• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بی جمہوریت تو ویسے بھی کبھی کبھار چکھنے اور سونگھنے کو ملتی رہی ہیں۔ اِس بار پاکستانی پیمانوں پر دورانیہ ذرا لمبا ہوا لگتا ہے، اور وہ بھی بے یقینی اور وسوسوں میں ایسا گھرا ہوا کہ کل کی خبر نہیں۔ صبح شام جمہوریت پر لعنت بھیجنے والے ناشکروں اور ناقدوں کو خبر ہو کہ مملکتِ خداداد میں تو جمہوریت نامی پودا حسب نسب کے اعتبار سے مخلوط النسل ہے اور بے جوڑ اجزا کا ملغوبہ۔ اکانومسٹ کے انٹیلی جنس یونٹ کے جائزے کے مطابق کثرت پسندی (Pluralism) شہری آزادیوں اور سیاسی کلچر کے پیمانوں پر پاکستان کا 167 ممالک میں 111واں نمبر ہے۔ اکانومسٹ نے ان پیمانوں پر مختلف ممالک کو چار طرح کے نظام ہائے حکومت میں تقسیم کیا ہے: بھرپور جمہوریت (Full Democracy) والے ممالک میں ناروے، سویڈن، نیوزی لینڈ، ڈنمارک، کینیڈا، فِن لینڈ اور برطانیہ جیسے 19 ممالک شامل ہیں۔ ناقص جمہوریت (Flawed Democracy) میں امریکہ، جاپان، اٹلی اور فرانس جیسے 57 ممالک ہیں۔ دوغلی یا پیوند زدہ جمہوریت (Hybrid Democracy) میں زمبیا، گوئٹے مالا، ترکی، تھائی لینڈ اور پاکستان جیسے ممالک ہیں جہاں جمہوریت گہنائی ہوئی ہے یا پھر مسخ شدہ حالت میں ہے۔ اور چوتھی قسم آمرانہ (Authoritarian) ہے جس میں روس، مصر، افغانستان، سعودی عرب اور شمالی کوریا جیسے 91 ممالک ہیں۔ اگر مارشل لا ہو تو پاکستان کو چوتھی قسم یعنی آمرانہ نظامِ حکومت والی صفوں میں شامل ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ ہمارے جمہوریت شکن دوست جن کی کمی نہیں اور آج کل ہر طرح کے ہتھیاروں سے لیس میڈیا پر بی جمہوریت پر بلوہ افروز ہیں۔ اور یہ بھولتے ہوئے کہ یہ جیسی کیسی مفلوک الحال جمہوریت کی کشادہ دلی ہے کہ جمہوریت کے خزاں زدہ درخت کی ایک نحیف شاخ پہ بیٹھا میڈیا اُسی شاخ کو کاٹنے پہ اُدھار کھائے بیٹھا ہے۔ اسے کہتے ہیں جس پہ تھا تکیہ وہی پتے ہوا دینے لگے۔ آزادئ اظہار کے ہاتھوں بی جمہوریت کی ایسی مٹی پلید ہوتی کبھی کہیں نظر نہیں آئی کہ میڈیا کا جمہوریت کے رہزنوں کے ہاتھوں اغوا ہو چکا ہے اور جمہوریت کا تقاضا ہے کہ مغویہ کو برآمد کرایا جائے، لیکن اگر مغویہ ہی راہزن کے ساتھ متعہ کر بیٹھے تو اسے کون آزاد کرائے۔
آزاد اور خود مختار عدلیہ کے بغیر جمہوریت اور جمہوری و شہری حقوق کی عملداری کا بھلا کوئی تصور کر سکتا ہے؟ بڑے چاؤ سے ہم نے بی بی عظمی و عالیہ کو آمر کی قید سے آزاد کرایا تھا اور اُمید باندھی تھی کہ وہ شہریوں کی جان اور آزادیوں کی محافظ بنے گی۔ لیکن ’’ممنوعہ علاقے‘‘ میں داخل ہونے پر یہ اپنے پر کیوں جلواتی یا پھر آئین سے دوبار بغاوت کے مرتکب اور عدلیہ کے جیلر کو کیوں کر آئین سے بغاوت کے کٹہرے میں کھڑا کر پاتی۔ بی بی عظمیٰ نے خود مختاری لی بھی تو اپنے اداراتی مفاد میں اور وہ بھی ’’اداروں کے احترام‘‘ کے نام پر۔ آسماں بھی رنگ کیسے کیسے بدلتا ہے۔ پہلے تو 58-2(B) کی تلوار تھی جو صدارتی محل سے پارلیمنٹ اور منتخب حکومتوں پر گرتی تھی اور صدارتی محل کی نادیدہ قوتوں سے مل کر جمہوریت پر شب خون مارنے کا سلسلہ تھما بھی تو بدنامِ زمانہ صدر آصف علی زرداری کے ہاتھوں جنہوں نے اٹھارہویں ترمیم کے ذریعہ آئین سے نہ صرف صدارتی کانٹا نکال باہر کیا بلکہ صوبوں کو صوبائی خودمختاری دینے کے ساتھ ساتھ آمروں کی آئین کے ساتھ کی جانے والی پیوند کاریوں کا کافی حد تک صفایا کر دیا۔ لیکن پھر بھی بھلا ہو ہمارے علمائے کرام کا کہ آمرانہ باقیات کی بہت سی بارودی سرنگیں آئین سے صاف ہونے سے بچی رہ گئیں۔ اور وہ بھی اسلام کے مقدس نام پر۔ نااہلی کی 63 ویں شق کو تو قانون سازوں نے خوب ٹھکانے لگایا۔ البتہ اہلیت سے متعلق 62 ویں شق میں صادق و امین کی شرط پر ہمارے بہت ہی صادق و امین علمائے کرام کیسے سمجھوتہ کر سکتے تھے کہ یہ جنرل ضیاء الحق جیسے صادق و امین مجاہدِ اسلام کا تحفہ تھا۔ اب صادق و امین کون ہے، صرف خدا جانے یا پھر خلقِ خدا۔ ایسے میں عزت مآب چیف جسٹس افتخار چوہدری جب واپس مسندِ انصاف پہ براجمان ہوئے تو اُنہوں نے تکونِ اقتدار کی ایسی تشریح فرمائی کہ مقننہ آئین کی خالق تو تسلیم کی گئی مگر آئین کی بالادستی کے نام پر عدلیہ سپریم قرار پائی کہ آئین کی منشا وہ نہیں جو عوام کی منشا ہے بلکہ وہ جو عدالتِ عظمیٰ قرار دے۔ نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ قبلہ چیف جسٹس افتخار چوہدری عدالتی سرعت پسندی کی راہ پہ ایسے دوڑے کہ انتظامیہ تو انتظامیہ بیچاری مقننہ بھی سر پکڑ کر کونے میں دبک گئی۔ اور بی بی عظمیٰ کا ڈنکا ایسے بجا کہ چند سیکنڈ کے لئے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی توہینِ عدالت میں سزا سے 2008ء کے انتخابات کا عوامی مینڈیٹ فارغ ہوا۔ کیا تو آمروں کے لئے آئین کی حیثیت ردّی کے کاغذ سے زیادہ نہ تھی اور کیا اب آئین کی بالادستی ایسی بڑھی کہ عوام کی منشا اور اللہ تعالیٰ کے اقتدارِ اعلیٰ کے نائب اللہ فی الارض کے ہاتھوں اہتمام کی کُنجی بی بی عظمیٰ لے اُڑیں۔ پھر ہلکا عوامی مینڈیٹ تھا یا بھاری عدالتِ عظمیٰ کے سامنے کہاں ٹھہرنے والا تھا۔ 58-2(b) کی شق ختم ہو کر بھی نئی صورت میں ظہور پذیر ہو گئی اور پے در پے دو وزرائے اعظم گھر کو سدھارے، پہلے توہینِ عدالت کے نام پر اور دوسرے اقامہ کے ہاتھوں صادق و امین کے اوصاف سے محروم ہونے پر۔ اب ایک بار کسی صالح معاشرے میں کوئی صادق امین نہ رہے تو پھر کیسے صادق و امین کے رتبے پر واپس آئے۔ اِس مخمصے کی کنجی بھی خالق کے پاس ہے نہ مخلوق کے ہاتھ میں۔ رب العالمین کے ہاں تو توبہ کے دروازے کھلے ہیں، لیکن دنیاوی لارڈشپس سے کون کہنے کی جسارت کرے کہ حضور آخر انسان خطا کا پتلا ہے، غلطی آپ سے بھی ہو سکتی ہے اور غلطی کا ازالہ بھی ہو سکتا ہے اور غلطی (Omission) کی معافی بھی ہو سکتی ہے۔
