• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

افواہیں دم توڑ گئیں ،شکوک و شبہات کے گہرے بادل چھٹ گئے،خدشات اور تحفظات اپنی موت آپ مر چکے،بے یقینی ختم ہو گئی،جمہوریت کی گاڑی ہچکولے کھاتی ،نشیب فراز سے گزرتی ہر رکاوٹ کو عبور کرتی بلآخر منزل مقصود کے قریب پہنچ چکی۔ استعفوں کی دھمکیوں اور اسمبلیوں کی تحلیل کا وقت بھی گزر چکا، حتمی منزل سے پہلے سینیٹ انتخابات کا آخری پڑاو آ چکا۔ ان ساڑھے چارسالوں میں کئی انہونیاں ہو گئیں ،کئی چہروں سے نقاب الٹ گئے توکئی مہرے پٹ گئے،ریاست کے اندر ریاست کے کئی روپ نظرآئے تو نظام کو یرغمال بنانے والے کئے بہروپ بھی عریاں ہو گئے،مفادات کے کھیل میں اصولوں کو پس پشت ڈالتے کئی قد آور بونے بنتے دکھائی دئیے تو کڑے وقت میں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے والے کئی ابن الوقت بھی نمایاں ہو گئے، اقتدار کو دوام دینے کیلئے اپنے ہی ساتھیوں کو قربانی کا بکرا بنانے کارویہ آشکار ہوا تو کرسی چھن جانے پرپارلیمان کی اہمیت اور ووٹ کے تقدس کا درد جاگتا دکھائی دیا۔ احتساب کے نام پر گھڑی گئیں پس پردہ کئی کہانیاں طشت از بام ہوئیں تو کئی مقدس اداروں کا بھرم ٹوٹا نہیں تو کھل ضرور گیا۔زنجیر عدل کبھی ہلانے پر بھی جنبش کرتی نظر نہ آئی تو کبھی انصاف کا ترازو ڈولتا دکھائی دیا، کبھی رقیب کے لب اتنے شیریں لگے کہ گالیاں کھا کے بھی بیمزہ نہ ہوئے تو کبھی اتنی حساسیت عود آئی کہ التجا اور درگزر کی استدعا بھی لبھا نہ سکی۔ اسی عرصے میں ریاست کے چوتھے ستون کہلائے جانے والے میڈیا کی بنیادیں بھی کھوکھلی ہوتی نظر آئیں تو آزاد صحافت کا پردہ چاک ہوتا بھی دکھائی دیا۔ نصف عشرے کے اس مد و جزر نے بلآخر ایک ہی سبق ازبرکرایا کہ پاکستان کا روشن مستقبل اور اداروں کی مضبوطی حقیقی جمہوریت کے تسلسل میں ہی پنہاں ہے۔ جمہوریت کی گاڑی پٹری پر رواں دواں رہے گی تو بے شک جتنے اسپیڈ بریکر آئیں ،منزل کبھی کھوٹی نہیں ہو گی۔ جمہوریت کے ساتھ حقیقی کا لفظ اس لئے استعمال کیا کیوںکہ اب بھی جس نظام کو ہم جمہوریت کا نام دیتے ہیں اس میں کئی خامیاں ، کمزوریاں اورغلطیاں ہیں جن کی اصلاح ضروری ہے۔ ان میں سب سے اہم خامی اس ادارے کے نمائندوں کے چنائو کا طریقہ کار ہے جسے ہم ہاوس آف فیڈریشن یعنی سینیٹ کا نام دیتے ہیں۔ پاکستان کے تمام صوبوںپر مشتمل اکائیوں کو مساوی نمائندی دینے کیلئے 1973کے متفقہ آئین میں بائی کیمرل لیجسلیچر کا نظام متعارف کرایا گیا اور قومی اسمبلی کے ایوان بالا کے طور پر سینیٹ کا وجود عمل میں آیا۔ سینیٹ کے قیام کا مقصد انتہائی اہم تھا کیوںکہ قومی اسمبلی میں صوبوں کی نمائندگی آبادی کے تناسب سے تھی اور یوں سب سےزیادہ آبادی والے صوبے کی سب سے زیادہ نشستیں ہونے کے باعث دیگر صوبوں کی حق تلفی یا ان میں احساس محرومی فطری امر تھا۔ اس سینیٹ میں جہاں تمام صوبوں کو مساوی نمائندگی دے کر پاکستان کی تمام اکائیوں کے حقوق کا یکساں تحفظ کرنے کا انتظام کیا گیا وہیں اس کے تسلسل کو یقینی بنانے کیلئے ایسا نظام وضع کیا گیا کہ اس ایوان کے آدھے ارکان اپنی چھ سالہ مدت پوری ہونے پر ہر تین سال کے بعد ریٹائرڈ ہو جاتے ہیں اور یوں سینیٹ بطور ادارہ تحلیل نہیں ہوتا۔ تاہم یہ بھی ہماری بدقسمت تاریخ ہے کہ آمریت کے پنجوں سے سینیٹ جیسا مستقل ادارہ بھی محفوظ نہ رہ سکا اور 1977 اور 2002 میں اسے بھی دو بار معطل کیا گیا۔ اب تین سال بعد 11 مارچ کو سینیٹ کے اپنی چھ سالہ مدت پوری کرنے والے 52 سینیٹرز کی جگہ نئے ارکان کے انتخاب کیلئے الیکشن کمیشن نے طبل جنگ بجا دیا ہے جس کے مطابق 3 مارچ کو جمہوری قوتوں کے درمیان یہ اہم معرکہ لڑ اجائے گا۔ پنجاب اور سندھ سے بارہ بارہ جبکہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے گیارہ گیارہ سینیٹرز کا انتخاب عمل میں لایا جائے گا جو وہاں کی صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کریں گے۔ ان میں سات جنرل نشستیں،دو ٹیکنو کریٹس اور دو خواتین کی نشستیں شامل ہیں جبکہ پنجاب اور سندھ میں ایک ایک اقلیتی نشست پر بھی انتخاب ہو گا۔ صدر مملکت نے اسلام آباد سے دو سینیٹرز کے انتخاب کے طریقہ کار کیلئے بھی صدارتی فرمان جاری کر دیا ہے جس کے تحت ماضی کی طرح قومی اسمبلی کے تمام ارکان ان کا انتخاب کریں گے۔فاٹا کے سینیٹرز کے انتخاب کا طریقہ کار بھی رواں ہفتے جاری کر دیا جائے گا اور غالب امکان کہ یہاں بھی فاٹا کے ارکان قومی اسمبلی کی طرف سے اپنے سینیٹرز کے انتخاب کے پرانے طریقہ کار کو بروئے کار لایا جائے گا۔ ماضی کی طرح اس بار بھی سینیٹ الیکشن کے شیڈول کے اعلان کے ساتھ ہی ہارس ٹریڈنگ کی باز گشت سنائی دینے لگی ہے اور بھائو تائو شروع ہو چکے ہیں۔ بلوچستان میں ن لیگ کے وزیر اعلیٰ کی تبدیلی کے ذریعے یہ اقدام قبل از وقت ہی شروع کیا جا چکا ہے اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن اس اسمبلی سے بھی سینیٹرز منتخب کرانے کے دعوے کر رہے ہیں جہاں ان کا ایک بھی رکن اسمبلی موجود نہیں ہے۔ آئین کے مطابق جس سیاسی جماعت کی جس صوبے میں جتنی نمائندگی ہو اسی تناسب سے اسے سینیٹ میں نشستیں مل سکتی ہیں اور یہ بلکل واضح ہوتا ہے کہ اگر کسی جماعت کو اس کی صوبائی نشستوں یا اتحادی جماعتوں کے ساتھ ایڈجسمنٹ کے مطابق حصے سے زیادہ نشستیں مل جائیں تو یقیناً اس کے پیچھے دولت کا استعمال کارفرما ہوتا ہے۔ صوبائی اسمبلیوں میں اگر سیاسی جماعتوں کی موجودہ عددی پوزیشن کا جائزہ لیا جائے تو محتاط اندازے کے مطابق سینیٹ الیکشن میں مسلم لیگ ن 17 سے 18 نئے سینیٹرز منتخب کراسکتی ہے،پاکستان پیپلز پارٹی کو سینیٹ کی 8 نشستیں ملنے کا امکان ہے،اسی طرح پاکستان تحریک انصاف اپنے 6 نئے سینیٹرز کو ایوان بالا کا حصہ بنا سکتی ہے۔ ایم کیو ایم کو 4 نشستیں حاصل ہو سکتی ہیں جبکہ جے یو آئی ف 2 نئے سینیٹرز بنانے کی پوزیشن میں ہے،عوامی نیشنل پارٹی صرف 1 سینیٹر کی نشست حاصل کر سکتی ہے جبکہ مسلم لیگ ق کا کوئی نیا سینیٹر آنے کا امکان نہیں تاہم بلوچستان یا پنجاب میں اتحادی جماعتوں کی حمایت سے وہ 1 سینیٹر کی نشست حاصل کر سکتی ہے۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی 3 جبکہ نیشنل پارٹی بھی مزید3 سینیٹرز بنا سکتی ہے۔ بی این پی عوامی کو کوئی نشست نہیں مل سکتی جبکہ بی این پی مینگل ایک نشست حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہے،جماعت اسلامی خیبر پختونخوا سے اپنا ایک سینیٹر منتخب کرا سکتی ہے۔اس تناسب سے مسلم لیگ ن ایوان بالا کی 36 نشستوں کے ساتھ نہ صرف سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آ سکتی ہے بلکہ اتحادیوں کی حمایت کے ساتھ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے عہدے بھی حاصل کر سکتی ہے۔ عموما سینیٹ کی نشستوں کی خریدو فروخت کا مذموم دھندہ بلوچستان اور فاٹا میں زوروں پر ہوتا ہے جبکہ خفیہ رائے شماری کے تحت سینیٹ الیکشن کے ترجیحی اور ٹرانسفرایبل ووٹ کے گنجلک طریقہ کار نے پیسے کے زور پر سینیٹرز منتخب کرانے کے عمل کو مذید آسان کر دیا ہے۔ یوں وطن عزیز میں سینیٹ الیکشن پیسے کا وہ کھیل بن چکا ہے جوجمہوری نظام کو منہ چڑاتا نظر آتا ہے۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ 2015 میں ہونے والے سینیٹ انتخابات کے موقع پہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے سخت تحفظات ظاہر کئے تھے کہ ان کے ارکان کی خریداری کیلئے بازار گرم کر دیا گیا ہے جبکہ اس بار بعض رہنماوں کے ساتھ سابق وزیر اعظم نواز شریف بھی احتجاج کر رہے ہیں کہ سینیٹ الیکشن کیلئے ہارس ٹریڈنگ کی جا رہی ہے لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں نےحقیقی جمہوریت کو داغدار کرنے والے اس عمل کو روکنے کیلئے انتخابی اصلاحات کے بل میں ایسی قدغنیں شامل کیوں نہیں کیں؟ گزشتہ سینیٹ الیکشن سے عین قبل ن لیگی حکومت نے خفیہ ووٹنگ کی بجائے اوپن بیلیٹنگ کا نظام متعارف کرانے کی جو کوشش کی تھی اس پر اس بار بروقت اتفاق رائے حاصل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی؟ ڈی فیکشن کلاز کو سینیٹ الیکشن پر نافذ کرنے کی ترمیم منظور کرانے کی سعی کیوں نہیں کی گئی؟ پارلیمنٹ کی بالا دستی اور جمہوریت کے تسلسل کے دعوے اپنی جگہ لیکن سیاسی جماعتیں یاد رکھیں جب تک سینیٹ الیکشن میں عوام کے مینڈیٹ کا سودا کرنیوالوں کا محاسبہ نہیں کیا جاتا تب تک حقیقی جمہوریت قائم نہیں ہو سکتی۔

تازہ ترین