• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانے والوں کو بنیاد بنا کراُن پانچ ججوں کو دشنام نہیں دیا جاسکتا جنہوں نے حاکمِ وقت کے خلاف فیصلہ دے کر اپنا نام تاریخ کے ماتھے پر سنہرے حروف میں لکھوا لیا ہے ۔دھن دولت کے زور پر کوئی کتنی دیر صاحب ِ عزت رہ سکتا ہے ۔فیصلہ سنانے والے ،چوروں کی عزتِ نفس کا کیسے خیال رکھ سکتے ہیں ۔جنہیں سزا سنا دی گئی ہے وہ کیسے اپنے مقدمے پر کوئی کمیشن بنانے کی تجویز دے سکتے ہیں ۔بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو تسلیم کر لیتے ہیں کہ مجھے درست سزاملی ہے ۔
کہتے ہیں بچھو میں زہر جتنا بھر جائے وہ بچھو کو ڈنگ نہیں مارتامگر افسوس کہ پارٹی کے اپنےلوگوں کا بدن نیلا ہورہاہے ۔بلوچستان جاتا ہے تو جانے دو ۔سندھ زرداریوں کی شکارگاہ بنتا ہے تو بننے دو ۔خیبرپختون خوا کےلئے اچکزئی کا خواب شرمندہ ء تعبیر ہوتا ہے تو ہونے دو ۔کسی نے ’’عظیم پنجاب ‘‘کی عظمت کے گُن گاتے رہنا ہے ۔بھارتی پنجاب کےلئے محبت کے پھول بکھیرتے رہنا ہے ۔امرتسر سے باقاعدہ اسٹیل درآمد کرتے رہنا ہے ۔طائفوں کے تحفے بھیجتے رہنا ہے ۔تجارتی روابط بڑھاتے رہنا ہے ۔ مجھے یاد آرہا ہے جب لاہور کے ایک مشاعرے میں مہمان خصوصی انڈیا سے آیا ہوا ایک شاعر تھا اور میں نے کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی کے حوالے سے نظم پڑھی تو دور دورتک دھواں اٹھا تھا ۔یہاں تک کہا گیا تھاکہ منصور آفاق کو اس تقریب میں بلانے کی ضرورت ہی کیا تھی ۔ہندوستانی پنجاب سے انتہائی دوستانہ اور ہمدردانہ تعلقات کے پس منظر میں کیسی کیسی خواہشوں کے تازیانے ہیں جو نظریہ پاکستان کے بدن کو زخم زخم کرتے چلے جارہے ہیں ۔اُن کےلئے نریندر مودی کے سینے میں رکھا ہوا دل کیوں نہیں دھڑکے تو اور کس کا دھڑکے جنہوں نے شیخ مجیب الرحمن کے نقشِ کف ِ پا پر چلتے ہوئے کسی نئی تقسیم کا خواب دیکھ لیا ہے ۔
کہا گیا ہےکہ عدلیہ آمروں کے ساتھ ہے ۔انصاف کے لیے ٹھوکریں کھاتی خلق ِخدا تھک گئی ہے۔پتہ نہیں آج کل ’’آمر‘‘ کون ہے ۔ اداروں کے جسم کوزبان کی تلوار نت نئے گھائو سے آشنا کرتی چلی جارہی ہے ۔نہال کی آواز کے سائے تو اڈیالہ جیل تک پہنچ گئے ہیں۔وہ گیت جو سینیٹ کے ایوانوں میں گونجتے تھے ۔جیل کی کوٹھڑیوں میں گونج رہے ہیں جنہیں مسرتوں کی کمک دینے کےلئے نہال نے بلند آہنگ الاپ دیا تھا۔سنا ہے وہ اِس پر بھی خوش ہیں ۔اپنے اپنےمقاصد کی بات ہے ۔ان کے نزدیک نہال ابن رُشد اورمنصور حلاج بن گیا ہے ۔ دوسری طرف طلال کا شور وغوغا بھی سُن لیا گیا ہے ۔اس کی خوش بختی بھی جاگ پڑی ہے ۔ کوٹ لکھپت جیل میں صفائی شروع کرا دی گئی ہے ۔جاتی امرا کے کمرہ امتحان میں اُس کے نمبر یک لخت بڑھا دئیے گئے ہیں۔ امید ہے دوچار دنوں میں اسے بھی نون لیگ سقراط و سرمد کے مقام پر فائز کردے گی ۔