• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا مسلمان حکمران وحشی درندے تھے؟ کیا ان کےہاں آرٹ اور کلچر کی کوئی اہمیت نہیں؟ کیا وہ دوسرے مذاہب اور قبائل کی لڑکیوں کی خاطر ان قبائل اور ان کے علاقوں کو تاراج کردیتے تھے؟ یہ ہیں وہ سوال جو ایک تو ’’پدماوت‘‘ جیسی فلموں نے کھڑے کئے ہیں اور دوسرے یورپ میں رہنے والے بعض مفکرین مسلمان حکمرانوں کے بار ےمیں پوچھتے ہیں؟ اس سے پہلے کہ ’’پدماوت‘‘ کاذکرکریں ذرا Chase Robinson کی کتاب کاذکرکرلیتے ہیں جو اس نے اسلام اور Violence کے حوالے سے تشدد پسند مفکرین کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے لکھی ہے۔ چیز رابنسن کے نزدیک مسلمان حکمرانوں کو تشدد اور تشدد کی بنیاد پر اسلامی کلچر کو فروغ دینے کے سوالات بالکل بے سروپا ہیں۔ اس کے مطابق مسلمان حکمران دوسرے مذاہب کے حکمرانوں کی نسبت بہت کم متشدد ہیں، وہ آرٹ اور کلچرسے محبت کرنے والے ہیں اور ان کے ہاں آرٹ اور کلچر سے محبت کے ذریعے اپنے مذہب کافروغ اپنے اس نبیﷺ کے دَم سے ہے جس نے ساتویں صدی عیسوی میں عرب کے صحرائوں میں اسلام کی بنیاد ڈالی۔ اسلامی حکمرانوں میں جنگجو صلاحیتیں بھی ہیں لیکن Chaseکے نزدیک یہ صلاحیتیں ان کی آرٹ اور کلچر کے ساتھ محبت کے سامنے دوسرے درجے کی ہیں۔ یہ یروشلم کا عظیم الشان ڈوم (Dome)ہو، جس کے بنانےوالے کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ وہ ایک مکھی بھی نہیں مارسکتا یا ہندوستان کو ختم کرنے والے محمودغزنوی کا ذکر جس کے بارے میں ہندو مورخین یہ ثابت کرنے پرتلے ہیں کہ اس نے ہندو مندروں خاص طور پر سومنات کو برباد کردیا لیکن Chase کےبقول شمالی ہندوستان میں اسی محمودغزنوی نے باغات کی بنیاد ڈالی اور اس کے بعد سےلےکر مغل سلاطین تک یہ باغات مسلم حکمرانوں کاخاص وصف رہے۔ اس طرح کا خاص ذکر عثمانی دورکےترک سلطان محمود دوم کا ہے، جس کو مسلمانوں کے حوالے سے نشاۃ ثانیہ کا بانی قرار دیاجاتاہے۔ سلطان محمود دوم نے جو مساجد بنوائیں، جس طرح سے ترک شہروں کو جہالت کے اندھیروں سے دورکرنے کے لئے اصلاحات کیں، وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ اس کے دور میں فزکس کے ساتھ ساتھ دوسرے سائنسی علوم اور خطاطی کے ایسے ایسے فن پارے وجود میں آئے جن کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ سلاطین کے ان ادوار میں جہاں آرٹسٹ ہیں وہاں سائنس دان بھی ہیں، بزنس مین بھی ہیں اور تاجر بھی اور پھر ان میں مردوں کے شانہ بشانہ خواتین صوفی اوراسکالرز بھی ہیں۔ مسلمانوں کی یہ تہذیب ہر لحاظ سے دوسرے مذاہب اور تہذیبوں کے لئے مثال ہے۔اگر ہم یہاں سے ہٹ کر اس تہذیب کا ذکر کریں جومسلمان حکمرانوں نے اسپین میں قائم کی اور جس کے تحت ایک طرف تو سائنسی تجربہ گاہیں بنیں وہیں مسلم یونیورسٹی غرناطہ وجودمیں آئی اور یہ اسی یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طلبا فرانسس بیکن اور راجر بیکن کی بدولت تھاکہ یورپ میں نشاۃ ثانیہ برپا ہوئی۔ آج کے یورپ کی ترقی کے پیچھے مسلمان سلاطین کے درخشاں کام ہیں۔
