• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جرم کی کسی واردات کے بعد مجرموں کو پکڑنے کے لئے دنیا بھر میں پولیس کو جرائم پیشہ افراد کا پیچھا کرتے ہوئے ان کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس دوران اکثر جانیں بھی ضائع ہو جاتی ہیں۔ یہ پولیس یا قانون نافذ کرنے والی کسی بھی فورس کے فرائض کا ناگزیر تقاضا ہے لیکن بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ سہل طلب اورنااہل پولیس افسر ملزموں کی گرفتاری کی مشقت اٹھانے یا تفتیش اور عدالتی عمل کی طوالت سے بچنے کےلئے جعلی مقابلوں کا اہتمام کرتے ہیں جن میں زیادہ تر بے گناہ لوگ مارے جاتے ہیں جس کا کوئی قانونی جواز نہیں، پچھلے دنوں کراچی میں بھی ایسا ہی ایک مقابلہ ہوا جس میں قبائلی علاقے کے ایک نوجوان نقیب اللہ محسود کو پولیس نے دہشت گرد قرار دے کر مار ڈالا جبکہ اس کے دو ساتھیوں کو تشدد کے بعد چھوڑ دیا۔ حقائق سامنے آئے تو پتہ چلا کہ مقتول بے گناہ تھا ملیر پولیس نے جعلی مقابلے کا ڈرامہ رچا کر اس کی جان لے لی۔ مزید تحقیقات سے معلوم ہوا کہ ایس پی ملیر رائو انوار اس طرح کے مقابلوں کے ماہر ہیں اور گزشتہ کئی سال کے دوران درجنوں افراد کو مروا چکے ہیں۔ سندھ حکومت نے انہیں برطرف کرکے گرفتار کرنا چاہا تو وہ روپوش ہو گئے اور بیرون ملک فرار ہونے کی کوشش بھی کی انٹرپول کی مدد بھی طلب کر لی گئی ہے سپریم کورٹ نے واقعے کے از خود نوٹس کی سماعت کے دوران بعض دوسرے احکامات کے علاوہ خفیہ اداروں کو پولیس سے تعاون کا حکم دیا ہے اور رائو انوار سے کہا ہے کہ وہ عدالتی حفاظت میں آجائیں یہ نہ ہو کہ بعد میں کسی کی حفاظت نہ ملے۔ رائو انوار کے لئے خود کو قانون کے حوالے کرنے کا یہ بہترین موقع ہے۔ وہ عدالت عظمیٰ کے سامنے پیش ہو جائیں اگر قصور وار نہیں تو عدالت کو مطمئن کریں، پیش نہیں ہوتے تو یہی سمجھا جائے گا کہ خلق خدا ان کے بارے میں جو کچھ کہتی ہے وہی درست ہے اور یہ ایک سینئر پولیس آفسر کے لئے انتہائی شرمناک بات ہو گی۔ اگر وہ عدالت کے مشورے پرعمل کرتے ہوئے قانون کا سامنا کریں گے تو اس سے پولیس پر عوام کا متزلزل ہوتا ہوا اعتماد بحال ہو گا اور خود ان کی ساکھ بہتر ہوگی۔

تازہ ترین