• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کل ایک درندے نے دوسرے درندے سے کہا تمہیں پتہ ہے کہ ایک ایسا شہر اور ملک ہے جہاں انسان ہم درندوں سے بھی زیادہ ظالم ہیں ان کی درندگی ایسی خوفناک ہے کہ ہم درندے ان کے سامنے کچھ بھی نہیں یہ درندے اپنی ہی معصوم بچیوں کو اٹھا لیتے ہیں۔ ان سے جسمانی زیادتی کرتے ہیں اور پھر انہیں قتل کر دیتے ہیں ملک میں برس ہا برس سے یہ کھیل جاری ہے۔ پہلے درندے نے دوسرے درندے سے کہا کہ کبھی بھول کر بھی کسی انسانی بستی کے قریب نہ جانا کیونکہ درندگی ہم میں کم ہوگئی ہے اور انسانوں میں بڑھ گئی ہے۔
اس درندے نے بالکل سچ کہا آج کا انسان درندوں سے بھی زیادہ خطرناک، ظالم اور سفاک ہو چکا ہے۔ جنگلوں میں رہنے والے درندے کم ہوگئے ہیں ان کی درندگی کم ہوگئی ہے۔ انسان جو خود کو تہذیب یافتہ اور پڑھا لکھا کہتا ہے ایسی ایسی درندگی اس کے اندر ہے کہ بیان سے باہر۔جانور بھی اپنے چھوٹے جانوروں کے ساتھ ایسا غیر اخلاقی فعل نہ کریں مگر یہاں تو ہر قدر ختم ہوگئی یہاں ہر اصول توڑ دیا گیا، بستیاں آباد ہوتی جا رہی ہیں، خوبصورت بنگلے بنتے جا رہے ہیں، ذہن گندگی سے بھرے ہوئے اور سفاکی میں درندوں سے کہیں آگےہیں۔کتنی تلخ حقیقت ہے کہ انسانی درندوں کو پکڑنے کے لئے پولیس کا عملہ بنایا گیا مگر درندے وہاں بھی پیدا ہوگئے جو ماورائے عدالت اور جعلی پولیس مقابلوں میں اب تک ہزاروں افراد کو مار چکے ہیں۔ کراچی کا رائو انوار کس ڈھٹائی اور فخر سے اپنے پولیس مقابلوں کا ذکر نجی محفلوں میں کرتا رہا۔ کوئی کہتا ہے کہ اس نے 444افراد کو مارا۔ کوئی کہتا ہے کہ اس نے 250افراد کو مارا، تعداد کچھ بھی ہو۔ سوال یہ ہے کہ اس درندے نے ایک بھی انسان کیوں مارا؟ اسے مارنے کا حق کس نے دیا تھا؟ ہر روز کسی نہ کسی شہر اور گائوں میں پولیس کے روپ میں موجود بعض درندوں کے خلاف مجبور اور بے بس لوگ مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ درندے وردی کا بھی پاس نہیں رکھتے ۔ وہ وردی جس پر محافظ کا بلا لگا ہوتا ہے یہ کیسے محافظ ہیں جو خود بے گناہ افراد کو ماررہےہیں۔
ایک قصور کی زینب ہی نہیں درندوں کے ہاتھوں جنسی تشدد، استحصال اور ظلم و ستم کا شکار ہو کر مار دی گئی ہر روز ایک زینب انسانی بھیڑیوں اور درندوں کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔مردان میں چار سالہ اسماء کے ساتھ زیادتی اور قتل کرنے والے درندے آج بیس روز گزر جانے کے باوجود گرفتار نہ ہو سکے۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کو ازخود نوٹس لینا پڑا۔ چیف جسٹس نے پولیس کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے اور ریمارکس دیئے ہیں کہ کمسن اسماء کے قتل کے ملزم گرفتار نہ ہونا سنگین کوتاہی اور کے پی کے پولیس کی نااہلی ہے۔دوسری جانب تاحال کوہاٹ میں میڈیکل کی طالبہ عاصمہ کے بہیمانہ قتل کے ملزم بھی گرفتار نہیں ہوئے۔ پنجاب کے ایک وزیر نے کہا کہ اگر کوہاٹ کی طالبہ پنجاب میں قتل ہوتی توہم قاتلوں کو کب کا پکڑ کر سخت ترین سزا دے چکے ہوتے۔ وزیر موصوف آپ نے زینب کے کیس میں اور دیگر جنسی تشدد کے کیسوں میں اب تک کتنے افراد کو سخت ترین سزا دلائی ہے؟ یہ تو فرمائیں۔ ہمارا معاشرہ درندگی کی ایک عجیب و غریب مثال بنتا جا رہا ہے۔ اب تو یہ لگتا ہے کہ انسانی بھیڑیوں اور درندوں کی بستیاں آباد ہوتی جا رہی ہیں اور اب جنگلوں میں درندے اور بھیڑیئے نہیں رہتے بلکہ درندوں اور بھیڑیوں نے انسانی روپ دھار لیا ہے۔آج کیا ہمارے ملک کی کوئی گلی، بازار، شہر محفوظ ہے؟ جہاں کوئی چھوٹی بچی اور بچہ اکیلے اپنے گھر محفوظ طریقے سے پہنچ سکے؟ کیا دور اور زمانہ تھا جب کسی کا بچہ /بچی گم ہوتا / ہوتی تھی تو پورا شہر ہی ڈھونڈنے چل پڑتا تھا۔ آج بے حسی کا یہ عالم ہے کہ صرف ایک دو روز لوگ احتجاج اور مظاہر ے کرتے ہیں پھر جیسے پورے شہر کو سانپ سونگھ گیا ہو، ہر طرف خاموشی چھا جاتی ہے۔ہمیں یاد ہے کہ جب پپو کیس کے مجرموں کو لاہور میں شادمان کالونی کی کھلی سڑک پر کیمپ جیل کے نزدیک پھانسی دی گئی تھی تو مدتوں تک انسانی درندوں پر اس کا اثر رہا تھا۔ اس کے بعد پھر معاشرہ آہستہ آہستہ اپنی ڈگر پر آگیا۔کبھی پاکستان کے قوانین میں سرعام سزا کا تصور تھا۔ ویسے اسلام میں بھی سرعام سزا دینے کا حکم ہے۔ اب 2002ء کے بعد قانون میں تبدیلی کر دی گئی ، اب سرعام سزا کا کوئی ذکر نہیں۔
مختلف اخباری رپورٹوں کے مطابق پاکستان میں گزشتہ 7برسوں میں ساڑھے بائیس ہزار بچوں کے ساتھ جسمانی زیادتی کی گئی۔ صرف 2016ء میں چار ہزار سے زیادہ جسمانی زیادتی کے واقعات ہوئے تھے۔ عزیز قارئین! یہ کیسز تو وہ ہیں جو رپورٹ ہوئے، بیشمار ایسے کیسز ہیں جن کی رپورٹ نہیں کرائی گئی۔ اگر جنسی تشدد، استحصال اور زیادتی کے کیس یونہی ہوتے رہے اور بڑھتے چلے گئے تو یہ معاشرہ واقعی اپنے اختتام کو پہنچ جائے گا۔جہاں صرف درندوں اور بھیڑیوں کا راج ہوگا۔ اگلے روز ہماری ملاقات جناح اسپتال، علامہ اقبال میڈیکل کالج لاہور کے شعبہ نفسیات کے سابق چیئرمین اور MIND کے سربراہ اور ملک کے معروف ماہر نفسیات پروفیسر ڈاکٹر سعد بشیر ملک سے ہوئی۔ انہوں نے انسانی نفسیات کے حوالے سے ذہنی مریضوں کے جو واقعات بیان کئے وہ ناقابل یقین ہیں کہ ایک انسان درندگی کی اس سطح تک جا سکتا ہے کہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے، یہ ذہنی مریض اس طرح اذیت دیتے ہیں کہ کیا بیان کریں۔
انسانی درندو اور بھیڑیو، ڈرو اس وقت سے جب تمہارے بچوں اور بچیوں کے ساتھ بھی کوئی یہ کھیل کھیلنا شروع نہ کر دے۔ آخر کب ظلم و ستم کی یہ سیاہ رات ختم ہوگی؟قیام پاکستان کے وقت ہجرت کے دوران 80ہزار مسلمان عورتوں کو سکھ اٹھا کر لے گئے تھے جن کا آج تک پتہ نہیں چل سکا، سکھ تو غیرمسلم تھے اور تحریک آزادی کے دنوں میں ان سے اس قسم کے فعل کی توقع تھی۔ اب کیا مسئلہ ہے؟ اپنا ملک بن چکا ہے اگر اس میں بھی بچیوں کو تحفظ نہ ملا تو کہیں لوگ بچیوں کو پیدا ہوتے ہی مار نہ دیں۔ حالانکہ ایسے واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں۔ ملک میں ان بھیڑیوں سے بچانے کیلئے پولیس اس قدر کمزور کیس تیار کرتی ہے کہ عدالتی نظام کی کمزوری کے باعث وہ صرف چند ماہ میں رہا ہو جاتے ہیں۔ گواہ، شہادتیں اور پتہ نہیں کون کونسے ثبوت عدالت مانگتی ہے اور پولیس ہر ثبوت کو غائب کردیتی ہے اور بے گناہ افراد کے خلاف ثبوت بنانے میں مہارت رکھتی ہے۔ جنسی جرائم میں اضافہ پولیس کی کمزوری، معاشرے میںاقدار کی تنزلی ، علماء کرام، اساتذہ اور والدین کا اپنی ذمہ داریوں سے چشم پوشی ہے۔ تعلیمی اداروں میں ان واقعات کے بارے میں آگاہی دی جائے تاکہ بچے اور بچیاں خود کو بچا سکیں۔ پھر پہلے درندے کی اتنی لمبی چوڑی باتیں سن کر دوسرے درندے نے کہا آئو ہم کسی انسانی بستی میں چلتے ہیں اور انسانوں سے فریاد کرتے ہیں کہ وہ اپنی بچیوں کے ساتھ اس قسم کا استحصال، تشدد اور زیادتی نہ کریں۔ چلتے چلتے دوسرے درندے نے کہا کہ یار ہم تو ان پڑھ جاہل ہیں، زندگی نہ موت اور ہم بے لباس رہتے ہیں مگر حضرت انسان تو تہذیب یافتہ ہے عقل اور سمجھ بھی ہے پھر بھی یہ حوا کی بیٹی کو بے لباس کرنے اور اس کی حرمت کو خراب کرنے پر کیوں تلا ہوا ہے اور کب تک یہ بے شرمی کا کھیل کھیلتا رہے گا۔

تازہ ترین