راجر بیکن اور فرانسس بیکن کی طرح Thomas Aquinas کا بھی ذکر ہو جائے جو ابن رُشد سے بے حد متاثر ہوا۔ وہی ابن رُشد جنہوں نے 12ویں صدی میں Aristotle کے فلسفے کا دفاع کیا۔ ابن رُشد کی طرح بے شمار مذہبی اورسائنسی اسکالرز ہیں جن کا ذکر جہاں اس کتاب میں ملتاہے وہیں علامہ اقبال کی مشہور کتاب ’’چھ لیکچرز‘‘ میں بھی ملتاہے۔
ہندوستان میں بھی ان سلاطین کے زیراثر بہت بڑے بڑے کارنامے ایسے ہیں جن کی بنیاد پر ہندوستان میں آرٹ اور کلچر کے بڑے شاہکار بنے۔ ان بڑے ناموں میں ایک نام امیرخسرو کا بھی ہے۔ ہندوستان میں آرٹ، ادب اور کلچر کے حوالے سے یہ ایک بڑا نام ہے اور یہ نام بھی اگر اس دور کے سلاطین کی سرپرستی نہ ہوتی تواتنا بڑا نام نہ بنتا۔ اس میں سلطان بلبن کا ذکر خاص طور پرشامل ہے جس نے ایک طرف تو منگولوں کے حملے روکے اور انہیں ہندوستان کو تاراج نہیں کرنے دیا، وہیں امیر خسرو ایسے شعرا اورمیوزک کے حوالے سے اختراعیں کرنے والے دانشور کی سرپرستی کی۔ اگر امیر خسرو نہ ہوتے تو پھر ہم قوالی اور طبلہ ایسے سازوں سے ہی محروم نہ رہ جاتے بلکہ شاید اردو زبان بھی اس طرح فروغ نہ پاتی۔
اب ذکر ہو جائے ذرا ’’پدماوت‘‘ اور خلجی کا۔ آخر سلطان خلجی جس نے 1296سے لے کر 1316تک حکومت کی، ہندو مہا سبھائیوں کو اتنا برا کیوں لگتا ہے۔ وہ ایک خوبصورت آدمی تھا۔ اس نے ہندوستان میں سلاطین کی حکومت کو بڑھانے میں کافی کارنامے سرانجام دیئے۔ انہی کارناموں میں آرٹ اور کلچر کے فروغ کا بھی ذکرہے۔ ہندوستان کے عوام کو تازہ پانی مہیا کرنے اور خوبصورت قلعے بنانے کا بھی تذکرہ ہے۔ وہ بدصورت نہیں تھا نہ ہی وہ کشتی کاشوقین اور کچا گوشت کھانے والا درندہ۔ اس کے ہاں لطافت بھی تھی اور ایک عرصے سے سلاطین کی حکومت بڑھنے کے ساتھ ترک روایات کے آداب بھی۔ اس کو ایک وحشی درندہ بنا کر پیش کرنے کاواحد مقصد ہندوستان میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی کو فروغ دیناہے۔ اس حوالےسے نہ صرف مسلمان بلکہ بہت سے دوسرے تاریخ دانوں نے بھی ذکر کیا ہے کہ ’’پدماوت‘‘ میں خلجی کا کردار حقیقت پرمبنی نہیں ہے۔ ایسے میں سوال یہی اٹھتاہے کہ آخراس کے بنانے والے کیا چاہتے تھے؟ یہ تو ضرورہے کہ ہر فلم ساز یقیناً یہ چاہے گا کہ وہ پیسہ کمائے اور اس کےساتھ ساتھ وہ آرٹ کی خدمت کابھی دعویٰ کرتاہے۔ اس طرح کے دعوے سنجے لیلا بھنسالی کے بھی ہیں لیکن افسوس وہ بھی ہندوستان میں فروغ پاتی شدت پسندی کے سامنے بچھ گیا۔اس نے پیسے تو ضرور کمالئے مگر آرٹ کی کوئی خدمت نہیں کی۔

تازہ ترین