• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے چند ہفتوں میں سپریم کورٹ آف پاکستان سے آنے والی خبروں کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم ایک بار پھر سے جوڈیشل ایکٹوازم کے دور میں داخل ہو گئے ہیں۔ اس سے قبل جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں پاکستان سپریم کورٹ نے سوموٹو اختیارات کے استعمال کا جو طریقہ کار اپنایا تھا، وہ ان کے بعد آنے والے چیف جسٹس صاحبان کے دور میں کسی حد تک منظر نامے سے غائب ہو گیا تھا۔ شاید چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے ریٹائر ہونے کے بعد سے لے کر اب سے کچھ عرصہ قبل تک سپریم کورٹ کی جانب سے لئے گئے سو موٹو نوٹسز کی تعدادکافی کم رہی۔ اگر اعداد وشمار پر نظر دوڑائی جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بحیثیت ادارہ اس عرصے میں پاکستان کی سپریم کورٹ نے Judicial restraint کا مظاہرہ کرنے کافیصلہ کر لیا تھا۔ بہت سے قانون دانوں کی رائے میں سپریم کورٹ کی جانب سے شعوری طور پر یہ کوشش کی گئی کہ وہ اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے کام کریں تاکہ ان پر ریاست کے دوسرے ستونوں کے کام میں بے جا مداخلت کا کوئی الزام نہ لگ سکے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جب پانامہ کیس میں پہلی مرتبہ پاکستان تحریک انصاف اور دیگر جماعتوں نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تو انہیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا اور ان کی جانب سے دائر کی گئی درخواستوں کو سپریم کورٹ کے رجسٹرار کی جانب سے یہ کہہ کر واپس کر دیا گیا کہ وہ کم وزن ہیں۔
پھر جب عمران خان اور ان کی جماعت نے پانامہ کیس پر کسی قسم کی پیش رفت نہ ہوتے دیکھ کر سڑکوں پر آنے کا فیصلہ کیا توامن و امان کی بگڑتی صورتحال دیکھتے ہوئے سپریم کورٹ نے تمام فریقین کو اپنے پاس بلا لیا۔ شاید یہی وہ موقع تھا جب سپریم کورٹ نے ایک بار پھر جوڈیشل ایکٹوازم کے راستے کو چننے کا فیصلہ کیا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں ایک بنچ قائم کر دیا گیا ،جس نے پانامہ کیس کی سنوائی شروع کر دی۔ واضح رہے کہ یہ تمام درخواستیں وہی تھیں جنہیں پہلی مرتبہ سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے اعتراض لگا کر واپس کر دیا تھا۔ اس عمل سے واضح طور پر یہ پیغام دے دیا گیا کہ سپریم کورٹ نے پچھلے عرصے میں جس Judicial restraint کا مظاہرہ کیا تھا آنے والے دنوں میںوہ دیکھنے کو نہ ملے۔ پانامہ کیس کی سماعت کے دوران معزز جج صاحبان نے متعدد بار دیگر اداروں کی نااہلی اور ناکامی کے بارے میں آبزرویشنز دیں، جن میں سے چند کو بعدازاں تفصیلی فیصلے کا حصہ بھی بنایا گیا۔ اس سب سے یہ تاثر ملا جیسے سپریم کورٹ کے لئے کوئی راستہ ہی نہیں رہ گیا تھا، جب ملک کے دیگر تمام ادارے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام ہو گئے تو پھر ملک کی سب سے بڑی عدالت کو ہی معاملات کا نوٹس لینا پڑا۔
