• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کل ملک عجیب ہذیانی کیفیت سے گزر رہا ہے۔ ہر نئی صبح اس مملکت خداداد کے مظلوم عوام ایک نئی کہانی سنتے ہیں ۔ صرف منہ سے اُف نکلتا ہے ۔ 20کروڑ آبادی والے ملک کی انوکھی اور اکلوتی داستان کا سلسلہ کہاں سے جوڑوں ہماری پولیس گزشتہ ایک چوتھائی صدی سے کھلم کھلا جس کو چاہتی ہے ماورائے عدالت دوڑ اکر قتل کرڈالتی ہے ۔آج تک ایک بھی پولیس والے کو عدالت میں نہ طلب کیا گیا اور نہ سزا ہوئی ۔صرف کراچی میں 250سے زائد ملزمان اپنی جان سے ہاتھ دھوچکے ہیں ،یہ کارنامہ بھی صرف ایک منہ زور پولیس افسر رائو انوار سے منسوب ہے ۔جس سے خود اُس ہی کے افسران بالا ڈرتے ہیں اگرچہ ابھی تک اُس کے سہولت کار سامنے نہیں آئے ہر کوئی اپنا دامن بچاکر خود کو نردوش ثابت کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ جس طرح ماضی میں عذیربلوچ پر بُرا وقت آیاتو سب سے طویل المد ت وزیراعلیٰ سندھ محترم سید قائم علی شاہ نے اپنے تعلق کی تردید کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ کون عذیر بلوچ میں تو اُس کو جانتا بھی نہیں ہوں مگر ہمارا میڈیا بھی بہت ہوشیار اور چالاک ہے دوسرے ہی دن تمام اخباروں میں وزیر اعلیٰ کے ساتھ عذیر بلوچ کی دعوت میں مختلف پوز کے ساتھ تصاویر شائع ہوئیں۔ جس میں وہ خود مہمان خصوصی تھے خیر چھوڑیں رائو انوار کے قصے کی طرف آتے ہیں۔ نقیب اللہ محسود کا قصہ بھی دب جاتا اگر اُس کی قوم میں جرگہ بلانے کا رواج نہ ہوتا ۔مگر ابھی تک رائو انوار مفرور ہے اور مختلف سمت سے نئی نئی کہانیاں سننے کو مل رہی ہیں روپوش اور دبئی فرار ہونے کی خبریں نمایاں ہیں ۔
دوسری اہم خبروں میں تمام صوبوں میں کمسن بچوں کے ساتھ زبردستی اور قتل کی وارداتوں میں اضافہ کافی تشویش ناک حد تک بڑھ چکا ہے ۔قصور سے تعلق رکھنے والی معصوم بچی زینب کے علاوہ درجن بھر بچیوں کے ساتھ زیادتیاں قوم کو ہلا گئیں پھر عدلیہ نے مداخلت کی۔خادم اعلیٰ پھر دوبارہ ہل گئے، ماڈل ٹائون کا سانحہ پھراُبھرکر آیا کیونکہ خود ڈاکٹر طاہر القادری بنفس نفیس نہ صرف لاہور میں سیاسی دنگل لگانے میں کامیاب ہوئے اس سے بھی بڑھ کر قصور پہنچ کر معصوم بچی کی نماز جنازہ بھی پڑھائی ۔قوم نے دیکھا پولیس نے چابک دستی سے صرف ایک ملزم عمران کو پکڑ کر معاملہ دبانے کی کوشش کی تو ہمارے ایک مشہور اینکر نے جو غیر معمولی انکشافات کے لئے مشہور ہیں۔ از خود ٹی وی پرآکر جہاں کے وہ تنخواہ دار ہیں انکشاف کیاکہ یہ ملزم عمران کوئی معمولی آدمی نہیں ہے یہ ارب کھرب پتی ہے۔ اس کا مکمل گینگ ہے 37 بینک اکائونٹس ہیں ۔اس گینگ میں ایک مرکزی وزیر (نام نہیں بتایا)وہ سرپرستی کررہاہے وغیر ہ وغیرہ ۔جب چیف جسٹس صاحب نے اُن کو عدالت میں طلب کرکے ثبوت مانگے تو آئیں بائیں شائیں کرنے لگے مگر جب جج صاحبان نے ثبوتوں پر اصرار کیا تو بھاگنے کے لئے راستہ ڈھونڈا ۔اور مزید 90دن کا وقت طلب کیا ۔عدالت نے اتنا وقت دینے سے انکار کیا اور کہا کہ اگر معافی مانگ لیں تو معافی مل سکتی ہے۔اُس وقت عدالت میں مزید اینکرز بھی موجود تھے انہوں نے بھی اُن کو سمجھایا کہ ابھی بھی وقت ہے معافی مانگ کر جان چھڑائو مگر انہوں نے معافی مانگنے سے انکار کردیا تو عدالت نے ثبوت پیش کرنے کے لئے ایک ہفتے کا ٹائم دے دیا ۔دیکھتے ہیں کہ وہ کہاں سے ثبوت لائینگے ۔