دانیال کی مشرف بہ نوازبڑ بڑاہٹ بھی انجام کو پہنچنے والی ہے ۔آشیانے کے قیمتی تنکوں کا حساب کتاب جاری ہے ۔یہ وہی آشیانہ ہے جہاں سے سونے کے انڈے برآمد ہوتے تھے ۔بولتی کا جن بوتل میں بند ہونے والا ہے ۔(وہ لوگ جن کا یہ خیال ہے کہ نہال کمزور اور غریب آدمی تھا اسے اس لئے سزا دی گئی ہے انہیں یادرکھنا چاہئے کہ اس معاملے میںپہلی سزاسب سے بڑے اور سب سے امیر آدمی کودی گئی تھی)۔
جس حرفِ نون کی حکومت ہے وہی کہہ رہا ہے کہ حکومت مفلوج ہو چکی ہے ۔ طلال چوہدری کے دوست کوواپڈا میں ایک بڑا عہدہ نہیں مل سکا ۔حرفِ نون کی بازگشت پر وزیر اعظم نے توجہ ہی نہیں دی ۔ پی ٹی وی کے ایم ڈی اور ڈی ایم ڈی کے خلاف جاری شدہ احکام بھی فضا میں اڑا دئیے گئے ۔ایسے اور بھی کئی حکم گلی کوچوںمیں رسوا ہو کر رہ گئے ہیں ۔واقعی نون کی حکومت مفلوج ہو چکی ہے البتہ ملک پر عباسیوں کا راج ضرور ہے ۔وزیراعظم ہائوس پر تو پہلے دن عباسیوں کا قبضہ ہو گیا تھا کہ مریم نواز خواہش کے باوجود وہاں قیام نہیں کر سکی تھیں۔
عطاالحق قاسمی کی بحیثیت چیئرمین تقرری پر پرویز رشید اور فواد حسن کو بھی نوٹس جاری کر دئیے ہیں ۔صدیق الفاروق کی فراغت کا حکم بھی سنایا جا چکا ہے ۔پیمرا کے چیئرمین کو بھی گھر بھیجا جا چکا ہے ۔اٹھائیس فروری تک وہ ڈیڈ لائن جو پانامہ کیس کے فیصلے میں دی گئی تھی پوری ہونے والی ہے ۔
یعنی بہت سے مقدمات کا فیصلہ سنایا جانے والا ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ فیصلہ کیا آتا ہے ۔ کیا نواز شریف کو سزا سنائی جائے گی ۔کیا مریم نواز بھی باپ کے کئےدھرے کی لپیٹ میں آ جائیں گی ۔لگ رہا ہے کہ ایسا ہی کچھ ہونے والا ہے ۔شہر میں ’’ہما ‘‘ اڑتا پھر رہا ہے ۔ شہباز شریف کے کندھے پر بیٹھنے کی خبریں بھی بہت زور و شور سے پھیلائی جارہی ہیں مگر’’ہما‘‘ کی پرواز جاتی امرا کی طرف جاتی دکھائی نہیں دے رہی۔ وہ مسلسل بنی گالا کی فضائوں میں چکر کاٹ رہا ہے۔ شاید اسے عمران خان کی تلاش ہے ۔اگر چہ عمران خان سے بھی خیبرپختون خوا کے سرکاری ہیلی کاپٹر میں بیٹھنے کا کرایہ طلب کر لیا گیا ہے مگر میری اطلاع کے مطابق اُس ہیلی کاپٹر میں عمران خان وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے بغیر کبھی سوار نہیں ہوئے ۔کرایہ دینے والے کو ہمیشہ ساتھ رکھا ہے ۔اس لئے اُس معاملے میں کچھ ہوتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا ۔مجھے یاد ہے کہ جب محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت تھی اور آصف علی زرداری وزیر نہیں ہوا کرتےتھے تو وہ سرکاری جہاز کے استعمال کے وقت اپنے ساتھ کسی فل وفاقی وزیر کو لے کر نواب شاہ جاتے تھے تاکہ کوئی قانونی پیچیدگی پیدا نہ ہو۔

تازہ ترین