ہم ابدی جمہوریت پسندوں کا شکوہ کوئی کیوں سنے جب حقوق کی عالمی تنظیموں کے مطابق پاکستان میں شہری آزادیاں، اور انسانی حقوق بس نام کے ہیں جبکہ حقِ اظہار پر تو ہر طرف سے سنگباری جاری ہے۔ کیسے کیسے ناخدا ہیں جنہوں نے کیسی کیسی غضبناک بندشیں لگا رکھی ہیں اور وہ قانون سے بالاتر ہی نہیں بلکہ آئین و قانون کے پاسبانوں کے صبح شام پرخچے اُڑاتے ہیں۔ یہ جمہوریت بھی کیا شے ہے جو پلک جھپکتے آ سکتی ہے اور نہ صدیوں میں پروان چڑھ پاتی ہے۔ معجزوں اور مسیحاؤں کا انتظار کرنے والے معاشروں میں اتنا صبر کہاں کہ وہ انتظار کے صبر آزما طویل مراحل سے گزریں۔ ویسے بھی جو مروج جمہوریت نما نظام ہمارے ہاں ہے اُس میں عوام کی نمائندگی ڈھونڈنے کو نہیں ملتی۔ بھارتی پارلیمنٹ کی طرح ہماری پارلیمنٹ میں مزدوروں، کسانوں، غریبوں اور عورتوں کے نمائندوں کا تناسب بہت ہی شرمناک ہے۔
پھر جیسے ہماری پارٹیوں کے دربار جلوہ فگن ہوتے ہیں، اُس میں جمہوریت کا شائبہ تک نہیں۔ پھر جمہوری رواداری، برداشت، اختلافِ رائے کا احترام اور عوامی خدمت اور آزاد خیال جمہوری روایات کا نام و نشان بمشکل کہیں دکھائی پڑتا ہے۔ جس طرح حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف ایک دوسرے کو گرانے میں تمام حدیں پھلانگتی ہیں، بھلا وہاں بی جمہوریت کہاں چلنے والی ہے جہاں سکہ طاقت ور آہنی اداروں کا چلتا ہو۔ جس ملک پر ہر طرف سے سلامتی کی تلواریں لٹکی ہوئی ہوں، وہاں عوام کی سلامتی کی فکر کسے ہو۔ کبھی ایک پارٹی جمہوری راستہ لیتی ہے تو دوسری اُس کا راستہ کاٹتی ہے۔ ایسے میں منتخب حکومتوں کو دیوار سے لگانا کیا مشکل ہے۔ جب انتظامیہ کے آہنی اور مخفی بازوؤں کو ابن الوقتوں کی خدمات حاصل کرنا نہایت آسان ہو۔ حالیہ دونوں ادوار میں ہم نے یہی منظر تو دیکھا ہے۔
پاکستان میں غیرجمہوری ادوار اور مارشل لاؤں کا سلسلہ اتنا طویل رہا ہے کہ جمہوریت کی نرسری پھل پھول نہ سکی۔ اور جب آمریتیں میدان سے ہٹتی بھی ہیں تو سُکڑی ہوئی جمہوریتیں جب پاؤں پھیلانے کی کوشش کرتی ہیں تو ہر کوئی اقتدارِ اعلیٰ میں حصے کے لئے رسہ کشی میں ہمہ تن مصروف ہو جاتا ہے۔ سلامتی کے ادارے اپنے پاؤں سکیڑنے پہ مائل نہیں ہوتے، حکومتیں یا انتظامیہ مقننہ کو خاطر میں نہیں لاتے اور عدلیہ اپنے کام سے کام رکھنے کی بجائے مصلح بن کر انتظامیہ کو کونے میں دھکیلنے پہ لگ جاتی ہے۔ اور بالآخر سویلین اداروں، مقننہ، سول انتظامیہ اور میڈیا کی باہم کھٹ پٹ کے نتیجہ میں پھر سے کوئی گھڑ سوار سویلین بونوں کی چھٹی کرا دیتا ہے۔ پھر سے قانونِ ضرورت سے رجوع ہوتا ہے۔ عبوری حلف اُٹھائے جاتے ہیں اور آئین کو ردّی کی ٹوکری میں پھینک دیا جاتا ہے۔ یوں جمہوریت کو دوام ملتا ہے نہ عوام کے مینڈیٹ کوحرمت۔ پھر اُفتادِ زمانہ اتنی بڑھتی ہے کہ پیوند زدہ جمہوریت پھر سے راہِ عدم سدھارتی ہے اور اس کے ساتھ ہی سارے سویلین پاٹے خان بھی ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔ آج کل کا منظر بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ حضرات! ٹھنڈا ٹھنڈا چلیں، اس سے پہلے کہ آپ اپنے ہی زور میں منہ کے بل گریں!

تازہ ترین