• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نہال ہاشمی، باز آجائو۔نہال ہاشمی، خدار ا، باز آجائو۔ پولیس کے حصار میں قید نہال ہاشمی، باز آجائو۔ مجرموں کے کٹہرے میں کھڑے نہال ہاشمی، باز آجائو۔ پابند سلاسل نہال ہاشمی، باز آجائو۔ جیل کی سلاخوں کے پیچھے کھڑے نہال ہاشمی، باز آجائو۔ہتھکڑیوں میں جکڑے ہوئے نہال ہاشمی ، باز آجائو۔ یہ وہ ملک نہیں ہے جہاں جمہوریت کی بات کی جائے ۔ یہ وہ دیس نہیں ہے جہاں ووٹ کی تقدیس کا نعرہ لگایا جائے۔ یہ وہ سماج نہیں ہے جہاں عوام کے حق حاکمیت کا علم بلند کیا جائے۔ یہ وہ علاقہ نہیں ہے جہاں سچائی کی تحسین ہو۔ یہ وہ معاشرہ نہیںہے جہاں وفاداری قابل عزت ہو۔ یہ وہ ملک نہیں جہاں کبھی آمروں کے تاج اچھالے اور تخت گرائے جائیں گے۔ یہ وہ مملکت نہیں جہاں کبھی بھی ر اج کرے گی خلق خدا۔ یہاں انصاف کے اپنے معیار ہیں۔ ٹھیک ہے ، ٹھیک ہے تم نے معافی مانگ لی۔ ٹھیک ہے، ٹھیک ہے تم نے تین دفعہ اپنا گناہ قبول کیا۔ ہر بار تمہاری معافی کی درخواست روند دی گئی۔ تمہارا جرم عظیم ہے۔ تم حالات کو بدلنا چاہتے تھے۔ تم اس ملک کی تاریخ دوبارہ لکھنا چاہتے تھے۔یہ گناہ عظیم ہے۔ یہ جرم سب سے بڑھ کر ہے۔ اس جرم پر کوئی معافی نہیں۔ اس خطا کی کوئی تلافی نہیں۔ تم نے انصاف کے ایوانوں کی توہین کی ہے۔ جو کہ قابل معافی نہیں ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہاں توہین کے بھی اپنے اپنے معیار ہیں۔ یہاں پی سی او کے تحت حلف لینا جرم نہیں۔یہاں آمروں کے ہاتھ مضبوط کرنا جرم نہیں۔ یہاں سیاست دانوں کی تضحیک جرم نہیں ہے۔ یہاں اسمبلی کی توہین جرم نہیں ہے۔ یہاںعدالت عالیہ کی دیواروں پر کپڑے سکھانا جرم نہیں ہے۔ یہاں چیف جسٹس کو ایک حکم پر برخاست کرنا جرم نہیں ہے۔ یہاں چیف جسٹس کو بالوں سے پکڑ کر سڑکوں پر گھسیٹنا جرم نہیں ہے۔ یہاں آئین کو قدموں تلے روندنا جرم نہیں ہے۔ یہاں خادم رضوی کی طرح عدالت کو سر عام گالیاں دینا توہین عدالت نہیں۔ ہاں البتہ یہاں ووٹ کی حرمت کی بات جرم ہے۔ یہاں جمہوریت کے حق میں بات کرنا جرم ہے۔ یہاں پارلیمنٹ کی بالادستی کا نعرہ جرم ہے۔ یہاں ڈکٹیٹروں کے خلاف تقریر جرم ہے۔ یہاں بے انصافی پر شکایت جرم ہے۔یہاں درد کے مارے چیخنا جرم ہے۔ یہاں رنج کے مارے ماتم کرنا جرم ہے۔ یہاں حق گوئی جرم ہے۔ یہاں سچائی جرم ہے۔ یہاں گویائی جرم ہے اور نہال ہاشمی تم ان سب جرائم میں ملوث ہو۔ خود بھی باز آجائو اور مریم نواز، مشاہد اللہ، پرویز رشید، رضا ربانی، جاوید ہاشمی، سعد رفیق اور رانا ثنا اللہ کو بھی یہ پیغام سنا دو۔ باز آجائو، خدارا باز آ جائو۔
احمد نورانی، عمر چیمہ، امتیاز عالم ، مطیع اللہ جان، ماروی سرمد اور تم جیسے کئی صحافیو۔ میرا تم کو یہی مشورہ ہے کہ باز آ جائو ۔ خدار باز آجائو۔ یہاں صحافت اس کا نام نہیں ہے جو تم کرتے ہو۔ یہاں خبر کی پرکھ اور تحقیق صحافت نہیں ہے۔ یہاں حق گوئی صحافت نہیں ہے۔ یہاں سچ بولنا صحافت نہیں ہے۔ یہاں پارلیمنٹ کی توقیر صحافت نہیں۔ یہاں جمہوری اقدار کی پاسبانی صحافت نہیں۔اس سماج میںمصلحت ، صحافت کہلاتی ہے۔ اس معاشرے میں آمروں کے سامنے سرنگوں ہو جانا صحافت کہلاتا ہے۔ یہاں وٹس ایپ کی گھنٹی صحافت ہے۔ یہاں ڈکٹیٹروں کی خوشامد صحافت کہلاتی ہے۔یہاں لٹیروں کی طرف داری صحافت کہلاتی ہے۔ یہاں اسکرین پر جھوٹ بولنا صحافت کہلاتا ہے ۔ یہاں قیامت کے آثار بتانا صحافت کہلاتا ہے۔ یہاں غربت کی تشہیر صحافت ہے۔ یہاں پگڑیاں اچھالنا صحافت ہے۔ یہاں شکریئے کی مہم چلانا صحافت ہے۔ یہاں پلاٹ لینا صحافت ہے۔ یہاں بلیک میل کرنا صحافت ہے۔یہاں سپریم کورٹ میں کھڑے ہو کر چیف جسٹس سے پوچھنا کہ آپ کیوں اسپتالوں کے چکر لگاتے ہیں صحافت کے زمرے میں آتا ہے اور تماشہ یہ ہے کہ اسے توہین نہیں کہا جا تا ۔ اسے عدلیہ کی تضحیک نہیں کہا جا تا۔
