• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم کہتے ہیں صحافت مقدس پیشہ ہے، وکلا کہتے ہیں وکالت مقدس پیشہ ہے، جج صاحبان کہتے ہیں انصاف کرنا مقدس پیش ہے اور ڈاکٹر کہتے ہیں علاج مقدس پیشہ ہے مگر ان تمام مقدس پیشوں میں کالی بھیڑیں موجود ہیں جنہوں نے ان تمام مقدس پیشوں کو داغدار کر دیا ہے ۔ اگرچہ کالی بھیڑوں کی تعداد اچھے عناصر کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے۔ ہم آج صرف صحافت کے پیشے کی بات کرتے ہیں۔ جب سے پرائیویٹ ٹی وی چینلوں کی بھرمار ہوئی ہے کچھ ’’گھس بیٹھیوں‘‘ کی وجہ سے صحافت نے ایک عجیب اور قابل مذمت رنگ اختیار کرلیا ہے جس سے بہت سے صحافیوں کے سر شرم سے جھکے رہتے ہیں۔ ان میں زیادہ تعداد ان اینکرز کی ہے جن کو’’صحافت‘‘ کے شعبے میں آنے سے پہلے اس کی الف ب کا بھی علم نہیں چونکہ انہوں نے صحافت میں رگڑا نہیں کھایا ہوا لہٰذا انہیں خبر کی نزاکت کا بالکل احساس نہیں ہے اور جو کچھ منہ میں آتا ہے بغیر کسی شرم وحیا کے کہہ دیتے ہیں۔ جب اس پر شور مچ جاتا ہے تو وہ اندر ہی اندر بہت خوش ہوتے ہیں کہ انہوں نے کیسا چھکا مار دیا ہے اور ان کی ریٹنگ کتنی اوپر چلی گئی ہے۔ ان کی اس غیر ذمہ دارانہ ’’خبر‘‘ سے معاشرے میں کیا بگاڑ پیدا ہوتا ہے انہیں اس کی بالکل پروا نہیں ہے۔ ٹی وی چینلوں کے اکثر مالکان بھی ان ’’گھس بیٹھیوں‘‘ کی بڑی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کیونکہ ان کی بے پرکیوں کی وجہ سے بزنس میں اضافہ ہوتا ہے۔ ایک پروفیشنل جرنلسٹ کو اس بات پر کبھی بھی عار محسوس نہیں ہوتی کہ اگر اس کی کوئی خبر غلط ثابت ہوگئی ہے تو وہ بغیر کسی جھجک کے معذرت کرلے۔ ایسی معافی سے دراصل ان کا پروفیشنل ازم ثابت ہوتا ہے۔ مگر غیر ذمہ دار اینکرز اپنی ہر اول فول پر ڈٹ جاتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنے سے ان کا نام مزید ’’روشن‘‘ ہوگا اور انہیں دیکھنے والے مزید بڑھ جائیں گے۔ کسی غیر ملکی سفارتکار جو کہ اسلام آباد میں تعینات ہیں نے صحیح کہا ہے کہ اگر ٹی وی چینلوں کے مارننگ شو دیکھیں تو لگتا ہے کہ پاکستان میں سب کچھ بہت اچھا ہے مگر جب ایوننگ شو دیکھیں تو لگتا ہے کہ یہ ملک سخت مشکلات کا شکار ہے اور اس کا قائم رہنا بڑا مشکل ہے۔ایسے عناصر بھی اسی طرح ہی ذمہ دار صحافی بن سکتے ہیں جس طرح کے باقی ہیں اگر وہ سیکھنے کو تیار ہوں اور صحافیانہ پراسس سے گزریں مگر وہ تو اب اس سٹیج پر پہنچ چکے ہیں جہاں وہ کسی بھی سکھانے والے یا اس طرح کی بات کرنے والے کو بیوقوف ہی سمجھتے ہیں۔ صحافت کوئی ایسا پیشہ نہیں ہے کہ بندہ ایک دو دن ،ایک دو ہفتوں یا ایک دو مہینوں میں سیکھ سکے اس کیلئے وقت درکار ہے جس میں سینئرز کا بڑا رول ہے۔ جن جن ’’اینکرز‘‘ نے تباہی مچا رکھی ہے ان ٹی وی چینلوں میں ایڈیٹوریل کنٹرول زیرو ہے اور ان کے مالکان نہیں چاہتے کہ وہ ان اینکروں کو لگام دیں۔ ان چند ’’چھاپہ ماروں ‘‘کو نکال دیں تو صحافت کا قبلہ درست ہو سکتا ہے مگر ان کو سائیڈ لائن کرنا ناممکن ہے ۔ رہی بات کوڈ آف کنڈکٹ کی تو کچھ چینل کافی حد تک اس کی پابندی کر رہے ہیں مگر بہت سے جو ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت چلتے ہیں اس کی بالکل پروا نہیں کرتے۔ بس ان گھس بیٹھیوں کے ہاتھ میں مائیک آیا اور پھر کسی کی عزت محفوظ نہیں چاہے وہ سندھ ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس (جو کہ آج کل سپریم کورٹ کے جج ہیں) ہوں۔ حکومت پر تو سخت ترین الفاظ میں لعن طعن بلکہ گالی گلوچ تو اس طرح کا ہر صحافی اپنی اولین ذمہ داری سمجھتا ہے کیونکہ اس کے بغیر تو اس کا شو مکمل ہی نہیں ہوتا۔ حکومت پر تنقید ضرور ہونی چاہئے مگر اس طرح نہیں جس طرح کہ تھڑے پر بیٹھے لوگ کرتے ہیں۔ صحافی کا کمال تو یہ ہے کہ وہ بھرپور تنقید بھی کرے مگر الفاظ کے چنائو میں ہمیشہ محتاط ہو۔ اگر کوئی ’’صحافی‘‘ گالی گلوچ پر اتر آتا ہے تو وہ صحافی نہیں بلکہ تھڑے باز ہے اور عقل سے عاری ہے اور اس پیشے پر سیاہ دھبہ ہے۔ ابصار عالم کے بطور پیمرا چیئرمین ہوتے ہوئے یہ ریگولیٹر بڑی مستعدی سے کام کر رہا تھا لیکن لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے ان کو اس عہدے سے ہٹانے کے بعد یہ ادارہ معطل ہو چکا ہے اور اب نہ تو پیمرا کی طرف سے ٹی وی چینلوں کے خلاف کوئی خاطر خواہ کارروائی ہو رہی ہے اور نہ ہی ان کے مواد کی مانیٹرنگ۔
قصور کی معصوم زینب کے ساتھ ہونے والے ظلم پر پورے ملک میں بہت سخت احتجاج ہوا جو کہ صحیح تھا تاکہ اس طرح کے واقعات کو روکنے کیلئے حکومت کو جگایا جائے۔ پنجاب حکومت اس کی وجہ سے بہت دبائو میں آئی اور اس نے کمال مہارت سے چند ہی دنوں میں اس درندہ صفت شخص کو گرفتار کر لیا جس نے اس بچی کو بربریت کا نشانہ بنایا تھا۔ نون لیگ کے مخالفین کے پیٹ میں سخت مروڑ پڑے کہ پنجاب حکومت نے کمال کر دیا ہے لہٰذا انہوں نے سوچا کہ اس ساری کارکردگی کو تباہ و برباد صرف اس طرح کیا جاسکتا ہے کہ اس کا رخ کسی دوسری طرف موڑ دیا جائے تاکہ اس کا کارنامہ بیک گرائونڈ میں چلا جائے۔ ایک جے آئی ٹی بھی بنی جس میں تمام ایجنسیوں کے لوگ شامل تھے مگر عمران علی کو گرفتار دراصل اسپیشل برانچ کے ایک سب انسپکٹر نے کروایا۔ نون لیگ کے تمام سیاسی مخالفین بھاگم بھاگ قصور پہنچ گئے تاکہ اس کو زچ کیا جائے مگر جونہی مجرم گرفتار ہوا تو ان سب کو سانپ سونگھ گیا۔ پنجاب حکومت کی قابل ستائش کارکردگی کو ڈاکٹر شاہد مسعود نے ایک نیا مگر خوفناک سپن دے کر برباد کرنے کی کوشش کی اور اس جال میں خود بری طرح پھنس گئے ہیں۔ نہ تو ان کے پاس کوئی بین الاقوامی مافیا کا ثبوت ہے جس کا عمران علی ممبر ہے اور نہ ہی اس کے 37بینک اکائونٹ ہیں۔ اس طرح کی انتہائی غیر ذمہ دارانہ بات کی توقع صرف کسی چھاپہ مار اینکر سے ہی کی جاسکتی ہے جس کو صحافت کی اے بی سی کا بھی علم نہیں ہے۔ سونے پہ سہاگہ یہ ہوا کہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ڈاکٹر شاہد مسعود کے پروگرام جس میں انہوں نے ’’انکشافات‘‘ کئے تھے کا نوٹس لے لیا جس کی قطعاً ضرورت نہیں تھی کیونکہ ڈاکٹر صاحب ایسی باتیں کرتے ہی رہتے ہیں جن کا نہ کوئی سر ہوتا ہے نہ پائوں۔ اینکر کیلئے بہترین موقع تھا کہ جب انہیں سپریم کورٹ کے بینچ کے سامنے بلایا گیا تو وہ دوسرے صحافیوں کی بات مان کر فوراً معافی مانگ لیتے کہ انہوں نے جن معلومات پر یہ انکشافات کئے تھے وہ غلط ثابت ہوئی ہیں تو معاملہ وہیں ختم ہوسکتا تھا جس کا چیف جسٹس نے اشارہ بھی دیا تھا۔ تاہم انہوں نے یہ موقع گنوا دیا اور خواہ مخواہ اپنی بات پر ڈٹے رہے۔ اس کے بعد ان کیلئے مشکلات ہی مشکلات ہیں کیونکہ نہ تو ان کے پاس کوئی ثبوت ہے اور نہ ہی کوئی گواہ جس سے وہ اپنی بے پرکی کو ثابت کرسکیں۔ ایف آئی اے کے ڈی جی بشیر میمن کی سربراہی میں تین رکنی انکوائری کمیٹی اب ان کے دعوئوں کی تحقیقات کرکے عدالت عظمیٰ کو رپورٹ پیش کرے گی۔ بشیر میمن اپنی شہرت ، دیانتداری اور پروفیشنل ازم کیلئے بہت مشہور ہیں ان سے کسی قسم کی جانبداری کی توقع کرنا احمقانہ بات ہے۔ ستم ظریفی دیکھیں کہ شاہد مسعود کو بالکل احساس ہی نہیں ہے کہ ان کے دعوئوں کی وجہ سے ملک میں کس قسم کا ہیجان پھیلا اس طرح کوئی بھی ذمہ دار صحافی کبھی بھی نہیں کرسکتا۔

تازہ ترین