پانامہ کیس کا آغاز ایک سو چوراسی تین کے تحت دائر کی گئی درخواستوں سے ہوا۔ آئین پاکستان میں دئیے گئے اس اختیار کے تحت سپریم کورٹ بنیادی حقوق کے معاملات میں براہ راست مقدمات سننے کا اختیار رکھتی ہے۔ عام مقدمات کے برعکس یہ کیسز سپریم کورٹ آف پاکستان میں شروع ہو کر وہیں ختم ہو جاتے ہیں۔اس لئے جب پانامہ کیس میں اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو ان کے عہدے سے علیحدہ کیا گیاتو بہت سے قانونی حلقوں میں یہ سوال اٹھایا جانے لگا کہ کیا سپریم کورٹ بنیادی حقوق کے مقدمات کی سماعت کے دوران کوئی ایسا فیصلہ دے سکتی ہے کہ جس سے مدعا علیہان کے بنیادی حقوق متاثر ہوتے ہوں؟ قانونی ماہرین اس حوالے سے آئین کے آرٹیکل دس اے کا حوالہ دیتے ہیں، جس کے مطابق ہر شہری کو منصفانہ سماعت کا حق حاصل ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں فیئر ٹرائل کے اصول پر کاربند ہوتے ہوئے عدالتی فیصلوں کے خلاف اپیل کا اختیار بھی دیا جاتا ہے لیکن آئین کے آرٹیکل ایک سو چوراسی تین کے تحت سپریم کورٹ جب کیس کا فیصلہ کرتی ہے تو اس کے خلاف اپیل کرنے کا اختیار نہیں جو کہ نہ صرف انصاف کے عالمی تقاضوں کے خلاف ہے بلکہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل دس اے سے بھی متصادم ہے۔ لیکن چونکہ پانامہ کیس میں عدالتی فیصلہ آنے تک ساری بحث نے ایک سیاسی دنگل کی صورتحال اختیار کر لی تھی اس لئے شاید قانونی ماہرین کی باتوں پر زیادہ کان نہیں دھرے گئے۔ سیاسی طور پرتقسیم وکلا ء کے گروہ بھی اس سلسلے میں اپنی سیاسی وابستگیوں سے ملتی جلتی رائے کا اظہار کرتے رہے اور اس سب میں جو اہم قانونی نکتے اٹھائے گئے وہ کہیں دب کر رہ گئے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ایک سو چوراسی تین کے مقدمات میں اپیل کا حق دینے کے لئے مسلم لیگ ن نے 2016 میں ایک بل پارلیمنٹ میں پیش کیا تھا مگر وہ منظور نہیں ہو سکا۔
سپریم کورٹ کے جوڈیشل ایکٹوازم کے راستے پر دوبارہ چل نکلنے کے بعد ایک بار پھر سے اس بحث کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے کہ آیا سپریم کورٹ کے از خود نوٹسز اور ایک سو چوراسی تین کے تحت سنے گئے مقدمات میں فیصلوں کے خلاف اپیل کا اختیاردیا جانا چاہئے یا نہیں۔ ہم سپریم کورٹ کی اس بات سے بالکل اختلاف نہیں کر سکتے کہ ملک میں موجود بیشتر ادارے اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرنے میں بری طرح سے ناکام ہو چکے ہیں، یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ کو بوتلوں میں بکنے والے پانی سے لے کر نقلی دودھ تک کے حوالے سے از خود نوٹس لینا پڑتا ہے۔ میں بارہا اس بات کا تذکرہ کرچکا ہوں کہ جہاں بھی خلا موجود ہوگا، کوئی نہ کوئی اس خلا کو پر کرنے کے لئے آگے بڑھے گا۔اگرچہ بطور ایک جمہوریت پسند مجھے ان حالات سے تکلیف ہوتی ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جب ریاستی ادارے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کریں گے تو کسی نہ کسی کو تو آگے بڑھنا ہی ہوگا۔ لیکن موجودہ قانون کے تحت جب سپریم کورٹ کسی کو سزا سناتی ہے تو اسے صرف ریویو کا حق دیا جاتا ہے جو کہ عالمی قانونی اصولوں کے بالکل منافی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ پارلیمنٹ سنجیدگی سے اس سلسلے میں غوروفکر کرے اور ایک سو چوراسی تین میں کم از کم اتنی ترمیم ضرور کردے کہ جس کے تحت سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف، سپریم کورٹ کے ہی ایک لارجر بنچ کے سامنے اپیل کرنے کا حق دے دیا جائے۔ اس سے انصاف کے تقاضے بھی پورے ہو جائیں گے اور سپریم کورٹ کی آزادی پر بھی کوئی آنچ نہیں آئے گی۔

تازہ ترین