگ مال میں ایک دوسرے کو کہنی مارتے ہوئے اور ہذیانی ہنسی کے ساتھ، اس جگہ سے برابر گزرتے ہیں، جہاں لڑکیاں بیٹھی ہوں۔ ابھی گفتگو تمام نہیں ہوئی۔ امتحانوں میں نقل کرنا اور غنڈہ گردی کے ذریعے اس کو صحیح ثابت کرنا، جوانی کا خما ر کہلاتا ہے۔
ہمارے شہروں اور دیہات میں چھوٹے چھوٹے گھر ہوتے ہیں باپ کام پر گئے ہوتے ہیں۔ مائیں بچوں کو شرارتیں کرتے دیکھ کر اکتا کر کہتی ہیں اور ہمیشہ کہتی رہی ہیں جائو جا کر گلی میں کھیلو اس زمانے میں گلیاں، گھروں کے درمیان ہوتی تھیں۔ سب ایک دوسرے کو پہچانتے تھے۔ اب وہ منظر بھی نہیں ہیں۔ کبھی لاڈ میں آکر چھٹی کے روز ماں باپ، باغ میں لے جایا کرتے تھے۔ وہ بھی اس طرح نہیں رہا کہ جب سے اقبال ٹائون ،لاہور کے باع میں دہشت گرد نے سینکڑوں بچوں اور مائوں کو شکار کر لیا تھا۔ بالغ ہونے تک بچے، سینما ہائوس کا رخ نہیں کر سکتے، تو پھر وہ جو پیدائش کے بعد ،گیم کھیلنا اور پھر فیس بک پر دوست بنانا، ہر گھر کے بچوں کو جھنجھنے کی طرح دیدیا جاتا ہے۔ پلٹ کے دیکھا بھی نہیں جاتا کہ بچہ کس سے بات کر رہا ہے، کس عمر کے لوگوں سے اسکا رابطہ ہے تو پھر ناقابل یقین اور ناقابل اعتبار نتائج تو ہونگے۔ بچوں اور عورتوں کیا لڑکیوں کے ساتھ پھر فیس بک سے لے کر، فون اور شاپنگ سینٹر میں جو ہوتا ہے ، وہ نئے نئے کھلتے چائے خانوں میں بڑے گھروں کی اولادیں اور ڈھابے ،پھر مالی طورپر کمزور اولادیں، تہذیب سے ماورا، سارے منظر پیش کرتی ہیں۔حکام کہتے ہیں اور کہتے رہے ہیں کہ چینل بہت ہوگئے ۔ آپ کو بہت معلومات ملے گی یہی بات موبائل ، فیس بک، اسکائپ اور واٹس ایپ کے بارے میں بھی کہی گئی۔ انجام کیا نکلا، بنا تحقیق ، سنسنی خیز خبریں، گپ کے ساتھ بے ہودہ تصویریں ، واٹس ایپ اور فیس بک پر اتفاق سے جسے اینکر پرسن بننے کا شوق ہوا، وہ افواہ کو بھی ذاتی معلومات کہہ کر بیان کرتے رہے ہیں۔ عجب تو یہ ہے کہ ان بے سرو پا باتوں کا وہ ادارے بھی نوٹس لیتے ہیں، جن کا یہ کام ہی نہیں۔ اب دیکھیں ٹی وی پر تو کیا جن اتارنے والے، ٹوٹکے دینے والے، جنم دن بتانے والے۔ استغفراللہ۔
اعداد و شمار کا یہ حال ہے کہ سب دنیا کہہ رہی ہے کہ پاکستان کے ڈھائی کروڑ بچے اسکول ہی نہیں جاتے کہ وہاں ایک کلاس میں پانچ کلاسوں کے بچے بیٹھے ہوتے ہیں۔ نہ ٹیچر کو معلوم ہے کہ کس کو کیا پڑھانا ہے اور کونسی زبان میں پڑھانا ہے۔ ہر دفعہ کہا جاتا ہے یہ نصاب بدلے گا۔ نصاب بدلنے والے کون ہیں۔ وہی ریٹائرڈ استاد، جن کو کوئی کام دینا مقصود ہو۔ یہ بھی معلوم ہے کہ نصاب کے غیر دلچسپ ہونے، ٹیچر کے بے قاعدہ کلاس لینے کے باعث 50 فیصد بچے اسکول چھوڑ جاتے ہیں۔ سو دفعہ کہا گیا ہے کہ دیہات میں بچوں کو صاف کپڑے، جوتے اور بستے فراہم کرو۔ پانچویں کلاس کے بعد ساتھ ساتھ انہیں علاقے سے متعلق انجینئرنگ، بجلی اور زراعت سے متعلق نہ صرف عملی تربیت دیں، بلکہ کھیتوں میں لے جا کر فصل کی بوائی اور کٹائی کے مراحل بھی دکھائیں۔ بچوں کی دلچسپی بڑھے گی اور ہر میٹرک پاس شہر میں چپراسی بننے کے لئے نہیں بھاگے گا۔ اب نئی خبر کا بھی لطف لیں، سندھ کی حکومت نے کہا ہے کہ اب فٹ پاتھوں پربھی اسکول قائم کئے جائینگے۔ جب سامنے پراٹھے فروخت ہورہے ہونگے تو بچے کہاں دیکھیں گے۔
کتاب کی طرف کہ پراٹھوں کی طرف۔

تازہ ترین