• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق کینسر وہ مرض ہے جو دس برسوں میں یعنی 2005ء تک آٹھ کروڑ چالیس لاکھ زندگیاں چاٹ گیا۔ مناسب تدابیر برائے تشخیص و علاج مہیا ہوں تو اس میں خاطر خواہ کمی لائی جاسکتی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ کینسر ایسا ہولناک لفظ ہے جس کے سنتے ہی موت کا تصور ذہن میں آجاتا ہے۔ ماہرین صحت اس بات پر متفق ہیں کہ کینسر کی بنیادی وجوہات جینز میں رونما ہونے والے تغیرات ہیں۔ علاوہ ازیں ذخیرہ شدہ اجناس میں پائے جانے والے افلاٹوکسن، تابکاری اثرات، الیکٹرومگنیٹک ویوز، وائرل انفکیشن، فضائی، آبی اور غذائی آلودگی، فوڈ کیمیکلز مثلاً کھانے کے رنگ، جینیاتی طور پر تبدیل کی جانے والی غذائیں، سگریٹ نوشی، شیشہ کا استعمال، زہریلا دھواں اور زرعی ادویات وغیرہ کینسر کا سبب بنتی ہیں۔ وطن عزیز میں بریسٹ کینسر، ہونٹ، حلق، جگر اور پتے کی نالیوں، بڑی آنت، پروسٹیٹ، برین، مثانہ، ہوچکنز، نان ہوچکنز، جلد، اووری، کولون اورپھیپھڑوں کا کینسر عام ہے۔ دنیا بھر کی طرح 4فروری کو پاکستان میں بھی کینسر کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس حوالے سے اعداد و شمار سامنے آئے ہیں کہ پاکستان میں سالانہ تین لاکھ چالیس ہزار افراد اس جان لیوا مرض میں مبتلا ہورہے ہیں۔ کینسر ایک ایسا مرض ہے جو عموماً مکمل پھیلنے تک چھپا رہتا ہے۔ ماہرین نے اسے پاکستان میں اموات کی دوسری بڑی وجہ قرار دیا ہے ۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ کینسر کی جو وجوہات بیان کی گئی ہیں، ان کے بارے میں نہ تو کوئی آگاہی فراہم کی جاتی ہے نہ حفاظتی تدابیر بتائی جاتی ہیں۔ المناک صورتحال یہ ہے کہ اس موذی مرض کے مہنگے اور طویل علاج کا بھی سرکاری سطح پر کوئی مناسب بندوبست نہیں، حکومت کو اس طرف بھرپور توجہ دینی چاہئے تاکہ اس مرض کی راہ روکی جاسکے اور اگر یہ کسی کو لاحق ہو جائے تو اسے علاج معالجے کی بہترین سہولتیں فراہم ہوں۔

تازہ ترین