یہ وہ سماج ہے جہاں ایک مفرور ڈکٹیٹر ٹی وی پر آکر سینہ چوڑا کر کے کہتا ہے کہ مجھے راحیل شریف نے عدلیہ پر دباوئوڈال کر ملک سے فرار ہونے میں مدد دی اور اس پر توہین کا کوئی نوٹس نہیں آتا۔ پینتیس سال ڈکٹیٹروں نے اس ملک کے آئین کو پامال کیا۔ اس ملک کے خزانے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا۔ اس ملک کے کسی ڈکٹیٹر کو کبھی سزا نہیں ہوئی۔ یہاں انصاف نے ہمیشہ آمروں کے ہاتھ مضبوط کئے ۔ کبھی پی سی او کے تحت حلف لئے گئے۔ کبھی ڈکٹیٹروں کی خوشنودی کے لئے جمہوری حکمرانوں کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔کبھی وطن بد رکر دیا گیا۔ کبھی کرپشن کے الزام لگائے گئے۔ کبھی من پسند لوگوں کی جے آئی ٹی بنا دی گئی۔کبھی تیس سیکنڈ کے لئے توہین عدالت لگا کر کھڑے کھڑے فارغ کر دیا گیا۔ کبھی سیاستدانوں کو ہر تاریخ پر عدالتوں میں رگیدا گیا۔ پاناما میں جس وزیر اعظم کا نام تک نہیں تھا ،جس کو کروڑوں لوگوں نے اپنے ووٹ سے منتخب کیا تھا ، جس کے جلسوں میں نعرے لگے تھے، اس وزیر اعظم کو کھڑے کھڑے فارغ کر دیا گیا۔ اس پاناما میں چار سو پچاس لوگ اور بھی تھے انصاف کی دسترس کبھی ان تک نہیں ہوئی۔ اس لسٹ میں نام ایک جج کا بھی تھا اس کی صٖفائی کبھی طلب نہیں کی گئی۔ اس کو کبھی سزا نہیں سنائی گئی۔ اس کو کبھی نااہل نہیں کیا گیا۔
نہال ہاشمی ، جمہوریت پسند سیاستدانوں اور حق گو صحافیو۔ باز آجائو ۔ خدارا باز آجائو۔ ستر سال بیت گئے اس ملک میں انصاف نہیں ہوا۔ ستر سال ہو گئے اس ملک میں جمہوریت نہیں آئی۔ ستر سال ہو گئے عوام کی حکمرانی کا خواب پورا نہیں ہوا ہے۔ جو جمہوری دور بظاہر آئے وہ بھی آمریت کے سائے تلے سسکتے رہے۔ بلکتے رہے۔ان ستر سالوں میںاس ملک کے عوام اشرافیہ کو شکست نہیںدے سکے۔ ان ستر سالوں میں ایک بھی فتح اس ملک کے عوام کے نام نہ ہو سکی۔ ان ستر سالوں میں پارلیمنٹ سپر یم نہیں ہو سکی۔ تم چند لوگ وہ سب کچھ نہیں کر سکتے جو اس ملک میں کبھی بھی ہوا نہیں ہے۔جو اس ملک کی ریت نہیں ہے ، جو اس ملک کا رواج نہیں ہے ، جو اس سماج کا مزاج نہیں ہے۔ اس گھپ اندھیرے میں اب روشنی کی ایک ہی کرن ہے۔ اس تاریکی میں نور کا ایک ہی دیا ہے اور وہ اس ملک کے عوام ہیں۔ اب سب کچھ ان ہی کے ہاتھ میں ہے۔ اب کمال انہوں نے کرنا ہے۔ اب جلال ان پر قرض ہے۔ خوشی اس بات کی ہے کہ اب عوام وہ کر رہے ہیں جو انکی دسترس میں ہے۔ اشرافیہ کی ہر مہم پہلی دفعہ نیست و نابود ہو رہی ہے ۔ نواز شریف کو ہر ضمنی انتخاب یہی عوام جتوا رہے ہیں۔ اس سے گمان ہو رہا ہے کہ پہلی بار جبر کی زنجیر ٹوٹ جائے گی۔ اس سے خیال آتا ہے پہلی بار اشرافیہ شکست کھائے گی۔ اس سے توقع ہوتی ہے کہ شایداب اس ملک میں جمہوریت پھل پھول پائے گی اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو تو نہال ہاشمی، میرا مشورہ ہے باز آجائو ۔ خدارا باز آجائو۔ نہال ہاشمی کے بارے میں بات پشاور کے لاجواب شاعر مقبول عامر کی ایک مختصر نظم پر کرتا ہوں
فقیہ شہر بولا بادشاہ سے
بڑا سنگین مجرم ہے یہ آقا
اسے مصلوب کرنا ہی پڑے گا
کہ اس کی سوچ ہم سے مختلف ہے

تازہ ترین