میری چیف جسٹس صاحب سے گزارش ہے کہ اگر اینکر ثبوت نہ لا سکیں تو اِن کو بھی سزا دی جائے تاکہ آئندہ کوئی جھوٹی خبریں نہ دے سکے ۔عدلیہ نے تہیہ کررکھا ہے کہ وہ کمسن بچیوں کے قتل کا معمہ حل کرکے رہیں گے۔ اگر ان مجرموں کو عبرت ناک سزائیں نہ ملیں تو وہ منہ زوری دکھائیں گے ۔جیسے خود وزیراعظم کے گائوں کی ایک معصوم لڑکی سےگینگ ریپ کا واقعہ سامنے آچکا ہے۔ تاحال نہ ایف آئی آڑ کٹی اور ملزمان جو نامزد ہیں تاحال گائوں میں دندناتے پھر رہے ہیں ۔ایران میں ایسے ہی کیس میں کمسن بچے کے قاتل کو سرعام سزائے موت دی گئی جس کو تہران کے بھرے بازار میں لاکر پھانسی پر لٹکایا گیا ۔سعودی عرب میں ایسے مجرموں کو نماز جمعہ کے بعد چوک پر لٹکایا جاتا ہے جو عبرت کا باعث ہوتا ہے ۔آج سے 40سال قبل مرحوم شاہ فیصل سےدورہ امریکہ میں ایک مشہور یونیورسٹی میں ایک پروفیسر نے سوال کیاکہ سعودی عرب میں سزائے موت کیوں ہے جبکہ امریکہ جیسے مہذب ملک میں قتل کے بدلے قید کی سزا ہوتی ہے ۔اس کے جواب میں مرحوم شاہ فیصل نے 2دلائل دیئے پہلا آپ کا قانون مظلوم کو انصاف دینے کے بجائے ظالم کو بچانے کے بہانے ڈھونڈتاہے۔ اور صرف ایک کمزور دلیل پر رہا کردیتاہے جس کی وجہ سے صرف نیویارک میں ہر سال 10ہزار سے زیادہ بچیوں اور خواتین کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے اور ملزم چند سال گزار کر رہا ہوجاتا ہے انہوں نے بتایا کہ صرف نیویار ک میں 8ہزار سے زیادہ اُس سال قتل ہوچکے ہیں۔ جواب میں 5ہزار کے قریب افراد پکڑے گئے جن کو 14سال کی سزا ہوئی جو کٹ کر آدھے رہ جائے گی۔بتایا جائے مقتول کو کہاں انصاف ملا جبکہ نیویار ک سے 5گنا بڑے ملک سعودی عرب میں پورے سال میں 10قتل ہوئے ہم نے ان 10قاتلوں کو چند ہفتوں میں مجرم ثابت کرکے ان کے سر قلم کردیئے ایک طرف مقتول خاندان کو انصاف مل گیا تو دوسری طرف کروڑوں افراد کو سبق مل گیا کہ قاتل بچ نہیں سکتا اور قتل کرنے سے پہلے 100دفعہ سوچے گیا ۔بتائیں صرف 10افراد کی قربانی دے کر ہم نے کروڑوں افراد کو تحفظ فراہم کرکے مثال قائم کردی ہے ۔آپ کا مہذب معاشرہ 5ہزار افراد کو سزائیں دے کر بھی تحفظ فراہم نہ کرسکا تو ظالم آپ ہوئے یا ہم ۔جبکہ حال ہی میں امریکہ میں ایک شخص جو اولمپکس جمناسٹک ایتھلیٹ کی لڑکیوں کو ٹریننگ دیتا تھاا نکشاف ہوا کہ وہ 30سال سے 60سے زیادہ لڑکیوں کے ساتھ زیادتی کرچکا ہے ۔پچھلے سال ایک لڑکی نے عدالت میں آکر انکشاف کیا کہ اُس کے ساتھ 20سال سے زیادتی ہوتی رہی ہے اُس استاد کا نام Larry Nassarہے اُس کے انکشاف کے بعد جب یہ خبر اخبارات میں پھیلی کہ قومی جمناسٹک اتیھلیٹ کا انچار ج یہ حرکت کرتا رہا ہے تو 60لڑکیوںنے عدالت میں آکر گواہی دی کہ وہ اُن سے بھی زیادتی کرتا رہا ہے تو عدالت نے اُس شخص کو 175سال کی سزا سنائی اور وہ اب جیل میں سزا کاٹ رہا ہے ۔لکھنے کا مقصد جس ملک میں عوام کو تحفظ نہ ملے تو لولے لنگڑے قوانین سے کیا فائدہ ۔ کالم لکھنے تک عدالت عظمیٰ نے سینیٹر نہال ہاشمی کی روایتی معافی کی درخواست مسترد کرکے 5سال کی نا اہلی اور ایک ماہ کی قید سنا کر اپنے وقار کو عظمت فراہم کردی ۔اب یہ بھی دیکھنا ہے کہ جو سرعام کہتے پھر رہے ہیں میرا کیا قصور تھا مجھے کیوں نکالا اور اُن کے حامی اس آگ کو مزید ہوا دینے میں لگے ہوئے ہیں کیا اس معاملے میںانصاف مل سکے گا؟

تازہ ترین